دہشت گردی کے حقیقی اور پائیدار اختتام کا آعاز

زمرد نقوی  پير 25 مئ 2015
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

مستقبل میں کیا ہونے والا ہے‘ بدلتے ہوئے حالات سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ملکی سیاست کے معاملات میں تیز رفتار تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ آسمانی صورت حال بھی کچھ قوتوں کے لیے تسلی بخش نہیں بلکہ یہ پاکستانی اشرافیہ میں ٹکراؤ کی نشان دہی کرتی ہے۔ ویسے بھی پاکستان طویل عرصے کے لیے 2025ء تک ایک ایسے دور میں داخل ہو چکا ہے جہاں ماضی کی ’’غلطیوں‘‘ کا ازالہ‘ کرپشن کا خاتمہ‘ تمام اداروں، محکموں کی اصلاح اور احتساب ہو گااور معاملات میں بہتری آئے گی۔

پاکستان میں ایک طویل عرصے سے بگاڑ جس انتہا پر پہنچ چکا ہے وہاں ایک بہت بڑا آپریشن افقاً عموداً شمالاً جنوباً ناگزیر ہو چکا ہے۔ پاکستان کی بیماری انتہائی سنگین مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ جہاں ہمیں زندگی یا موت کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ مہلت ہمارے پاس بالکل بھی نہیں اور یہ سب کچھ ابھی فوری اور مستقبل قریب میں ہونا ہے۔خوش آیند بات یہ ہے کہ اس حوالے سے خاصی سنجیدگی کا مظاہرہ بھی کیا جا رہا ہے اور اس کے اثرات بھی نظر آ رہے ہیں۔

پاکستان میں بڑے عرصے سے خرابیاں چلی آ رہی ہیں۔یہ خرابیاں کیا ہیں‘ کور کمانڈر کراچی نوید مختار نے گزشتہ دنوں ان کی نشاندہی کر دی ہے۔ پہلا کام یہ ہے کہ متوازی حکومتوں اور طاقت کے مراکز کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ دوسرا پولیس اور انتظامیہ کو آزاد ہونے کی ضرورت ہے۔ تیسری قابل تعریف بات انھوں نے یہ کہی کہ کراچی میں امن کے لیے ’’کسی کے ساتھ‘‘ کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ کئی بتوں کو توڑ دیا ہے۔ جاننے والے سمجھنے والے جانتے ہیں کہ کونسے بت لیکن عام آدمی کے لیے اس کی وضاحت ہونا باقی ہے۔ کراچی میں ہر قسم کے جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن جاری ہے جس میں ناکام ہونے کا کوئی آپشن نہیں۔یہ بہت اچھی باتیں ہیں اور وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔

وہی بات جو میں نے کہی کہ آسمانی صورت حال کے مطابق یہ اب ہماری زندگی اور موت کا معاملہ ہے کہ ہم نے کون سا راستہ اختیار کرنا ہے۔تعمیر کا یا تخریب کا۔ صورتحال کس قدر سنگین ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی میں منشیات فروشوں سے لے کر القاعدہ تک نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ مافیاز نے مضافاتی علاقوں کو اپنا گڑھ بنا لیا ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ’’غیر معمولی طریقہ‘‘ اپنانا ہو گا۔ یہ غیر معمولی طریقہ کیا ہو گا‘ جلد لگ پتہ جائے گا۔ سیکیورٹی فورسز اور عوام کی قربانی کو ضایع نہیں ہوں گی کیونکہ پاک فوج کے سربراہ اور حکومت کے سربراہ یہ کہہ چکے ہیں کہ کراچی میں امن کی بحالی تک آپریشن جاری رہے گا۔

دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے انھوں نے جو کہا وہ انتہائی اہم ہے کہ ہر قسم کی دہشت گردی اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کریں گے۔ اب تک دہشت گردی اور ان کے سہولت کاروں کا اسی لیے خاتمہ نہیں ہو سکا کہ مذہبی اور غیر مذہبی دہشت گردی میں تفریق روا رکھی گئی۔گزشتہ دنوں کور کمانڈر کراچی نے تو انتباہ کیا کہ سیاسی مذہبی جماعتیں اپنے اندر سے عسکری ونگ اور جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ کریں۔ کراچی میں سیاسی سرگرمیوں اور دہشت گردی میں فرق ختم ہو گیا۔ سیاست کو تشدد سے پاک اور میڈیا کو خوف سے آزاد ہونا چاہیے۔یہ بھی بالکل درست بات ہے ۔

جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے تو اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ پورے پاکستان میں میڈیا خوف سے آزاد نہیں۔ عام پاکستانی شہری یہ سمجھتا ہے کہ لکھنے والا جو چاہے لکھ اور بولنے والا، جو چاہے بول سکتا ہے لیکن اس میں سخت مراحل آتے ہیں۔ معاشرے کے ہر طبقے و گروہ کا اپنا اپنا سچ ہے۔ اگر اس بیانیے سے ہٹ کر کوئی بات لکھی یا بولی جائے تو زندگی خطرے کی زد میں آ جاتی ہے۔ میں اس حقیقت سے بخوبی آگا ہوں کیونکہ پاکستان کے کونے کونے اور بیرون ملک سے لوگ مجھ سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ایسی تحریروں کو بہت پسند کیا جاتا ہے جس میں مدتوں سے جاری جھوٹ کو بے نقاب کیا گیا ہو۔

ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ کوئٹہ سے قیوم چنگیزی کا فون آیا۔ کوئٹہ کے حالات بتانے لگے۔ سن کر ازحد افسوس کے ساتھ پریشانی بھی ہوئی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان تک اپنی تمام تر مخلصی اور نیک نیتی کے باوجود تخریب کاروں اور ملک دشمنوں کو کچلنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہیں۔بہر حال وہ اپنی بساط کے مطابق کوششیں کر رہے ہیں جس پر انھیں سراہا جانا چاہیے کیونکہ بلوچستان بھی پاکستان کی ترقی کے لیے انتہائی اہم صوبہ ہے۔

اس حوالے سے ایک خوش کن خبر حال ہی میں پڑھی کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے داعش سے تعلق رکھنے والے کمانڈر سمیت درجن بھر افراد کو گرفتار کر لیا۔ جن کا تعلق افغانستان سے تھا جو کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کرنا چاہتے تھے۔جب کہ کوئٹہ میں ہی کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج میں فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ شہروں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے سیاسی فیصلے کیے جائیں۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ آیندہ آنے والی نسلوں کو محفوظ بنانے کے لیے لڑی جا رہی ہے۔پاکستان کا اصل مسئلہ ہی دہشت گردی ہے۔ جب تک اس کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جاتا ملک کے حالات بہتر نہیں ہو سکتے بہر حال اب ایسے آثار پیدا ہو رہے ہیں جس سے عیاں ہو رہا ہے کہ پاکستان میں حالات دن بدن بہتر ہوتے جائیں گے۔

آپریشن ضرب عضب کی کامیابی سے شہری علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف ’’فیصلہ کن کارروائی‘‘ کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کے ’’حقیقی اور پائیدار اختتام‘‘ کے لیے سیاسی قبولیت کا ماحول بن رہا ہے اور پاکستانی پر امن محب الوطن شہریوں کو طویل مدت سے اس خوش خبری کا انتظار تھا کہ جب دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے گی۔

٭…سیاست اور سیاستدانوں کے لیے اس سال کے احتیاط طلب وقت کا آغاز جون سے ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔