لفافہ کلچرکی مخالفت

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 27 مئ 2015

لفافہ انسانوں کے درمیان رابطے کا کام دیتا ہے۔ دو افرادکے ملاپ کا ذریعہ ہونے کے سبب لفافہ بڑا فیورٹ اور پسندیدہ رہا ہے اور موبائل فون سے پہلے ہر گھر میں سب سے زیادہ انتظار اسی کا ہوتا تھا۔زمانے کے ساتھ ساتھ لفافے کا استعمال بھی بدلتا رہا، پھر یہ ہوا کہ جب غیر قانونی نذرانوں کی تقسیم و ترسیل کا کاروبار شروع ہوا تو اس مشکل کام کے لیے لفافہ ہی کام آیا اور جب میدانِ سیاست کے چوہدریوں نے صحافیوں میں پیسے بانٹنے کا آغاز کیا تو یہ بوجھ بھی لفافے نے ہی اٹھایا۔ لفافوں کے ذریعے مالِ حرام کی ترسیل کو اس قدر فروغ حاصل ہوا کہ’ لفافہ کلچر’ کے نام سے ایک نیا کلچر وجود میں آگیا۔

ایک دوست بتارہا تھا کہ اس کے ضلعے کا ڈی پی او اپنے ماتحت تھانیداروں سے اور ڈی سی او پٹواریوں اور تحصیلداروں سے ماہانہ بھتّہ لیتے ہیں مگر مارکیٹ میں رشوت کا لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ دونوں ’’لفافہ پکڑتے ہیں‘‘ ہر دو افسران نے یہ ہدایات دے رکھی ہیں کہ ماہانہ نذرانہ خاکی لفافے میں بند ہو اور بروقت پہنچے ۔کسی قسم کی تاخیر کوناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتاہے۔دونوں افسربہترین رپورٹوں کی بنیاد پرپروموٹ بھی ہوگئے ہیں۔

لفافہ کلچر کی بظاہر تو سبھی مخالفت کرتے ہیں لیکن ہمارے بزرگ چچا محمد اکبر خان (سابق ممبر پارلیمنٹ)تو لفافے کا نام سنتے ہی گھبراہٹ سے اچھل پڑتے ہیں۔ علی نے جب اصرار کرکے چچاسے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ سننا چاہتے ہوتو پھربیٹھواور سارا قصّہ سن لو۔

’’آپ شادیوں پر دیے جانے والے لفافے کے بارے میں تو جانتے ہوں گے یہ وہ (نیوندرے کا) لفافہ ہے جو دلہا کے  بجائے اس کے والد کو دیا جاتا ہے اور جس میں پیسے ڈالتے وقت دینے والا اپنی استطاعت سے زیادہ وصول کنندہ کے معاشی حالات اورکچھ عرصے بعدایسے ہی موقعے پر اس سے دوگنی رقم وصول ہونے کے امکانات کو پیش ِ نظر رکھتا ہے۔

قریبی رشتے دار اس بات کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں کہ شادی کا یہ ’تحفہ‘صاحب ِ شادی یعنی دُلھا کی دست برد سے محفو ظ رہے۔ اس لیے وہ اسے بدستِ خود دلہا کے والد یا کسی ایسے ذمے دار شخص کے ہاتھ میں پکڑاتے ہیں جو انھیں ـ ’’وصول پائے‘‘کی رسید بھی لکھ دے۔ عزیزوں اور دوستوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم کبھی لفافے کے چکر میں نہیں پڑے اور دلہے یا اس کے والد کو کھلے نوٹ ہی پکڑا دیتے ہیں تاکہ لفافوں کے اضافی خرچے سے بچا جاسکے۔

مگر شادیء ھٰذا (یعنی جس کا ذکر ہونے والا ہے) پر ہمارے سیکریٹری عدنان نے سٹینڈ لے لیا اورکہنے لگا کہ ’’یہ وی آئی پی شادی ہے دوسرے لوگ بھی پیسے لفافے میں ڈال کر دیں گے اس لیے آپ بھی پورے پروٹوکول کے ساتھ پیسے لفافے میں ڈال کر ہی دیں ‘‘۔ اس نے لفافے کی اہمیّت اجاگر کرنے کے لیے کچھ اورقانونی اور زیادہ غیر قانونی دلائل  دیے۔ اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ہمارے منیجر شبیر نے کہا کہ’’ سرجی بڑے لوگوں کا یہی طریقہ ہے اس سے لینے والے کی عزّت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اوررقم کم ہونے کی صورت میں دونوں گھروں کا بھرم بھی رہ جاتا ہے‘‘۔ہم نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے اس بار کھلے نوٹ نہیں، لفافہ دیا جائیگا۔

کار میں بیٹھتے ہوئے عدنان نے پھر لفافے کا نعرہ بلند کیا تو ہم نے کہا بھاگ کر قریبی دکان سے لے آؤ۔اتوار کو چھٹی کے باعث دکانیں بند تھیں۔ عدنان کہنے لگا۔ ’’سر شادی بڑے شہر میں ہے وہاں پہنچ کر کسی دکان سے لے لیں گے‘‘۔ شادی والے شہر پہنچے تو وہاں بھی زیادہ تر دکانیں بند تھیںبس اکادکّاہی کھلی تھیں انھی میں سے ایک دکان پرپہنچے تو ہم نے خود جا کر دکاندار سے لفافے کی بابت پوچھا تووہ کہنے لگا’’بھائی صاحب دیکھنے میں تو آپ پڑھے لکھے آدمی لگتے ہیں مگر آپ کی بات نے آپکے بارے میں قائم کیے گئے پہلے تاثر کی نفی کردی ہے‘‘۔ ہمیں دکاندار کی بات بہت بری لگی تو ہم نے بھی جواباً کہا ’’ہماری کس بات سے حضور کی شانِ اقدس میں گستاخی ہوگئی ہے مسٹر دکاندار صاحب؟‘‘ کہنے لگا ’’عام سمجھ بوجھ کا آدمی بھی جان سکتاہے مگرصرف آپکو نظر نہیں آرہا کہ یہ جنرل اسٹورہے کوئی ڈاکخانہ نہیں ہے جہاں سے لفافے ملتے ہوں‘‘۔

ہم نے اس کم پڑھے لکھے شخص سے مزید الجھنا مناسب نہ سمجھا اور آگے چل پڑے۔ کچھ دیر چلنے کے بعد پھر ایک کھلی دکان نظر آئی تووہاں رک گئے مگر اس بار ہم نے خود جانے کے بجائے عدنان کو بھیجا۔ عدنان دکان سے نکلا تو ہم بہت خوش ہوئے کیونکہ اس کے ہاتھ میں ایک عدد لفافہ تھا۔ ہم نے اسے شاباش دیتے ہوئے کہا کہ پیسے لفافے میں ڈالو اور جلدی چلو ہم پہلے ہی شادی سے لیٹ ہوچکے ہیں۔ اس نے لفافہ دکھاتے ہوئے کہا ’’سر جی لفافے کا گیَٹ اپ ٹھیک نہیں لگتا۔ عین درمیان میں عطر کی شیشی پتھر پر توڑنے والا شعر لکھا ہے اور اس کے بالکل اوپر جو لڑکے اور لڑکی کا فوٹو ہے اس میں دونوں کے درمیان فاصلہ بالکل ہی ختم کردیا گیاہے۔

سرجی ہم جیسے مُنڈے شُنڈے ایسا لفافہ دے دیں توخیر ہے مگر یہ آپ کے اسٹیٹس والا نہیں ہے‘‘۔ ہم نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔ ’’بیوقوف ادھر شادی کا وقت نکلاجارہا ہے اور تم اسٹیٹس کا ایشواٹھارہے ہو۔ اس کام کے لیے یہ موقع مناسب نہیں، پیسے لفافے میں ڈا ل کرلفافہ ہمیں پکڑاؤ۔ہم خود دیکھتے ہیں کہ کیسا لگتا ہے‘‘۔ ساتھ ہی یہ ہدایت بھی دے دی کہ لفافے کے قابلِ اعتراض حصّوں پر انگوٹھا رکھ کر لفافہ پکڑانا۔ اب جب ہم لفافہ پکڑنے لگے تو لڑکے اور لڑکی کے جڑے ہوئے منہ بہت نمایاں طور پر نظر آرہے تھے۔

اس قسم کا لفافہ دینا ہمیں بیہودہ سی حرکت لگی۔ اس لفافے کو مسترد کر دیا گیامگر اس لیے نہیں کہ اس سے لڑکے کے والد کے اخلاق اور کردار پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ تھا بلکہ اس لیے کہ لفافے پر لکھا ہوا شعر بے وزن تھا اور ہم جانتے تھے کہ دُلھا کا ایک چچا شاعر ہے جو بے وزن شعر سن کر سر پھوڑنے پر تُل جاتا ہے اور یہ مذکورہ سر عموماً اس کے پاس کھڑے شخص کا ہوتا ہے۔خَیر ہم شادی گھر کی طرف دوڑ پڑے ، تاخیر ہو جانے کے باعث فیصلہ ہوا کہ اب جو بھی دکان کھلی نظر آئی اس سے لفافہ لے لیا جائیگااور اب کی بار لفافے پر لکھی تحریر پر بھی اعتراض نہیں کیا جا ئیگا ۔

ہم دعائیںکرنے لگے کہ شادی گھر آنے سے پہلے لفافے کا بندوبست ہو جائے۔ اچانک عدنان بول پڑا ، سر جی وہ دکان کھلی نظر آرہی ہے‘‘ ۔ اس کے سامنے جا کر کار کھڑی کی ، یہ مٹھائیوں کی دکان تھی۔ عدنان نے جا کر مذاکرات کیے ۔ دکاندار نے کہا ’’ باؤ جی ایک شاپر میں مٹھائی ڈالی تھی کہ بلی نے لفافہ اُچک لیا، پیچھے بھا گ کر شاپر برآمد کرا لایا ہوں، اسوقت صرف وہی مل سکتا ہے ‘‘  مشیرانِ خصوصی نے رائے دی کہ شاپر نیوندرے کا سَتر ڈھانپنے کے لیے کافی ہے اس لیے شاپرکو ہی لفافہ سمجھ لیا جائے۔

ہزار، ہزار کے تین نوٹ عدنان کو پکڑائے جواس نے لفافے میں ڈال دیے ۔ اتنی دیر میں جائے وقوعہ یعنی شادی گھر بھی آپہنچا۔ عدنان کہنے لگا  ’’سر جی نوٹ کچھ بوسیدہ سے ہیں، نئے نوٹ زیادہ اچھے لگیں گے‘‘۔ ہم نے جیب سے نئے نوٹ نکال کر بائیں ہاتھ میں پکڑ لیے اور دائیں ہاتھ سے شاپر میں سے پرانے نوٹ نکالے تو یوں لگا کہ ہاتھ گھی کے ڈبّے میں چلا گیا ہے ۔ گھی سے شرابور ہاتھ صاف کرنے کے لیے قمیض کا دامن پکڑا تو دامن داغدار ہو گیا اور قمیض پر پنجے کا واضح نشان پڑ گیا۔ بہت غصّہ آیا جسکا کچھ حصہ عدنان پر نکالا کہ الّوجلدی سے نوٹ صاف کرو، اس نے کوشش کی تو دو نوٹ پھٹ گئے۔

مزید غصّہ آیا مگر برداشت کرتے ہوئے دونئے نوٹ اُسے پکڑا دیے۔عدنان کی عقل کا اندازہ لگالیں کہ عین اسوقت کہنے لگا  ’’سر جی آپ کی قمیض سے دیسی گھی کی خوشبو بہت اچھی آرہی ہے۔ حلوائی واقعی سچ کہتا تھاکہ وہ دیسی گھی سے مٹھائی بناتا ہے‘‘۔ ہم غصّے سے بولے ’’او غلط موقعے پر غلط بات کرنے والے احمق انسان! حلوائی کے لفافے سے ہمارے کپڑے تباہ ہو گئے ہیں اور تم دیسی گھی کی خوشبو سے لطف اندوز ہو رہے ہو اور حلوائی کی حق گوئی کی تعریف و تحسین کررہے ہو ۔ یاد رکھو! یہ گھی کا قصیدہ یا دکاندار کے اوصاف ِحمیدہ بیان کرنے کا وقت ہرگزنہیں ہے۔

’’ اُدھر دلھا کا والد (ہمارا دوست) مہمانوں کو رخصت کرنے کے لیے شادی ہال سے با ہر آگیا تھا۔ فوری طور پر دو راستے نظر آئے ایک یہ کہ بغیر شرکت کیے واپس چلے جائیں مگر اُسوقت دو چار گام جب کہ لب ِبام رہ گیا ، واپس جانا اس لیے بھی مناسب نہ سمجھا کہ گھی میں بھیگے ہوئے نوٹ اب ہمارے کسی کام کے نہ تھے، ان کا بہترین استعمال یہی تھا کہ انھیں اس مبارک موقع پر دلھاکے اَبّے کے حوالے کردیا جائے۔ اس ضمن میں بڑا مسئلہ یہ درپیش تھا کہ قمیض پر لگے پنجے کے نشان کو کس طرح چھپایا جائے۔ ہنگامی طور پر حکمت ِ عملی وضع کی گئی اور طے ہوا کہ عدنا ن اور شبیر ہدایات کے مطابق آگے آگے چلیں گے اور ہم slow march کے مہمانِ خصوصی کی طرح ان کے پیچھے پیچھے چلیں گے۔ مارچ شروع ہو گیا ۔

ہم نے لفافہ یعنی شاپر پنجے کے نشان کے اوپراس زوائیے سے پکڑا ہوا تھا کہ سامنے سے دیکھنے والوں کواس وقت تک نظر نہیں آتا تھا جب تک وہ بالکل قریب آکر تر دامنی کا حال بچشمِ خود نہ دیکھ لیں۔ سلو مارچ کرتے ہوئے ہم بالآخر دلھا کے والد تک پہنچ گئے، نظریں نشان پر تھیں، دائیں ہاتھ سے پنجے کو چھپاتے ہوئے بائیں ہاتھ سے شاپر اپنے دوست کو پکڑایااور مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ‘‘ آپ کے بتیّس سالہ نوجوان بیٹے کی پہلی شادی کی بہت خوشی ہوئی۔ ’’آپ کے چہرے پر تو پریشانی کے آثار نظر آرہے ہیں‘‘۔

دوست کہنے لگا ساتھ ہی اس نے کھانے کی دعوت دی، ہم نے طبیعت کی ناسازی کا بہانہ بنایا اور تیزی سے باہر نکل آئے ۔کچھ دیر بعد کن اکھیوںسے پیچھے دیکھا تو اتنا نظر آیا کہ دلھا اپنے والد کے پاس پہنچا ۔ باپ بیٹاایک دوسرے کے قریب آئے اور  پھر وہی پنجے کا نشان جو ھماری قمیض پر لگا ہوا تھا دلھا کے کوٹ پر ثبت ہو گیا، اس کے ساتھ ہی ہم نے اپنی رفتار اور تیز کردی، تو علی بیٹا اس دن سے ہم لفافہ کلچر کے بہت سخت خلاف ہوگئے ہیں‘‘۔

نوٹ: مصر کے منتخب صدرڈاکٹر محمد مرسی اور ان کی پارٹی پر آج کے فرعونوں نے ظلم کے پہاڑ توڑدیے۔ مگر دنیا بھر میں جمہوریت کے راگ الاپنے والے گوئیے گنگ ہیں۔ دنیا بھر کے حکمرانوں کی بے حسی شرمناک ہے۔

برما کے بے کس روہنگیا مسلمان سمندروں اور ساحلوں پر مررہے ہیںمگر کوئی ملک انھیں سرچھپانے کی جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے، ان کا عقیدہ کچھ بھی ہو مگر وہ بہرحال انسان ہیں مگر انسان دوستی کی دعویدار ہزارہا تنظیمیں اور این جی اوز خاموش ہیں۔ مصر اور برما کے مظلوموں کے حق میں ایک ہی توانا آواز اٹھی ہے اور وہ ہے عالم ِ اسلام کے سب سے قدآور رہنما کی۔ طیب اردوان تم پر سلام ہو۔ خالقِ کائنات تمہیں اپنی حفاظت میں رکھے!! سانحہ ڈسکہ اور پولیس اور وکلا کے رویوں کے بارے میں اگلی بار لکھوں گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔