ہوا اورپانی سے ڈیزل کی تیاری

نسیم کوثر  اتوار 24 مئ 2015
پانی کے مالیکیولز سے ہائیڈروجن کی تیاری کے لیے توانائی کی ایک بڑی مقدار درکار ہے۔ فوٹو : فائل

پانی کے مالیکیولز سے ہائیڈروجن کی تیاری کے لیے توانائی کی ایک بڑی مقدار درکار ہے۔ فوٹو : فائل

بھاپ کے انجن کی ایجاد کے ساتھ ہی صنعتی دور کا آغاز ہوا جس نے آگے چل کر سائنسی معجزوں سے بھرپورموجودہ تہذیب کی بنیاد رکھی جسے انسانی تاریخ کی جدید ترین تہذیب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ صنعت اور سائنسی ترقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

ہم کسی بھی سطح پر سائنس کو صنعتی ترقی سے الگ کر کے نہیں پرکھ سکتے۔ لیکن ٹھہریے! ان دونوں کی ترقی کا انحصار ایک اور مادے پر ہے جسے ’فوسل فیول‘ کہتے ہیں۔ فوسل فیول نے اس سائنسی و صنعتی انقلاب میں کیٹالسٹ کا کردار ادا کیا ہے۔ انسان نے توانائی کے اس منبع کو دریافت کیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر لی۔آج صنعت کی دیو نما مشینری سے لے کر سڑک پہ دوڑتی چھوٹی سی پک اپ تک جو کسی لیباٹری میں سائنسی آلات کی منتقلی کا کام کرتی ہے، ان سب کا انحصار براہِ راست فوسل فیول کی دستیابی پر ہے۔ لیکن ناقابلِ تجدید توانائی کا یہ ذریعہ اب ختم ہونے کو ہے حالانکہ مارکیٹ میں اس کی طلب روز بروز بڑھ رہی ہے۔

فوسل فیول کے بڑھتے استعمال اور گھٹتی پیداوار کے تناظر میں اس وقت دنیا کے پہلے تین بڑے مسائل میں پہلی یا دوسری جگہ فوسل فیول کے متبادل کی تلاش ہے۔ فوسل فیول کے تیزی سے گھٹتے ہوئے ذخائر توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش میں بطورِ محرک کام کر رہے ہیں لہذا اس وقت عالم یہ ہے دنیا کے تمام صنعتی و سائنسی ماہرین فوسل فیول یا اس کے ہم پلہ توانائی کے متبادل کی تلاش میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ کیونکہ فیول کے بغیر یہ صنعتی و سائنسی انقلاب مٹی کا ڈھیر ثابت ہو گا۔ کئی ممالک اور کمپنیاں زور و شور سے اس ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔

آئے روز دنیا کے مختلف کونوں سے اس قسم کی بازگشت سنائی دیتی رہتی ہے کہ فلاں ملک میں یا فلاں کمپنی نے پرانی جینز، سویابین کے تیل یا محض ہائیڈروجن سے ڈیزل تیار کر لیا ہے۔ کچھ کمپنیاں تو پانڈا پوپ میں پائے جانے والے خوردبینی جانداروں کی مدد سے بمبو پودے کو فیول میں تبدیل کرنے کی سعی کرتی پائی گئی ہیں۔ مگر یہ تمام ترکوششیں ابھی تک بے سود رہی ہیں کیونکہ ان کے طریقہ کار سے تیل کی تیاری میں لاگت زیادہ آتی ہے یا پھر وضع کردہ طریقہ کاربڑے پیمانے پر فیول کی تیاری کے لیے قابلِ عمل نہیں۔

پچھلے دنوں جرمنی کی ایک آٹو موبائل مینوفیکچرنگ کمپنی نے اس وقت یہ اعلان کرکے دنیا کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا کہ اس نے کاربن نیوٹرل ڈیزل فیول ایجاد کر لیا ہے جو محض پانی اور کاربن ڈائی آکسائید سے بنا ہے۔ اس فیول کی تیاری کے لیے قابلِ تجدید توانائی ( ایسی توانائی کا ذریعہ جسے دوبارہ بنایا جا سکے مثلاً ہوا، پانی) کا ایک ذریعہ درکار ہوتا ہے۔ اس ڈیزل کو ’ای ڈیزل‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کرسٹل کی طرح کا شفاف آئل ہے۔ فی الوقت جرمنی کے وزیرمملکت برائے تعلیم وتحقیق جوہنا وانکا، اپنی گاڑی میں یہ ’ای ڈیزل‘ استعمال کر رہے ہیں۔

سننے میں یہ واقعی حیرت انگیز ہے کہ توانائی کی جس قسم کو حاصل کرنے کے لیے ہم برسوں سے پریشان اور ہلکان ہورہے ہیں وہ ہمارے اردگر گرد لامحدود اور با آسانی دستیاب مادوں سے تیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہماری حیرت میں مزید اضافہ کرتی ہے کہ اس ڈیزل میں توانائی اس قدر ہے کہ آوڈی ایٹ جسی دیوہیکل نما گاڑی اس ڈیزل پر اچھی کارکردگی دکھاتی ہے۔ آوڈی کمپنی اس ڈیزل کی تیاری کے لیے ڈریزن، جرمنی میں ایک نیا پلانٹ لگا رہی ہے۔ اس پلانٹ کو کلین ٹیک کمپنی ’سن فائر‘ چلائے گی۔ آنے والے مہینوں میں یہ پلانٹ مصنوعی طور پر تیار شدہ ڈیزل کی 160 لیٹرز یومیہ پیداوار دے گا۔

اگرچہ کمرشل بنیادوں پر دیکھا جائے تویہ پیداوار یقینی طور پر مضحکہ خیزحد تک ناکافی معلوم ہوتی ہے۔ مگر ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ ابتدا ہے۔ اگر یہ پراجیکٹ کامیاب رہا، ڈیزل کی تیاری کے طریقہ کار کو مزید آسان اور بہتر بنایا جا سکا، اس کی تیاری کے لیے مطلوب خام مال کا حصول با آسانی ممکن ہوا تو آنے والے وقت میں پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکے گا جو خوش آئند ہے۔

’ای ڈیزل‘ کی ایجاد اور مستقبل میں اس کی کامیابی یا اسے بطور متبادل توانائی کے ذریعہ کا سٹیٹس حاصل کرنے کا انحصار اس کی پیداوار کے طریقہ کار اور لاگت پر منحصر ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کی تیاری کا باریک بینی سے جائزہ لیں تا کہ اس کی لاگت اور طریقہِ پیداوار کو زیرِ بحث لایا جا سکے۔

ای ڈیزل کی تیاری میں پرائمری پراڈکٹ نیلے رنگ کا ایک مائع ہے۔ جسے خام تیل کا نام دیا گیا ہے۔ یہ بلیو کرڈ تین مرحلوں میں بنتا ہے۔

پہلے مرحلے میں پانی کے مالیکیول کو آکسیجن اور خالص ہائیڈروجن میں توڑنے ( ریورسیبل ایلیکٹرولائسز) کے لییتوانائی کا ایک منبع درکار ہوتا ہے۔ قابلِ تجدید ذرائع مثلاً ہوا کی توانائی، شمسی توانائی یا ہائیڈل پاور اس مقصد کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے۔ آوڈی نے اس مقصد کے لیے بائیو گیس استعمال کی ہے۔

دوسرے مرحلے میں اس ہائیڈروجن کو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے تیار شدہ کاربن مونو آکسائیڈ میں ملایا جاتا ہے۔ اس مکسچر کو بلند ٹمپریچر و پریشر پر گرم کیا جاتا ہے جو کیمیائی تعامل کے دوران ہائیڈروکاربنز کی لمبی زنجیروں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ہائیڈرو کاربن کے یہی کمپاؤنڈز دراصل بلیو کرڈ ہیں جو ریفائینگ کے بعد کرسٹل کلیر ای ڈیزل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

سن فائر کمپنی کے تجزیے کے مطابق ناصرف ای ڈیزل ماحول دوست ہے بلکہ فوسل فیولز کی نسبت یہ بہتر جلتا ہے۔ ای ڈیزل کی انرجی ایفیشینسی 70 فی صد ہے۔ ای ڈیزل پر انجن خاموشی سے چلتا ہے اور آلودگی کے عناصر بھی کم مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔‘‘

فوسل فیولز جلتے وقت کاربن سلفر ڈائی آکسائیڈ گیس ہوا میں چھوڑتے ہیں جو ایک مہلک عنصر ہے۔ سلفر ڈائی آکسائیڈ انسانوں میں کینسر جیسے موذی مرض سمیت گلے اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ پودوں کی نشوونما میں بھی خلل ڈالتی ہے۔ ای ڈیزل ہماری گاڑی کو مکمل طور پر سلفر ڈائی آکسائیڈ کے اخراج سے نجات دلائے گا۔ دوسری طرف اس کی تیاری کے لیے درکار کاربن ڈائی آکسائیڈ کا حصول ہوا سے ممکن ہے۔ یوں ہوا میں آلودگی کے ساتھ ساتھ گلوبل وارمنگ کا سبب بننے والی گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں بھی کمی لائی جاسکتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدائی طور پر محض 160 لیٹرز کی پیداوارمارکیٹ میں کوئی بڑا فرق پیدا نہیں کرسکتی۔ لیکن ’آوڈی‘ اور ’سن فائر‘ ایک بڑی فیکٹری کے قیام کے لیے سرگرداں ہیں تا کہ ای ڈیزل کی پیداوار کو بڑھایا جا سکے۔ ان کا خیال ہے کہ جب ایک دفعہ پیداوار بڑھ گئی تو ای ڈیزل کی قیمت ایک سے 1.5 یورو مقرر کی جا سکے گی۔ اس قیمت کا انحصار ای ڈیزل کی تیاری کے لیے درکار توانائی کی قیمت پر ہو گا۔ یاد رہے کہ جرمنی میں فوسل فیول کی قیمت اس وقت ایک اعشاریہ پانچ یورو ہے۔ یوں ای ڈیزل میں فوسل فیول کا مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت پنہاں ہے۔ کمپنی کاایک ذمہ دارکہتا ہے:’’ اگر ہمیں پہلا سیلزآرڈر ملتا ہے تو ہم اپنی ٹیکنالوجی کو کمرشلائز کرنے کو تیار ہیں‘‘۔

تاہم ناقدین کا خیال ہے کہ ماضی کی کوششوں کی طرح توانائی کے متبادل کی اس کوشش میں بھی کسی بڑی کامیابی کے امکانات اتنے ہی ہیں جتنے کہ باقی طریقہ ہائے کار میں رہے ہیں۔ سبب یہکہ پانی کے مالیکیول کو توڑنے اور ہائیدروجن اور کاربن مونو آکسائید کا عمل کرانے کے لیے توانائی کی ایک بڑی مقدار درکار ہو گی۔ لہذا پیداواری لاگت اتنی زیادہ ہو گی کہ کمرشل پیمانے پر ای ڈیزل صارفین کی قوتِ خرید سے تجاوز کر جائے گا۔ ناقدین سمجھتے ہیں کہ ای ڈیزل کی ایجاد اچنھبے کی بات نہیں ہے۔ آوڈی دنیا کی پہلیکمپنی نہیں جس نے یہ کارنامہ سر انجام دیا ہے۔

ڈیزل بنانے کا یہ طریقہ بھی نیا نہیں ہے۔ ای ڈیزل کی تیاری میں استعمال ہونے والا طریقہ ’فیشر ٹراپس‘ کہلاتا ہے۔ سائنسدان 1920ء سے اس طریقہ سے واقف ہیں۔ جرمنوں نے دوسری جنگِ عظیم میں کوئلے کو ڈیزل میں تبدیل کرنے کے لیے اس طریقہ کار کو تب اپنایا تھا جب فیول کی سپلائی بحران کا شکار ہو گئی تھی۔

آج کل یہ طریقہ کار دنیا بھر کی مختلف کمپنیوں کے زیرِ استعمال ہے بالخصوص وہ ممالک جن کے پاس آئل کے ذرائع کم ہیں مگر گیس اور کوئلے کے ذخائر کافی ہیں، اس طریقہ کار کو استعمال کرتے پائے گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ کاربن نیو ٹرل بائیو فیولز کی تیاری میں بھی آوڈی کمپنی نئی نہیں ہے۔ چورین نامی ایک اور جرمن کمپنی ماضی میں بائیو گیس اور فشر ٹراپس پراسس کے ذریعے بائیو فیول کی تیاری کی کوشش کر چکی ہے۔ اس کمپنی کو بائے شیل اور وولکس واگان کی سرپرستی بھی حاصل رہی ہے مگر 2011ء میں مروجہ طریقہ کار میں قابلِ عمل تکنیکوں کے فقدان کی وجہ سے اس کمپنی نے دیوالیہ پن کا اعلان کر دیا تھا۔

یہ بات بعید از عقل لگتی ہے اگر ہم یہ دعویٰ کریں کہ ماضی میں کوئی تجربہ ناکام رہا ہے تو وہ آئندہ بھی ناکام ہی رہے گا۔ سائنسی منطق اس کے خلاف ہے۔ ’ناکامی کامیابی کی سیڑھی ہے‘ کے مقولے کے مطابق ناکامی بلکہ بار بار کی ناکامی زیرِ تجربہ طریقہ کار میں ترویج کا باعث بنتی ہے۔ ہر ناکامی کے بعد ماہرین ناکامی کے عوامل کو ڈھونڈ کر خارج کرتے جاتے ہیں، اس طرح ریفائنگ کے عمل سے گزرتے ہوئے ایک ایفیشنٹ سسٹم یا ٹیکنالوجی سامنے آتی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آوڈی کی ٹیکنالوجی چورین کی ٹیکنالوجی سے ایڈوانس اور زیادہ پریکٹیکل ہوگی اور یہ چورین کی تاریخ کو نہیں دہرائے گی۔

پانی کے مالیکیولز سے ہائیڈروجن کی تیاری کے لیے توانائی کی ایک بڑی مقدار درکار ہے۔ اس عمل کے لیے درجہ حرارت آٹھ سو ڈگری سنٹی گریڈ یا اس سے زائد ہونا چاہیے۔ اس کے لیے قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کردہ توانائی ممکنہ طور پر مہنگی پڑ سکتی ہے۔ اس صورتِ حال میں تو شائد یہ مطلوبہ نتائج دینے سے مکمل طور پر قاصر ہو جائے جب ہمیں ای ڈیزل لاکھوں بیرل یومیہ کی مقدار میں درکار ہو گا۔

مگر ایٹمی توانائی کی شکل میں اس کا ایک معقول حل نکل سکتا ہے۔ ایٹمی توانائی جہاں بجلی بنانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے وہاں اسے پانی سے ہائیدروجن کی تیاری میں با آسانی استعمال کیا جا سکتا ہے، بس! آوڈی کو اپنی ٹیکنالوجی میں تھوڑی ترمیم کرنی پڑے گی۔ آوڈی کے مطابق درجہ حرارت بڑھانے سے الیکٹرولائسز کے عمل کو تیز کیا جا سکتا ہے اور اس عمل میں ضائع ہونے والی توانائی کو دوبارہ قابلِ استعمال بھی بنایا جا سکتا ہے۔ ان دعووں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم فوسل فیول فری ایرا میں داخل ہو رہے ہیں جہاں گاڑیوں کی بیٹری کی لائف ٹائم بڑھا کر ہم مزے سے اپنی گاڑی سڑک پر دوڑا سکیں گے اس احساسِ جرم کے بغیر کہ ہم ہوا میں زہریلی گیسیں چھوڑ رہے ہیں۔

سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ انسٹیٹوٹ 2013ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خام تیل کی پیداوار 64000 بی بی ایل ڈی تھی جب کہ تیل کا مصرف 437000 بی بی ایل ڈی رہا۔ گویا ملکی زرِ مبادلہ کا ایک بڑا حصہ تیل کی درآمد میں خرچ ہو جاتا ہے۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان بھی توانائی کے نئے اور سستے ذرائع کی تلاش میں سر گرداں ہو۔ ہماری یونیورسٹیوں اور ریسرچ کے اداروں کو بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے فیشر ٹراپس کے طریقہ کار پر تحقیق کرنی چاہیے۔ حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ ای ڈیزل ٹیکنالوجی کی جلد از جلد درآمد کے ساتھ ساتھ فیشر ٹراپس کے عمل استعمال کرتے ہوئے ای ڈیزل کی طرز پر مقامی سطح پرتیل کی پیداوار کی ٹیکنالوجی کی ایجاد کے لیے فنڈز مختص کرے تاکہ ٹیکنالوجی کے موجودہ بلند آسمان پر ہم بھی ستارے بن کر چمک سکیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔