ایسا اللہ بخش سومروکہاں سے لائیں؟

زاہدہ حنا  اتوار 24 مئ 2015
zahedahina@gmail.com

[email protected]

14 مئی 2015 کا سورج نکلا تو بھلا کس نے سوچا تھا کہ آج کا دن کراچی اور سندھ کے نہایت باشعور، ذمے دار اور خدمت گزار شہریوں کو صرف اس لیے گولیوں کی باڑھ پر رکھ لیا جائے گا کہ وہ مسلک کے اعتبار سے اسماعیلی تھے۔ ایک ایسی برادری جو ساری دنیا میں اپنی صلح جوئی، انسان دوستی اور خدمت گزاری کے لیے مشہور ہے، اسے آخری درجے کی سفاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

اسماعیلی مبلغین جو تیسری ہجری میں سندھ آئے انھوں نے مقامی لوگوں سے ہم آہنگ ہونے کی کامیاب کوشش کی۔ یہ بھی ہمارے اسماعیلی داعی تھے جنھوں نے صوفی روایات کا پرچار کیا۔ یہی تھے جن کے زیر اثر سندھی ہندو حضرت لال شہباز قلندر کو راجا بھرتری کے نام سے یاد کرتے رہے۔ انھوں نے ہی سندھ میں ان خانقاہوں اور درگاہوں کی بنیاد رکھی جن میں مظلوم سندھی عوام کو جابر حکمرانوں کے ظلم و ستم سے پناہ ملتی تھی۔ انیسویں صدی سے آج تک ان کے قائم کیے ہوئے تعلیمی اور طبی سہولتوں کے ادارے کسی مسلک اورکسی زبان کی تقسیم کے بغیر یہاں آباد تمام لوگوں کی خدمت کررہے ہیں۔

اسی شام کراچی میں سندھ صوفی انسٹی ٹیوٹ کے خادم حسین سومرو کی جانب سے اللہ بخش سومرو کا یوم شہادت منایا گیا۔ وہ سندھ کے ان بیٹوں میں سے تھے جنھوں نے سندھ کو بمبئی پریذیڈنسی سے الگ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انھوں نے سائیں جی ایم سید، سرعبداللہ ہارون، سرشاہ نواز بھٹو کے ساتھ مل کر ایک غیر فرقہ وارانہ سیاسی جماعت ’’سندھ یونائیٹڈ پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور اس میں کامیاب ہوئے لیکن سیاسی جوڑ توڑ کی بنا پر ابتدا میں وہ سندھ کے وزیراعظم نہ بن سکے تاہم آخرکار وہ سندھ کے وزیراعظم بنے۔ یاد رہے کہ ان دنوں صوبے کا وزیراعلیٰ، وزیراعظم کہلاتا تھا۔ شہید اللہ بخش سومرو، جمہوری مزاج رکھتے تھے ۔ اسی لیے جب وہ برسراقتدار آئے تو انھوں نے دربار اور کرسی کا ادارہ ختم کیا۔ مسجد منزل گاہ کا قضیہ اٹھا تو انھوں نے مذہبی بنیادوں پر ان لوگوں کی بات ماننے سے انکارکردیا جو سیاسی انتہاپسند تھے اور اس جھگڑے کے ذریعے سندھیوں کو ہندو اور مسلمان میں تقسیم کرنا چاہتے تھے۔

وہ اپنے لوگوں کے لیے آزادی کے خواب دیکھتے تھے۔ سندھ اسمبلی میں انھوں نے جاگیرداری کے خلاف بل پیش کیا جو منظور ہوا۔ اسی دوران آل انڈیا کانگریس نے برطانوی حکومت کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘کی مہم چلائی۔ یہ مہم انگریز حکمرانوں کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ انھوں نے اسے سختی سے کچلا۔ انگریزوں کے اس رویے پر شہید سومرو نے حکومت سے شدید احتجاج کیا۔ اسی حوالے سے انھوں نے اس وقت کے برطانوی وزیراعظم سرونسٹن چرچل کے نام ایک خط لکھا جس کی ہر سطر سے بغاوت عیاں تھی۔ اسی خط میں انھوں نے برطانوی سرکار کی طرف سے ملنے والے ’’آرڈر آف دی برٹش ایمپائر‘‘ اور ’’خان بہادر‘‘ کے خطابات کو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ ایک ایسی صورت حال میں جب ان کے لوگوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہورہا ہو، وہ ان خطابات کو اپنی اور اپنی قوم کی توہین سمجھتے ہیں۔

سندھ کے گورنر سر ڈاؤ کے لیے یہ باغیانہ کلمات ناقابل برداشت تھے۔ سزا کے طور پر سرڈاؤ نے اللہ بخش سومروکو فوراً وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کردیا۔ گورنر کے اس غیر جمہوری رویے پر ہندوستان بھرکی جمہوری جماعتوں نے احتجاج کیا۔ برطانوی حکومت نے محسوس کیا کہ اپنی سیاسی بصیرت اور جمہوری قدروں کی پاسداری کی بنا پر اللہ بخش سومرو آنے والے دنوں میں مضبوط اپوزیشن لیڈرکا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ان کے تعلقات ہندوستان کی تمام اہم سیاسی جماعتوں سے تھے۔ انھوں نے رابندر ناتھ ٹیگور اور بعض دوسرے اہم قومی لیڈروں کی طرح برطانوی خطابات واپس کر کے عوام میں اپنی پسندیدگی میں اضافہ کرلیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی لوگوں کو یہ بھی یاد تھا کہ جب سندھ میں تباہ کن سیلاب آیا تو وہ نہ صرف بڑے شگافوں کو پُر کرا رہے تھے بلکہ جب حالات بہت نازک ہوگئے تو انھوں نے عوام کی زمینیں اور ان کی فصلیں بچانے کے لیے سیلاب کا رخ اپنی زمینوں کی طرف موڑ دیا تھا۔ اسی طرح لوگوں کو یہ بھی یاد تھا کہ یہ وہی تھے جنھوں نے برطانوی حکام کو اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ وہ سکھر کے مقام پر دریائے سندھ پر ایک بیراج بنائیں جو سندھ کی زرعی تقدیر بدل دے گا۔

وہ ایک سادہ مزاج، عوامی آدمی تھے۔ ان کے تن پرکھدرکا لباس ہوتا اور اپنی گاڑی پر وزیراعظم کا جھنڈا لگانے کی انھوں نے ممانعت کردی تھی۔ وہ سفر کرتے تو ان کے ساتھ محافظ نہ ہوتے۔ ان رویوں کو نظر میں رکھئے اور پھر آج کے سیاستدانوں سے ان کا مقابلہ کیجیے تو یقین نہیں آتا کہ ہم میں ایسے شاندار لوگ بھی گزرے ہیں جو سیاست کو عبادت سمجھتے تھے۔ اپنے قتل سے چند دن پہلے انھوں نے کہا تھا کہ ’’دو باتوں پر میرا ایمان ہے۔ میں برطانوی سامراج کو شکست دینا چاہتا ہوں اور اس کے ساتھ ہی میں نازی ازم اور فاشزم سے بھی لڑنا چاہتا ہوں۔ یہ میرا پیدائشی حق ہے کہ میں دونوں سے جنگ کروں۔‘‘

برطانوی راج کے لیے وہ افراد نہایت ناپسندیدہ تھے جو اس قسم کے خیالات رکھتے ہوں۔ یہی اسباب تھے جن کی بنا پر وہ وزارت عظمیٰ سے معزول کیے گئے۔ اللہ بخش سومرو ایک وسیع المشرب، روادار اور جمہوریت پسند انسان تھے۔ گورنر سندھ اور دوسرے اعلیٰ برطانوی افسران یہ جانتے تھے کہ اللہ بخش سومرو اور ان جیسے دوسرے ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو جوڑ کر رکھنا چاہتے ہیں۔یہ بات برطانوی راج کی ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے یکسر خلاف تھی۔ یہی وجہ تھی کہ عین ان دنوں جب ہندوستان کی آزادی کی تحریک عروج پر تھی 14 مئی 1943 کو اللہ بخش سومرو شہید کردیئے گئے، ان کی شہادت کا واقعہ سندھ ہی نہیں پورے ہندوستان کے لیے ایک تہلکہ خیز سانحہ تھا۔

اس زمانے کے نہایت اہم اخبار ’’زمیندار‘‘ کے مدیر مولانا ظفر علی خان نے لکھا کہ ’’اللہ بخش سومرو پر جو گولی چلی، اس کی گونج سارے ہندوستان میں سنی گئی۔یہ گفتگو اور گولی کے درمیان مقابلہ تھا جس میں گولی جیت گئی۔ اس واقعے کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے کیوں کہ اگر آج ایک شخص اپنے مختلف خیالات اور موقف کی بنا پر، اپنے مسلک کی بنیاد پر قتل کیا جاسکتا ہے تو کسی بھی دوسری جماعت کے رہنما محفوظ نہ رہ سکیں گے۔‘‘ مولانا ظفر علی خان نے مئی 1943 میں لکھا تھا کہ ’’اگر اس دہشت گردی کو فوری طور پر روکنے کی کوشش نہیں کی گئی تو یہ ایک مستقل حیثیت اختیار کرلے گی۔‘‘مولانا کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ مہاتما گاندھی کے قتل سے آج تک دہشت گردی کا یہ کھیل کامیابی سے جاری ہے۔

اللہ بخش سومرو کی شہادت نے سارے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ سیاست میں دہشت گردی کا آغاز اور اختلاف رائے کی بنا پر قتل کردینا، وہیں سے روزمرہ بنا۔ آج ہم جس گرداب میں گرفتار ہیں، اسے یاد کریں اور اس بارے میں غورکریں کہ آخر وہ کیسا شخص رہا ہوگا جس کی قوم پرستی کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے اس وقت کے ایک اہم قومی لیڈر راج گوپال اچاریہ نے کہا تھا کہ اللہ بخش ایک سچے محب وطن تھے جو ہندوستان کی آزادی کے لیے لڑتے ہوئے گئے۔ ان کے لیے ڈاکٹر کچلو نے کہا کہ آزادی کی جنگ کے اس اہم مرحلے پر اللہ بخش کا چلے جانا، ہمارے لیے ایک عظیم نقصان ہے۔ انھیں سب سے شاندار خراج عقیدت سائیں جی ایم سید نے ادا کیا جنھوں نے ان کی شہادت کے فوراً بعد کہا تھا کہ اسمبلی کی سیاست میں ہمارے گہرے اختلافات رہتے تھے۔ میں ان سے تلخ بحثیں کرتا لیکن اب جب کہ وہ چلے گئے ہیں تو مجھے یہ اعتراف کرنے میں حرج نہیں محسوس ہوتا کہ وہ نہایت شاندار خوبیوں کے مالک تھے اور ان کا یوں چلے جانا سندھ کے لیے ایک ایسا عظیم نقصان ہے جو عرصۂ دراز تک پورا نہیں ہوسکے گا۔

آج سے 75 برس پہلے کے اس دانشور کی ذہانت اور عظمت کا اندازہ لگایئے جو دوسری جنگ عظیم کو ایک نئے ورلڈ آرڈر کی پیدائش کا درد قرار دے رہا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ اگر حملہ آور مملکتوں نے زمین پر قبضے کی اپنی حرص پر قابو نہیں پایا اور اگر وہ نقشے لپیٹ کر نہیں رکھ دیئے گئے جو خواہ جمہوری اور خواہ نظریاتی بنیادوں پر تیارکیے جا رہے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا اس امن اور خوشحالی کا ذائقہ نہیں چکھ سکے گی ، جس کا دنیا بھر کے لوگوں کو آج یقین دلایا جارہا ہے۔

وہ ایک انسان دوست، امید پرست اور مذاہب کے درمیان بقائے باہمی پر ایمان رکھنے والے انسان تھے۔ہم خواہش کرتے ہیں کہ ہمارے درمیان ایسے بہت سے اللہ بخش ہوں جو کسانوں کی فصلیں بچانے کے لیے، سیلابی پانی کا ریلا اپنی زمینوں کی طرف موڑ دیتے ہوں، جو اپنی گاڑی پر جھنڈا نہ لہراتے ہوں، جن کی گاڑی کے آگے اور پیچھے ہوٹر نہ چلتے ہوں، جن کے لیے انسان کسی بھی ہندو، کسی بھی مسلمان سے بڑا ہو، جس کی حکومت کے دوران معصوم لوگ مار نہ دیئے جاتے ہوں، ایسا اللہ بخش ہم اب کہاں سے لائیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔