کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے

انتظار حسین  پير 25 مئ 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

لیجیے پاکستان کی تو عید ہو گئی

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے

پاکستان کی کرکٹ فیلڈ چھ سال سے انٹرنیشنل کرکٹ میچ کو ترس رہی تھی مگر لنکا کی ٹیم کے ساتھ جو واقعہ گزرا تھا اس کے بعد کرکٹ کی بین الاقوامی دنیا نے کان پکڑے کہ ہر کھونٹ جائیں گے مگر پاکستان کی کرکٹ فیلڈ نئے زمانے کا چوتھا کھونٹ ہے۔ یعنی خطروں سے لبریز شاہراہ۔ اس طرف کا رخ نہیں کرنا ہے۔ کتنی منت سماجت کر کے ہم نے زمبابوے والوں کو شیشے میں اتارا۔ ان کے رستے میں ہم نے آنکھیں بچھائیں   ؎

وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

ویسے تو اس موقعہ کے لیے ہماری گرہ میں ایک اور شعر بھی ہے۔ مگر ہم نے اسے اس دن کے لیے محفوظ رکھا ہے جب ہندوستان کی کرکٹ ٹیم یہاں آ کر میچ کھیلے گی اور کرکٹ کے خورسند حلقے کہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ کے موجودہ چیئرمین ڈپلومیسی میں طاق ہیں۔ وہ ہندوستان کی کرکٹ ٹیم کے پتھر دل کو بھی موم کر لیں گے۔ سو جب وہ ٹیم آئے گی تب ہم اس شعر سے اس کا سواگت کریں گے ؎

لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے

اصل میں اصلی تے وڈا کفر تو اسی دن ٹوٹے گا جس دن ہندوستان کی کرکٹ ٹیم اپنے بلے گھماتی ہوئی خراماں خراماں اس خراب آباد میں آئے گی۔

مگر خیر زمبابوے کی ٹیم کی آمد بھی خیر و برکت کی نشان دہی کر رہی ہے۔ اور پھر چپڑی اور دو دو۔ یعنی چھ سالہ انٹرنیشنل کرکٹ نام کا فاقہ بھی ٹوٹا اور میچ بھی جیت لیا۔ سو ہم تہہ دل سے اس خوشی میں شریک ہونا چاہتے تھے لیکن میچ میں ایک حادثہ گزر گیا۔ ہمارے کرکٹ کے متوالے تو خوشی میں اتنے مگن تھے کہ ان کے کانوں نے تو وہ دھماکا سنا ہی نہیں جو ہم پر بجلی بن کر گرا۔ ہم اپنی مسجدوں اور اپنی کرکٹ فیلڈ کی خیر و عافیت کے لیے دعا کر رہے تھے مگر دھماکا کہاں ہوا۔ سعودی عرب کی مسجد میں جہاں جمعتہ المبارک کی نماز ادا ہو رہی تھی وہاں داعش کا ایک سرفروش خودکش بم سے مسلح بیچ صفوں میں کود پڑا۔ مرتے مرتے اکیس نمازیوں کو اپنے ساتھ لپیٹ کر لے گیا۔

ہماری پاکستانی مسجدیں تو خود کش حملہ آوروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ جب ان میں سے کسی کو جھرجھری آتی ہے وہ دھم سے ہماری کسی بھی مسجد میں کود پڑتا ہے۔ مسجد کا صحن ہمارے نمازیوں کے خون سے آلودہ ہو جاتا ہے۔ وہ خود اپنے تصور کے حساب سے جنت میں پہنچتا ہے۔ مگر سعودی عرب کی مسجدیں تو پاسبان حرم کے سائے میں تھیں۔ وہاں خود کش حملہ آور کیا بیچتے ہیں۔ کوئی پرندہ پر نہیں مار سکتا تھا۔ مگر داعش والوں کے سبز قدم وہاں بھی پہنچ گئے۔ اب ہماری اسلامی دنیا کا کونسا گوشہ ان سے بچ کر سانس لے سکتا ہے۔

ان کی یہ استادی بھی داد مانگتی ہے کہ سادہ دل مسلمانوں کو انھوں نے یہ جھانسہ دیا کہ ان کا رخ شام کے قدیم شہر پامیر کی طرف ہے۔ اب سے تھوڑا عرصہ پہلے انھوں نے قدیم شہر بابل کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی۔ دنیا والوں نے شور مچایا کہ ارے بابل تو قدیم تہذیب کا گہوارہ تھا۔ مگر داعش والوں نے کہا کہ یہ نمرود کا شہر تھا۔ ہم نے اسے تباہ کیا ہے۔ مسلمان مطمئن ہو گئے۔ اب بھی شاید وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ یونیسکو والے خواہ مخواہ شور مچا رہے ہیں۔ پامیر بھی نمرود ہی کا شہر ہو گا۔ بیشک اس کی اینٹ سے اینٹ بج جائے۔ ہماری جوتی سے۔ ارے مگر انھوں نے ہمیں پامیر کی طرف متوجہ کیا۔ اور خود کہیں مکہ مدینہ کے آس پاس کسی مسجد پر چڑھ دوڑے اور نمازیوں کے خون سے ہاتھ رنگ لیے۔

لیجیے اس پر ہمیں اپنے ایک سابق صدر یاد آ گئے۔ میاں نواز شریف کے دور اول میں وہ صدارت کی مسند پر جلوہ افروز تھے۔ جب کوئی ایسی خبر آتی تھی کہ فلاں مسجد میں بم پھٹا ہے یا خود کش حملہ ہوا ہے تو وہ بیان جاری کرتے تھے کوئی مسلمان خانہ خدا میں خون بہانے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ اس واقعہ کے پیچھے کوئی بیرونی ہاتھ ہے اور ہم حیران ہوتے کہ یہ ہمارا صدر مسلمانوں کی تاریخ سے اتنا بے خبر ہے۔ اسے کسی نے نہیں بتایا کہ کیسی کیسی مبارک مسجد میں کس کس مسلمان کے ہاتھوں کیسا کیسا خون بہا ہے۔ خیر وہ تو یہ کہتے کہتے اپنے عہدے سے سبک دوش ہو گئے۔ ادھر ہم پر جلدی ہی یہ کھل گیا کہ بیرونی ہاتھ نہیں‘ کوئی اندرونی ہاتھ ہی اپنے ہاتھ دکھا رہا ہے۔ اور وہ بعد میں فخریہ اعلان بھی کر دیتا تھا کہ یہ کار خیر ہم نے انجام دیا ہے۔

جیسے اب داعش والوں نے علانیہ کہا ہے کہ یہ کارنامہ ہمارے ایک جنگجو ابو عامر البغدی نے انجام دیا ہے۔ گویا اب یہ اندرونی ہاتھ اتنا لمبا ہے کہ مکہ مدینہ کی مبارک سرزمین تک جا پہنچا ہے۔ تو اب ہماری پاکستان کی مسجدیں‘ ہمارے دینی اور دنیاوی مرکز کیا بیچتے ہیں۔ یہ ہاتھ تو اتنے لمبے ہیں کہ مکہ مدینہ کی مبارک زمین کی مسجدوں میں وہ نمازیوں کی صفوں کو تتر بتر کر سکتے ہیں۔ اب یہ ضروری کام انجام دینے کے بعد وہ پامیر میں بھی اپنی کارگزاری دکھائیں گے۔ اصل میں عراق‘ شام اور آس پاس کے ایسے اور علاقے اپنی ایک قدیم تاریخ رکھتے ہیں۔ کیسے کیسے شہر یہاں آباد ہوئے۔ کیسی کیسی تہذیبوں کے یہ شہر گہوارے بنے رہے۔

وہ امتیں وہ قومیں اپنے اچھے برے افعال کے ساتھ یہاں شاد آباد رہیں۔ پھر تباہ و برباد ہو گئیں۔ ان کے اثر آثار باقی ہیں جن سے مورخ‘ محقق‘ پچھلی تاریخ کا کھوج لگاتے ہیں‘ کھدائیاں کر کے نئے آثار دریافت کرتے ہیں۔ تو یہ اثر آثار انسانی تاریخ کا سرمایہ ہیں۔ اسی لیے ان کی حفاظت کی جاتی ہے۔ مثلاً اہرام مصر کیا کچھ ہمیں بتاتے ہیں۔ یہ انسانی تاریخ کے منازل کا پتہ دیتے ہیں۔ انھیں بیشک کفر کہیں مگر ان نشانات کو مٹایا تو نہیں جا سکتا۔ انھیں مٹا کر ہم ایک پوری تاریخ سے محروم ہو جاتے ہیں۔

مگر اس وقت ان علاقوں کے سارے اثر آثار جو علما و محققین کی توجہ اور تحقیق کا مرکز ہیں خطرے میں ہیں ان کی تاریخی اہمیت اور معنویت کو جانے بغیر انھیں تباہ کیا جا رہا ہے۔ کم از کم اس اعتبار سے سوچ لیا جائے کہ کلام پاک میں ان کے کتنے حوالے آتے ہیں اور ان پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ ارے وہ تو سرمایہ عبرت ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔