حب بلوچستان میں دہشت گردی کی واردات

ایڈیٹوریل  منگل 26 مئ 2015
پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کو سپورٹ داخلی اور خارجی دونوں سطح سے مل رہی ہے۔ فوٹو : فائل

پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کو سپورٹ داخلی اور خارجی دونوں سطح سے مل رہی ہے۔ فوٹو : فائل

بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں صدر مملکت ممنون حسین کے بیٹے کے قافلے پر بم حملے میں تین افراد جاں بحق اور پانچ پولیس اہلکاروں سمیت 17 زخمی ہوئے، خوش قسمتی سے صدر کے بیٹے محمد سلمان حملے میں محفوظ رہے۔ پولیس کے مطابق دھماکا خیز مواد موٹر سائیکل میں نصب تھا جو ایک ہوٹل کے باہر کھڑی کی گئی، دھماکے میں پانچ گاڑیاں بھی تباہ ہو گئیں۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق دھماکے میں آٹھ سے دس کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے دھماکے کی شدید مذمت کی ہے۔

صدر مملکت کے بیٹے کے قافلے پر خود کش حملے کا واقعہ یقیناً افسوسناک ہے، ملک دشمن قوتوں اور دہشت گردوں کے اس حملے کا مقصد حکومت کو دباؤ میں لانا معلوم ہوتا ہے تاکہ وہ خوف زدہ ہو کر ان کے خلاف کارروائی روک دے۔موجودہ صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ملک دشمن قوتوں کے کارندے کسی ایک شہر یا قصبے میں نہیں بلکہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، ان بے چہرہ دہشت گردوں کی شناخت ایک مشکل امر ہے اس کے خاتمے کے لیے ناگزیر ہے کہ حکومت گلی محلے کی سطح پر عوام کا تعاون حاصل کرے کیونکہ دہشت گردی کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ اور گمبھیر ہو چکا ہے کہ عوامی تعاون کے بغیر اس سے نمٹنا مشکل امر ہے۔

حکومت کئی بار اس امر کا اظہار کر چکی ہے کہ دہشت گردی ختم کرنے کے لیے آپریشن ضرب عضب کا دائرہ کار شہروں تک بڑھانا ہو گا اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک یہ آپریشن جاری رہے گا۔ شمالی وزیرستان آپریشن ضرب عضب کے ذریعے فوج نے اس علاقے میں دہشت گردوں کا خاتمہ کر کے اسے پرامن بنا دیا ہے مگر وقفے وقفے سے ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اس امر کے متقاضی ہیں کہ حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف اپنی کارروائیوں کا دائرہ کار بڑھانا ہو گا۔ بلوچستان، کراچی اور خیبرپختونخوا میں شرپسندی اور دہشت گردی کے واقعات سے عیاں ہوتا ہے کہ دہشت گرد خودکو ان علاقوں میں زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں، ان کا خاتمہ چند دنوں میں ممکن نہیں ان کے خلاف حکومت کو ایک طویل اور صبر آزما جنگ لڑنا ہو گی۔

یہ اطلاعات بھی منظرعام پر آ چکی ہیں کہ دہشت گردوں کو سرحد پار سے معاونت مل رہی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جب تک بیرون ملک سے تعاون اور رہنمائی حاصل نہ ہو دہشت گرد زیادہ عرصہ تک اپنی کارروائیاں جاری نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے حکومت کو ان تمام ذرایع اور چینلز پر بھی توجہ دینی ہو گی جو دہشت گردی کے فروغ کا باعث بن رہی ہیں۔ حکومت کئی بار یہ کہہ چکی ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے بھارتی ایجنسی ’را، سمیت دیگر غیرملکی ایجنسیوں کا بھی ہاتھ ہے۔

دوسری جانب اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان نے اپنی پالیسی میں بظاہر بڑی تبدیلی لاتے ہوئے افغان طالبان کو سخت وارننگ جاری کی ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی تازہ کارروائیاں روک دیں یا نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں، یہ بھی امکان ہے کہ طالبان نے اگر امن مذاکرات سے انکار جاری رکھا تو پاکستان بھی ان کے خلاف مشترکہ کارروائیوں میں شامل ہو سکتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل دوحہ میں افغان حکام اور طالبان نمایندوں نے ملاقات کی جس میں افغانستان میں قیام امن پر غور کیا گیا تاہم طالبان کی طرف سے حملوں کا سلسلہ نہ رکنے پر امن عمل خطرے میں پڑ گیا۔ پاکستان کی شروع سے یہ خواہش رہی ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے تمام فریق بامقصد مذاکرات کا راستہ اپنائیں۔

یہ باتیں کئی بار منظرعام پر آ چکی ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے ہونے والے متعدد واقعات کے ڈانڈے افغانستان میں موجود دہشت گردوں سے جا ملتے ہیں جب تک ان دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں ہوتا پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں پر قابو پانا ایک مشکل امر ہے اس لیے حکومت پاکستان افغان حکومت سے بار بار یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ اپنے ہاں موجود دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرے لیکن ابھی تک افغان حکومت کی جانب سے ایسی کوئی بڑی کارروائی سامنے نہیں آئی۔ اگر پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کا سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے اور افغان حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی نہیں کی جاتی تو ممکن ہے کہ پاکستان کو افغان طالبان کے خلاف مشترکہ کارروائیوں کا حصہ بننا پڑے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کو سپورٹ داخلی اور خارجی دونوں سطح سے مل رہی ہے۔

اس لیے داخلی سطح پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکام سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کے انسداد کے لیے غوروفکر کر رہے ہیں۔ پاکستان بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے ’را‘ کے ملوث ہونے کے ثبوت امریکا کو فراہم کر چکا ہے مگر ابھی تک امریکا کی جانب سے بھارت کو دہشت گردی کی ان کارروائیوں سے روکنے کے لیے کوئی اقدام سامنے نہیں آیا۔ ان حالات کے تناظر میں بعض تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کو داخلی سطح پر عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے عالمی بڑی طاقتوں کا بھی ہاتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنا ٹھوس کردار ادا کرنے کے بجائے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔