تحریک نفاذ اردو و صوبائی زبان (آخری حصہ)

نسیم انجم  اتوار 24 مئ 2015
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

یہ حقیقت روز روشن کی طرح کائنات کے در و دیوار پر جلوہ فگن ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس کی بنیادوں میں ایمان کی روشنی اور لاالہ الاللہ کا نور شامل ہے۔ اس کی قومی زبان اردو ہے۔

اپنی زبان اور اپنے وطن سے محبت کرنا اس کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں رہنا ہر شہری کا فرض ہے، لیکن یہ بات نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ گزشتہ سالوں میں اندرونی و بیرونی دشمنوں کی مداخلت اور تخریب کاری نے پاکستان کی بنیاد کو کمزور کرنے اور اس میں دراڑ ڈالنے کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن بھلا ہو، ہماری افواج پاکستان اور محب وطن پاکستانیوں کا جو پاکستان کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے شوق شہادت کا جام نوش کر رہے ہیں اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی امن و سکون کے لیے دن رات منصوبے بنا رہے ہیں اور ان پر کام کر رہے ہیں۔

جس طرح وطن پاک کو ٹیڑھی نگاہ سے دیکھنے والے قدم قدم پر موجود ہیں، بالکل اسی طرح قومی زبان اردو سے نفرت کرنیوالوں کی بھی کمی نہیں ہے، وہ مغربی تہذیب و ثقافت کو اپنا کر فخر محسوس کرتے ہیں اور اس پر طرہ امتیاز یہ کہ انگریزی زبان بول کر ہواؤں میں اڑنے لگتے ہیں، وہ یہ نہیں سوچتے کہ کیا غیر قوموں نے بھی ہماری طرز زندگی کو اپنایا ہے؟ اور انھوں نے اپنے ملک میں اردو میڈیم اسکول کھولا کہیں؟ بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے؟ اہل مغرب مسلمانوں کے تہوار اور خاص دن کیوں نہیں مناتے ہیں؟ جب کہ ہمارے ملک میں ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ جیسے دن بڑے شوق و ذوق سے منائے جاتے ہیں، اسی طرح دوسرے ایام کو بھی بے حد اہمیت دی جاتی ہے۔

کوتاہ عقل اور عاقبت نااندیش حضرات وقتی فائدے کے بارے میں ہی سوچتے ہیں، اس کی وجہ وہ فہم و دانش سے محروم ہیں، وہ غور و فکر نہیں کرتے جب کہ اللہ رب العزت غور و فکر، تدبر اور دور اندیشی کو پسند فرماتا ہے یہ کائنات کے رموز و اسرار اس کی قدرت اور حکمت عملی کا نتیجہ ہیں۔

اپنے تشخص اور اپنی شناخت کو بھلانے والوں کا انجام بد سے بدتر ہوتا ہے، نہ خدا ہی ملتا ہے اور نہ وصالِ صنم۔

دنیا کے تمام ممالک کی اپنی قومی زبان ہے، بادشاہ اور رعایا اپنی زبان میں مکمل اعتماد کے ساتھ  گفتگو کرتے ہیں انھیں ذرہ برابر بھی احساس کمتری نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اپنی زبان ہے اسی لیے دیار ِغیر کے حکمران اپنی ہی زبان میں تمام امور انجام دیتے ہیں اور سرکاری دوروں پر ان کی تقاریر و تحاریر کو ترجمہ کر کے سنایا جاتا ہے، لیکن ہمارے حکمران بیرون ملک جا کر انگریزی زبان میں اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں، بہت سوں کی تو انگریزی بھی درست نہیں ہے لیکن انگریزی بولنے کا خبط اور جنون سوار ہے۔ غیر ملکی سربراہان سے بھی سبق نہیں سیکھتے ہیں۔ قائد اعظم محمدعلی جناح نے 21 مارچ 1948ء کو ڈھاکا میں ایک جلسے کے دوران فرمایا کہ ’’میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو۔ اردو کے سوا کوئی زبان نہیں، جو کوئی آپ کو گمراہ کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔‘‘

24  مارچ 1948ء کو ڈھاکا یونیورسٹی کے خطاب میں بھی اردو کی اہمیت کو اس طرح اجاگر کیا کہ ’’پاکستان کی سرکاری زبان جو مختلف صوبوں کے درمیان افہام و تفہیم کا ذریعہ ہو صرف ایک ہی ہو سکتی ہے وہ اردو ہے۔ اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔‘‘ اردو وہ زبان ہے جو تحریک پاکستان کے عوامل میں سے ایک ہے، اردو ایک تہذیبی زبان ہے، اس زبان میں اتنی وسعت ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ اردو کی ابتدا کے بارے میں بھی محققین و ناقدین کی مختلف آرا ہیں۔

حافظ محمود شیرانی کی رائے کیمطابق اردو کی ابتدا پنجاب میں ہوئی، اردو اپنی صرف و نحو میں پنجابی و ملتانی کے بہت قریب ہے، دونوں کے اسماء و افعال کے اختتام میں الف آتا ہے اور دونوں میں جمع کا طریقہ مشترک ہے، پنجابی اور اردو میں ساٹھ فیصد الفاظ ایک جیسے ہیں، مصدر کا قاعدہ بھی دونوں زبانوں میں ایک ہے یعنی علامت ’’نا‘‘ امر کے آخر میں اضافہ کر دی جاتی ہے، قدیم زمانے میں دونوں زبانوں کا رسم الخط ’’ناں‘‘ تھا، بارہویں صدی کے اختتام کے قریب ’’ن غنہ‘‘ کو ترک کر دیا گیا، بلکہ دیگر الفاظ سے بھی خارج کر دیا گیا۔

سید سلیمان ندوی کا خیال ہے کہ مسلمان فاتحین جب سندھ پر حملہ آور ہوئے اور یہاں کچھ عرصے تک ان کی حکومت بھی قائم رہی اس دور میں مقامی لوگوں سے اختلاط و ارتباط کے نتیجے میں جو زبان وجود میں آئی وہ اردو کی ابتدائی شکل تھی، اس میں شک نہیں کہ سندھ میں مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت اور تمدن و کلچر کا اثر مستقل اثرات کا حامل ہے، آج تک سندھی زبان میں عربی کے الفاظ کی تعداد پاکستان و ہند کی دوسری تمام زبانوں کی نسبت زیادہ ہیں، جب کہ دہلی و لکھنو کے شعرا اور اہل علم کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی زبان کے علاوہ کسی اور کی زبان کو کبھی بھی سند تسلیم نہیں کیا۔

دہلی اور لکھنو کے شعرا میں لسانی اختلافات اور عروضی مباحث جاری رہتے تھے چنانچہ انھوں نے دکنی شعرا حتیٰ کہ نظیر اکبر آبادی جیسے شعرا کو درخور اعتنا نہ سمجھا تو وہ پنجاب کی اردو کو کیسے تسلیم کر سکتے تھے۔جہاں اردو زبان ارتقائی مراحل سے گزرتی ہوئی مختلف شہروں اور خطوں کے سفر پر گامزن رہی، وہاں عہد بہ عہد اس کے نام پڑتے چلے گئے اردو کے نام دراصل کئی زمانوں کے استعارے ہیں، ان ناموں کے پیچھے ایک کہانی موجود ہے۔ ہندی یا ہندوی، ریختہ اور اردو، اردو معلی کے ناموں سے پکاری گئی۔

اردو نے بہت جلد سلطنت اور سلاطین کے دلوں میں بھی اپنی جگہ بنا لی۔ محمد قلی قطب شاہ پہلا صاحب دیوان شاعر کہلایا اور آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر جنھوں نے ایام اسیری میں لازوال شاعری کی۔پچھلے دنوں اردو کے ایک بہت اچھے شاعر ناظر فاروقی دیارِ غیر سے تشریف لائے تھے ان کی ایک نظم بعنوان ’’اردو‘‘ بے حد مقبول ہوئی انھوں نے اردو کے بتدریج سفر کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ  اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے اور اس کی ناقدری کا نوحہ بھی خوبصورتی کے ساتھ  بیان کیا ہے۔

مضمون کی طوالت کی وجہ سے نمونے کے طور پر ان کے اشعار پیش کرنے سے قاصر ہوں۔یقینا اردو وہ زبان ہے جس میں علم و ادب کا انمول خزانہ پنہاں ہے اور اس زبان میں زمانے سانس لیتے ہیں اور کروٹ بدلتی ہوئی تاریخ نے لفظوں کی مالا پہن لی ہے۔ کون سا علم ہے؟ جو اردو زبان کی زنبیل میں موجود نہیں؟ان حالات میں ڈاکٹر مبین اختر (ماہر نفسیات) اور ان کے دیرینہ رفیق اس میدان کارزار میں برہنہ پا آ گئے ہیں۔ آبلہ پائی کا یہ سفر گزشتہ دس سال سے جاری ہے وہ اردو کو اس کا مقام دلانے کے لیے ہر لمحہ کوشاں ہیں، دیکھا جائے تو وہ انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں، مریضوں کا علاج کرتے ہیں اپنے وطن اور زبان سے محبت کرتے ہیں اس کی مثال کراچی نفسیاتی اسپتال اور تحریک نفاذ اردو کا قیام اور باقاعدگی کے ساتھ  کام اور کام ہے۔

(’’تحریک نفاذِ اردو‘‘ کی تقریب میں پڑھا گیا مضمون)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔