گُل بڑھائیں حسن

صدف آصف  پير 25 مئ 2015
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

رنگ برنگے، خوش بودار اور لطافت کا احساس لیے پھول قدرت کی صناعی کے بہترین آئینہ دار ہیں۔ پھولوں کی موجودگی کسی بھی ذی روح میں لطیف جذبات بیدار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ کسی بھی باغ یا باغیچہ کا حسن تو ہوتے ہی ہیں، جہاں استعمال کیے جائیں وہاں بھی بہار کا احساس اور خوش بوئیں بکھیر دیتے ہیں۔

پھول سب کو پسند ہوتے ہیں، مگر ان کی رنگینی خاص طور پر صنف نازک کہ مزاج پر بہت حد تک اثر انداز ہوتی ہے۔ پھولوں کی بھی اپنی ایک زبان ہوتی ہے، جیسے گلاب کا پھول، رومان انگیز کیفیت پیدا کرتے ہیں، چنبیلی کے پھول پاکیزگی کی علامت سمجھے جاتے ہیں، نرگس وفاداری اور گیندا سنجیدگی اور حقیقت پسندیدگی کا اظہار کرتا ہے۔

پھول پہننے سے ہمارے جسم پر بھی مفید اثرات پڑتے ہیں۔ کنول کا پھول جسم کو ٹھنڈک فراہم کرتا ہے۔ اس سے کیل مہاسوں کے مسائل میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ ساتھ ہی یہ جلد کو پھوڑے پھنسیوں سے بھی بچاتا ہے۔ گلاب، جوہی، بیلا، وغیرہ مزاج کو خوش گوار کرنے کے ساتھ ساتھ فرحت بخش احساس اجاگر کرتے ہیں۔

بعض ماہرین وزن میں کمی کے لیے بھی پھول پہننے کو مفید گردانتے ہیں۔ چمپا، چنبیلی، موگرے کے پھولوں سے بنے زیورات پہننے سے خون کی خرابیاں دور ہو جاتی ہیں۔ یہ پھول اپنی خصوصیت میں اتنے کامل ہیں کہ دل کے سکون کی وجہ بنتے ہیں۔

عرصۂ دراز سے پھولوں کے سنگھار کو پسندیدگی کی سند حاصل رہی ہے۔ برصغیر پاک و ہند کی ثقافت اور تہوار اور شادی بیاہ یا غمی کی رسومات اور پھولوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس معاملے میں گلاب اور گیندے کے پھول اور پتیوں کو اولیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ موتیا، بیلا، چاندنی اور چنبیلی کے پھول بھی خواتین میں بہت پسندکیے جاتے ہیں۔ پھولوں سے بنائے گئے زیورات حسن میں چار چاند لگانے کے ساتھ ساتھ صحت کے بھی ضامن کہلاتے ہیں۔ خاص طور پر گلاب کا پھول خوب صورتی بڑھانے کے علاوہ بہت سے امراض سے بچاؤ کا کام بھی کرتا ہے۔

شادی کی کوئی بھی تقریب ہو، ہمیشہ سے مشرقی خواتین، لڑکیاں بالیاں پھولوں کے گہنے اور زیورات پہننا پسند کرتی ہیں۔ آج بھی ہار، گجرے، کنگن، بالے اور دوسرے کئی اقسام کے پھول اور ان سے بنائے گئے زیورات پسندیدگی کے معیار میں سرفہرست نظر آتے ہیں۔

٭ٹیکہ

دُلہنوں کے لیے خاص طور پر گلاب، گیندے اور بیلے کی مدد سے ٹیکہ بنایا جاتا ہے۔ بیلے کی کلیوں کے آخر میں گلاب یا گیندے کا پھول لٹکا دیا جاتا ہے، جو منہدی یا مایوں کی رسم ادا کرتے ہوئے پہنایا جاتا ہے۔ یہ ٹیکا زرد لباس میں ملبوس مایوں کی دلہن کے حسن میں چار چاند لگانے کا باعث بناتا ہے۔

٭کنگن

گلاب اور بیلے سے گندھے ہاتھوں کے کنگن نہ صرف دیکھنے میں من کو لبھاتے ہیں، بلکہ ہاتھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں۔ آج کل کئی طرح کے ہلکے وبھاری، منہگے و سستے کنگن گُل فروش کے پاس سے آسانی سے مل جاتے ہیں۔ کچھ گھروں میں تو شادی کے موقع پر باقاعدہ پھولوں کے زیورات بنوائے جاتے ہیں۔

٭بالی

کانوں کے لیے خاص طور پر ایک پتلے تار میں بیلے میں گلاب یا گیندے کے پھول پرو کر بالے بنائے جاتے ہیں۔ آج کل لڑکیاں منہدی اور مایوں کی تقریب میں زرد یا سبز رنگ کے لباس پر ایسی بالیاں بنوا کر پہنتی ہیں۔ دلہنوں کو بھی کانوں کا یہ زیور پہنایا جاتا ہے۔

٭ماتھا پٹی

پھولوں کی ماتھا پٹی بھی بنائی جاتی ہے، جو سر پر باندھ دی جاتی ہے، اس کے بیچ میں گلاب کا پھول لٹکا کر اس کی دیدہ زیبی میں اضافہ کیا جاتا ہے۔

٭ بالوں کے گجرے

یہ گجرے سفید بیلے کی لڑیوں اور گلاب کے پھول کے امتزاج سے بنائے جاتے ہیں، ان میں چمکی بھی لگتی ہے، دیکھنے میں بہت حسین لگتے ہیں۔ خاص طور پر سوئس رول بنا کر جب یہ گجرے لگائے جاتے ہیں، تو ہیر اسٹائل کی دل کشی میں اضافہ ہوتا ہے۔

٭بدیسی پھول

آج کل مختلف اقسام کے چھوٹے بڑے انگلش فلاور کے بھی ہیر اسٹائل بنوائے جا رہے ہیں۔ ولیمے کی دلہن کوخاص طور پر جوڑا بنانے کے بعد کان کے پیچھے سے آگے کی طرف تین مختلف رنگوں کے بدیسی گلاب لگا کر سجایا جاتا ہے۔

٭ہار

گلاب کے ہار شادی بیاہ اور خوشی کی تقریبات میں لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔ مختلف طرح کے نت نئے انداز کے ان ہاروں کو دلہن اور دلہن کی امی، چچیوں، مامیوں اور دوسرے قریبی رشتے دار خواتین کو بھی پہنایا جاتا ہے۔

دلہا کے زیورات

چوں کہ دُلہا کے لیے بھی پھولوں کے زیورات بنانے کی ذمہ داری بھی اکثر خواتین کے کاندھوںپر ہوتی ہے۔ اس لیے یہاں ہم دُلہا کے لیے پھولوں کے زیورات پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔

٭گلاب کے ہار

پھولوں کے ہار وہ زیور ہے، جو مرد و عورت بلا تفریق پہنتے ہیں۔ شادی بیاہ میں دُلہا کو موٹا سا پھولوں کا ہار پہنایا جاتا ہے۔ آج کل نوشے میاں کے لباس کو گلاب کے دھبوں سے بچانے کے لیے ان پر پلاسٹک کی تھیلی لگا دی جاتی ہے۔ ان کے علاوہ بارات میں شامل خاندان کے قریبی مرد رشتے داروں کے گلے میں تھوڑے ہلکے قسم کے گلاب کے ہار پہنا کر انہیں خوش آمدید کہا جاتا ہے۔

٭لڑیاں

بیلا اور چنبیلی کو دھاگے میں پرو کر بالوں میں لگائی جانے والی لڑیاں بنائی جاتی ہیں۔ یہ لڑیاں کثیر تعداد میں ایک گچھے کی صورت میں بال پن سے ایک سائیڈ پر لگا دی جاتی ہیں۔ عروسی لباس کے ساتھ ان کا تال میل خوب جمتا ہے۔ خواتین بھی بالوں کے جوڑے یا چوٹی بنوا کر اس میں یہ لڑیاں لگواتی ہیں۔

٭سہرا

آج بھی بہت سے خاندانوں میں دُلہے کا سہرا روایتی طریقے سے پھولوں سے بنایا جاتا ہے، یہ ایسی لمبی لمبی لڑیاں ہوتی ہیں، جو سر سے باندھ کر پیر تک لٹکا دی جاتی ہیں۔ اس سے چہرہ ڈھک جاتا ہے۔ سہرے کی خوب صورتی میں اضافے کے لیے اس میں موتیوں اور چمکی کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ماضی میں تو دُلہا کو بہت بھاری بھرکم سہرے پہنانے کا رواج عام تھا۔ سہرے کی تعریف اور دُلہا کے چہرے پر اس کی سجاوٹ کی شاعرانہ تمثیلیں اور تشبیہات بھی ضرور دی جاتی تھیں۔ اب کچھ گھرانے ہی ایسے رہ گئے ہیں ہیں، جہاں نکاح کی تقریب کو بغیر سہرے کے ادھوری سمجھتے ہیں۔

٭بدھی

بدھی کا رواج بھی اب متروک ہوتا جا رہا ہے۔ بدھی پھولوں سے بنائی جاتی ہے، جو دلہا کے گلے اور بغلوں سے یوں پہنائی جاتی ہے کہ اس سے سینے اور پشت پر ضرب کا نشان سا بن جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔