سدھار لائیے۔۔۔ سماجی بہتری کے لیے خواتین کا کردار کلیدی ہے

ریحانہ خطیب  پير 25 مئ 2015
کچھ خواتین کو بات بات پر ٹوکنے کی عادت سی ہو جاتی ہے۔ فوٹو: فائل

کچھ خواتین کو بات بات پر ٹوکنے کی عادت سی ہو جاتی ہے۔ فوٹو: فائل

کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی بہتری لانی ہو تو اصلاح کا کام اپنے آپ اور اپنے گھر سے ہی ہونا چاہیے۔ اکثر لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں صحیح راہ نمائی کا فقدان ہے۔

گھر کی راجدھانی کی ملکہ خواتین ہوتی ہیں۔ اگر خواتین اپنے شریک حیات اور بچوں کوصحیح راہ نمائی دیں، تو ایک گھر میں اصلاح کا کام انجام پاسکتا ہے۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ دوسروں کو نصیحت کرنا یا راہ نمائی آسان ہے، لیکن اپنے گھر میں یہ کام کرنا مشکل کام ہے، جب بھی کوئی نصیحت کی جائے، تو سننے والوں کا موڈ خراب ہو جاتا ہے، کچھ خواتین کو بات بات پر ٹوکنے کی عادت سی ہو جاتی ہے۔ یہ لوگ زیادہ پسندیدہ نہیں ہوتے، لیکن ہمیں اس سے بچنا نہیں چاہیے اور میانہ روی سے اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ زیادہ ذمے داری خواتین کی اس لیے کہی جاتی ہے، کیوں کہ ان کے ہاتھوں میں ہی بچے یعنی آنے والی نسل کی پرورش ہوتی ہے۔

اگر وہ ہمیشہ ہی بچوں کو روکنے ٹوکنے، نصیحتیں کرنے اور اچھی باتیں بتانے کی عادی ہو جائیں، تو اس کا خاطر خواہ اثر ہوتا ہے، بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے بچے ان باتوں کو نظر انداز کر رہے ہیں یا سنا اَن سنا کر رہے ہیں۔ اس پر یقیناً غصہ بھی آتا ہے اور محنت اکارت جاتی محسوس ہوتی ہے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ آج نہیں تو کل بہت زیادہ نہیں تو تھوڑا ہی یہ باتیں اپنا اثر دکھاتی ہیں۔ صرف بچوں پر ہی منحصر نہیں ہے۔ خاندان یا اطراف کے لوگوں میں بھی اگر کوئی برائی نظر آئے، تو اس کو ختم کرنا ہمارا فرض ہے۔ کوئی برا کرے، تو اسے اپنی بساط کے مطابق روکنے کی کوشش کرو اور اگر نہ کر سکو تو کم از کم غلط کو غلط سمجھو۔

باہر کے نامساعد حالات سے گھبراکر انسان گھر میں سکون تلاش کرتا ہے، لیکن خدانخواستہ گھر کے ہی حالات موافق نہ ہوں، تو پھر جائیں تو جائیں کہاں، جیسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ آج کل برائی سے روکنا اور اچھائی کی ترغیب دینا اپنے لیے مشکلات کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ بچوں کو حکم عدولی سے روکنا ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ ماؤں کی روک ٹوک کو وہ اپنی من مانی میں رکاوٹ تصور کرتے ہیں۔ زیادہ سختی کی جائے تو باغی ہو جاتے ہیں، یا پھر نفسیاتی طور پر متاثر ہونے لگتے ہیں۔

یہ ایک ماں ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی درمیانی راہ اختیار کرے۔ پہلے گھر کے باہر کے معاملات پر نظر رکھنی پڑتی تھی، اب موبائل فون، کمپیوٹر یا انٹرنیٹ کی وجہ سے گھر میں بھی ان کی سرگرمیوں سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں۔ کبھی کبھی شوہر بھی مخالفت پر اتر آتے ہیں۔ ایسی صورتوں میں بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ خوش اسلوبی اور خندہ پیشانی سے ایسے حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ مختصر یہ کہ خواتین کو اپنے ہی گھر میں بہت سی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن انہیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے، ابتدا میں شاید ہمیں یوں محسوس ہو کہ ہم ہواؤں کا رخ نہیں بدل سکتے، لیکن یہ سوچیے کہ کم سے کم پتوار تو سنبھال سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔