تعلیم ’’برائے فروخت‘‘

علی احمد ڈھلوں  منگل 26 مئ 2015

تعلیم ’’برائے فروخت‘‘ پر راقم کا پچھلا کالم ’خاصا سراہا گیا ۔ موضوع کی ہمہ گیریت کے باعث اس پر مزید لکھ رہا ہوں۔سچ یہ ہے کہ تعلیم کے ان تاجروں کو چیک کرنے والا کوئی نہیں۔ ان اداروں نے حکومت کا بازو بننے کے بجائے منافع خوری کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔

تعلیم کو بیچا جا رہا ہے اور حکومت خاموش ہے، یہ جان کر آپ حیران ہوں گے کہ پنجاب میں موسم گرما کی تعطیلات کے فوراََ بعد اور 15 جولائی تک 450 سے زائد سرکاری اسکولوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، یہ اسکول نجی شعبے کو دیے جائیں گے جسے اسکول ٹیچر تبدیل کرنے، نئے ٹیچرز بھرتی کرنے اور تنخواہیں مقرر کرنے کا اختیار بھی حاصل ہو گا۔ اب آپ خود سوچیں کہ اگر ایسے اقدامات کیے جائیں گے اور غریب کا بچہ اسکول نہیں جا سکے گا تو مجھ جیسا بے ضرر شخص جذباتی نہیں ہو گا تو کیا کرے گا۔۔۔

خیر یہ تو تھی ہماری ’’اسکولنگ‘‘ کی مختصر روداد، اب ذرا اعلیٰ تعلیم کی طرف آتے ہیں یعنی یونیورسٹیاں اور کالجز۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک ایسے ادارے کی بات کر لی جائے جسکی ایک ہی عمارت ایک ہی وقت میں آئی ٹی یونیورسٹی، میڈیکل کالج، انجینئرنگ یونیورسٹی، مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ اور ماس کمیونیکیشن کالج و ریسرچ سینٹر میں تبدیل ہو جاتی ہے یعنی جب یو ایچ ایس کی انسپیکشن ٹیم آتی ہے تواس ادارے کے دیگر شعبہ جات کو میڈیکل کے شعبہ جات کی تختیاں چسپاں کر کے میڈیکل کے علاوہ دیگر شعبہ جات کے طلبہ کو چھٹی دے دی جاتی ہے، اور اس طرح یو ایچ ایس کی ٹیم کو ’ماموں‘ بنا دیا جاتا ہے۔ انسپیکشن ٹیموں کا ان اداروں پر چیک اینڈ بیلنس نا ہونے کے برابر اس لیے ہے کہ یہاں نالائق اور دیگر ایسی ہزاروں خوبیوں کے مالک حکمران ہمارے اوپر مسلط ہیں، جن کا تعلیم کے حوالے سے کلرکوں جتنا بھی ویژن نہیں ہے۔

کہتے ہیں ’’ایماندار وہی ہے جسے موقع نہیں ملا‘‘، ان جامعات کی اصل حقیقت جاننی ہے تو وہاں کے زیر تعلیم طلبہ سے تھوڑا ڈسکس کر کے دیکھ لیں وہ آپ کو ان تعلیمی اداروں کی ’دو نمبریوں‘ کی اتنی لمبی تفاصیل فراہم کریں گے کہ آپ دنگ رہ جائیں گے۔ کوئی ایک طالب علم بھی آپ کو صحیح معنوں میں مطمئن نظر نہیں آئے گا۔ جرمانے، فنڈ، چیرٹی، متفرق فنڈ نہ جانے کیا کیا ظلم ان طلباء پر ڈھائے جا رہے ہیں۔

بعض ادارے تو جرمانے کی مد میں وصول ہونے والے ’چندے‘ سے ہر سال ایک نیا تعلیمی ادارہ کھولتے ہیں یا اسی تعلیمی ادارے کو وسعت دیتے ہیں۔ ان اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کے لیے کیسی کیسی فیسیں ’وجود‘ میں آ چکی ہیں یہ سن کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔ ہماری اکثر جامعات میں سمسٹر سسٹم رائج ہے۔ عملی طور پر دیکھیں تو یہ نظام ہماری اعلیٰ سطح کی تعلیم کو معیارسے دور لے جا رہا ہے۔

یہ سمسٹر کا نظام در حقیقت ایک سراب کے سوا کچھ نہیں، کیوں کہ چھ  مہینے پر مشتمل سمسٹر میں ایک سے ڈیڑھ ماہ سمسٹر بریک کے نام پر تعطیل رہتی ہے، جب کہ ایک مہینہ امتحانات میں صرف ہوتا ہے۔ باقی صرف ساڑھے تین ماہ بچتے ہیں… عجیب بات یہ ہے کہ ان ساڑھے 3 ماہ یعنی تقریباً سو دنوں میں سے ہر ایک مضمون کا مجموعی دورانیہ صرف 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ محض چار، چار ہفتے کا کورس سکھا کر کسی اسٹوڈنٹ کو ایک مضمون میں ماہر یعنی ایم اے، ایم ایس سی، بی ایس کی سند تفویض کیا جانا درست ہے؟ ہماری ان جامعات میں تکمیل کورس کے نام پر کسی مضمون کے چند جزیات ہی پڑھائے جاتے ہیں اور ’’سند یافتہ‘‘ طلبہ و طالبات کو اس مضمون میں ماہر یعنی ماسٹر تصور کیا جاتا ہے، نہلے پہ دہلا یہ کہ ہماری ڈگری کی اہمیت تو بیرون ملک خصوصاََ ترقی یافتہ ممالک سے پوچھیں پھر آپ خود اندازہ لگائیں گے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔

خدارا پاکستان کو مزید بدنام نہ کریں۔ پہلے ہی ہمارا ملک ریاستی دشمنوں کے ہتھے چڑھا ہوا ہے، آج کل تو ہمارے ٹی وی چینلز میں ایک پاکستانی ادارے کی جانب سے کتے کو ڈگری جاری کرنے کی فوٹیج بار بار دکھائی جا رہی ہے جو پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث بنی ہوئی ہے۔۔۔ ہماری ڈگری ہولڈرز کو بیرون ملک وہی ڈگری دوبارہ حاصل کرنا پڑتی ہے یا اس ڈگری کو ’پروف‘ کرنے کے لیے ایک اضافی امتحان دینا پڑتا ہے۔ یہ ہم اس ڈگری کی بات کر رہے ہیں جسے طلباء نے لاکھوں روپے خرچ کر کے حاصل کیا ہوتا ہے۔

اب ذرا بات کرتے ہیں لاکھوں روپے فیس کی۔ والدین بچے کو داخل کروانے کے لیے سب سے پہلے فیس واؤچر چیک کرتے ہیں جسے دیکھنے کے بعد وہ اپنے بجٹ کے مطابق فیصلہ کرتے کہ آیا وہ داخل کروائیں یا نہیں،،، فرض کیا والدین نے اپنے بیٹے یا بیٹی کو ایم بی اے میں داخل کروا دیا ہے، ایم بی اے کے کل 6 سمسٹر ہیں۔

(اب یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ایک ایم بی اے 3.5 سال کا ہے، ایک ایم بی اے 2 سال کا اور ایک ایم بی اے 1 سال کا ہے یعنی آپ کی مرضی جیسی مرضی ڈگری لے لیں۔) ہر سمسٹر کی فیس 92,000 روپے ہے، داخلہ فیس 30,000 روپے ہے اور ’متفرق چارجز‘ بھی 10 ہزار کے قریب ہیں۔ طالب علم نے یہ تمام واجبات جمع کروا  دیے اب یونیورسٹی جانے کے بعد اس پر جو معاشی تشدد کیا جاتا ہے وہ طالب علم کے ساتھ اس کے والدین کو بھی خودکشی پر مجبور کر دیتا ہے۔

پہلے ہی مہینے کلچرل فیسٹیول کی مد میں 2000 روپے کا چالان دیا جاتا ہے۔ پھر اسپورٹس فنڈ، پھر ڈرامہ سوسائٹی فنڈ اور اس طرح کے کئی فنڈز اکٹھے کیے جاتے ہیں، پھر حاضری پوری نہ ہونے پر جرمانہ وصول کیا جاتا ہے، جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں امتحان میں بیٹھنے سے روک دیا جاتا ہے،،، یہ اہتمام حجت ادا کرنے کے بعد اگر کوئی طالب علم کسی مضمون میں فیل ہو گیا تو اس سے آدھے سمسٹر تک کی فیس وصول کی جاتی ہے۔ اور بعض یونیورسٹیوں میں تو ایک مضمون پاس کرنے کی فیس 50 ہزار سے بھی زیادہ وصول کی جاتی ہے۔

’’ظالم مارتا بھی ہے اور رونے بھی نہیں دیتا‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔