سندھ کا اردو باغ

زاہدہ حنا  بدھ 27 مئ 2015
zahedahina@gmail.com

[email protected]

چاند کی کشتی رات کے آسمان میں تیر گئی ہے۔ کراچی کا گورنر ہاؤس ہے۔ اس کے سبزہ زار پر محافظ پریڈ کرتے ہوئے آئے ہیں اور اپنی اپنی جگہوں پر کھڑے ہوگئے۔ شہ نشین پر شہر کے دانشور، ادیب اور فنکار صدر پاکستان کے منتظر ہیں۔ وہ گورنر سندھ کی معیت میں آتے ہیں اور اپنی نشست پر متمکن ہوجاتے ہیں۔ یہ اس اردو باغ کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب ہے جو گورنر ہاؤس سے میلوں دور ہے۔ اب تعمیراتی منصوبہ کہیں ہوتا ہے اور تالیوں کی گونج میں سنگ بنیاد کی نقاب کشائی کہیں اور ہوجاتی ہے۔ ہمارے یہاں جب سے دہشت گردوں نے اپنی چھاؤنی چھائی ہے، اس وقت سے سنگ بنیاد اسی طرح رکھے جاتے ہیں۔

انجمن ترقی اردو کی معتمد اعزازی ڈاکٹر فاطمہ حسن انجمن کی مشکلات صدر محترم، گورنر سندھ، کمشنر کراچی اور عمائدین شہر کے گوش گزار کرتی ہیں۔ ڈاکٹر فاطمہ جو ایک معتبر شاعرہ اور شاندار منتظم ہیں اس روز ہمیں بتارہی تھیں کہ یہ مرحوم نور الحسن جعفری تھے جن کی سعی سے 1989 میں انجمن کے لیے 5331 گز کا ایک رفاحی پلاٹ سرکار کی طرف سے منظور ہوا۔ اس پر عمارت کی تعمیر کے لیے 26 برس تک کوششیں کی گئیں، اس دوران تعمیراتی کام کی سرکاری سرپرستی تو کیا ہوتی، اس قطعۂ اراضی پر قبضہ مافیا نے اپنے لوگوں کو آباد کرادیا۔ چند مہینوں پہلے ممنون صاحب کی ذاتی دلچسپی کی بنا پر یہ قبضہ ختم ہوا ہے۔

اس روز ’’باغ اردو‘‘ کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے صدر نے کہا کہ ’’اردو باغ محض ایک تعمیراتی منصوبہ نہیں بلکہ کئی اعتبار سے سیاسی شناخت کا آئینہ دار ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی اور گوناگوں قسم کی عالمی سیاسی تبدیلیوں کے پیش نظر دنیا کی مختلف قومیں عالمی ثقافتی یلغار کا شکار ہیں۔ پاکستان بھی اسی قسم کی صورتحال سے دوچار ہے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ تہذیبیں، تہذیبوں کے تال میل سے جنم لیتی ہیں اور اسی طرح ترقی کرتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اپنی زبان اور تہذیبی اقدار کی حفاظت کی جائے ۔‘‘

ان کی باتیں سنتے ہوئے مجھے کتنے ہی تاریخی حقائق یاد آئے۔ اس مرحلے پر یہ بات کیسے بھلائی جاسکتی ہے کہ سندھ اور سندھی کے شاعروں اور ادیبوں کی اردو سے دلچسپی کا عرصہ لگ بھگ 400 برس پر پھیلا ہوا ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی بنیادی تحقیق و تالیف ’’سندھ میں اردو شاعری: از عہد شاہ جہاں تا قیام پاکستان‘‘ کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے اپنی کتاب کا آغاز ملا عبدالحکیم ٹھٹھوی کے ذکر سے کیا ہے جن کی شاعری 1060 ہجری سے شروع ہوتی ہے۔ وہ میر محمود صابر (1115-1185ھ) کا ذکر کرتے ہیں جن کی شاعری سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ولی دکنی/گجراتی کی شہرت ٹوئیٹر اور فیس بک کے نہ ہونے کے باوجود گجرات سے سندھ تک پہنچ چکی تھی۔

سن ریختہ ولی کا، دل خوش ہوا ہے صابر
حقاز فکرِ روشن، ہے انوری کے مانند

اس کتاب میں ڈاکٹر بلوچ نے سندھ کے 66 چنیدہ اردو شاعروں کا ذکر کیا ہے ان میں روحل خاں روحل، سچل سرمست، حمل خان لغاری، پیر بھاون علی شاہ ساقی، مرزا قلیچ بیگ اور مرزا قربان علی بیگ قربان کے حالات زندگی اور نمونۂ کلام شامل ہے۔دیوان صورت سنگھ جو صورت اور بہار دونوں ہی تخلص کرتے تھے، 1832 کے لگ بھگ حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے فارسی، سندھی، سرائیکی اور اردو میں شاعری کی اور ان کا مجموعۂ کلام پہلی مرتبہ 1886 میں لاہور سے شایع ہوا۔ تبرکاً ان کا ایک شعر لکھ رہی ہوں ؎

موسیؑ جیسا دیکھا نہ کسی جلوۂ سینا
منصور انا الحق جیسا سرِ دار نہ دیکھا

میر کرم علی خاں کرم تالپور، سندھ کے حکمران تھے اور اپنے خاندان کے پہلے اہم شاعر تھے۔ وہ لکھتے ہیں ؎

صبح دم یاد مجھے چاکِ گریباں آیا
پھر تصور میں مری وہ رخِ تاباں آیا

سندھی کے بے بدل شاعر شیخ ایاز، زندگی کے آخری دنوں میں ’’برسات‘‘ کے مدیر اعلیٰ تھے۔ اس زمانے میں کچھ لوگوں نے سندھی اردو کے درمیان چپقلش پیدا کررکھی تھی ۔ ان دنوں شیخ ایاز نے لکھا تھا کہ ’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنی مادری زبان کو نظر انداز کیے بغیر پاکستانی اردو پر عبور حاصل نہیں کرسکتے؟ سندھی زبان میں پنجابی سے زیادہ فارسی اور عربی کے الفاظ ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ پرانے سندھی اردو پر اتنا ہی عبور حاصل کرسکتے ہیں جتنا کہ نئے سندھیوں کو ہے۔ نئے سندھی اپنے اجداد کی جانب سے وراثت میں ملنے والے محاورے ضرب المثل اور طرز گفتار وغیرہ بھول چکے ہیں اور سندھی، پنجابی، پشتو اور بلوچی کے اکثر الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ اس اردو کو اگر اردو کہا جائے تو یہ پاکستانی اردو ہے۔ اردو کے مشہور ادیب، سیاسی مفکر اور تاریخ نویس سبط حسن مرحوم نے فیروز اللغات کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ’’اردو معمولی فرق سے پنجاب،دہلی، یوپی، مالوا، بہار مطلب یہ کہ پورے شمالی ہندوستان میں ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔‘‘

پاکستانی اردو پر ہمارا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی دوسرے پاکستانی کا۔ یہ ہماری اتنی ہی اپنی ہے جتنی کہ کسی دوسرے پاکستانی کی۔ کیا ہم پرانے سندھی اس اردو پر عبور حاصل کرکے مہاجر یا اردو دیش کے نعرے کو بے معنی نہیں بناسکتے۔ انسان جتنی بھی زبانیں سیکھے اس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ زبان کسی کی میراث نہیں ہوتی۔ چنانچہ اس سے تعصب بے معنی ہوتا ہے۔ کیا ہم یہ تجزیہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے کہ ہمارا نقصان کہاں اور فائدہ کس چیز میں ہے؟‘‘

اس وقت مجھے پاکستان اور سندھ کے بے مثال دانشور اور افسانہ نگار امر جلیل یاد آئے۔ انھوں نے چند ہفتوں پہلے اردو کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’’بغیر کسی فرد، افراد، اداروں کی مدد، سہارے اور حمایت کے اردو کا پورے ہندوستان پر چھا جانا کرشمے سے کم حقیقت نہیں ہے، آپ بنگال سے چلیں، مدراس تشریف لے آئیں، آپ تب مدراسیوں سے مدراسی یا تامل زبان میں بات نہیں کرتے، کیوں کہ یہ زبان آپ نہیں جانتے۔

آپ ان سے اپنی زبان بنگالی میں بھی بات نہیں کرسکتے کیوں کی مدراس (چنائی) کے لوگ بنگالی نہیں جانتے، آپ ان سے اردو میں بات کرتے ہیں، ہندوستان میں شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں اردو بولی اور سمجھی نہ جاتی ہو، تقسیم ہند سے پہلے اردو کو ہندوستانی بھی کہا جاتا تھا۔ صدر کراچی کے آٹھ دس سینما میں انگریزی فلمیں لگتی تھیں، شہر کے باقی سینماؤں میں ہندوستانی فلمیں چلتی تھیں، وہ تمام فلمیں مع گانوں اور مکالموں کے اردو میں ہوتی تھیں، آزاد قبائل کے پہاڑی علاقوں سے روانہ ہوکر کراچی پہنچنے والے پٹھان گنتی کے چند ماہ میں اردو بولنے اور سمجھنے لگتے ہیں، اس کے برعکس آزاد قبائل سے آتے ہوئے پٹھان چند ماہ تو کیا برسوں میں بھی سندھی، پنجابی، بلوچی نہ سمجھ سکتے ہیں اور نہ بول سکتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟ اس سلسلے میں عمرانیات اور لسانیات کے ماہروں سے میں نے بات چیت کی ہے، کہیں سے بھی مجھے خاطر خواہ جواب نہیں ملا ہے۔‘‘

مجھے نہیں معلوم میرے بہت عزیز ادیب امر جلیل کو ان کے اس سوال کا جواب کب ملے گا۔اس سوال کا جواب ملے یا نہ ملے لیکن اپنے ان دو جید ادیبوں کی وسعت قلبی سے کیا ہمیںکچھ بھی نہیں سیکھنا چاہیے؟

اس رات گورنر ہاؤس کے عشائیے کے دوران اپنے برابر بیٹھی ہوئی حسینہ معین پر ایک نظر ڈالتی ہوں جن سے صدر محترم اشتیاق سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ کا اگلا ڈراما ہم کب دیکھ سکیں گے؟ میں سوچتی ہوں کہ حسینہ کے ڈرامے سے ممنون صاحب کو دلچسپی ہے اور ان ڈراموں کی ڈی وی ڈی کی فرمائشیں ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آتی ہیں۔ زبانیں انسانوں کے درمیان محبت کا تانا بانا بنتی ہیں۔ ہم کیسے کسی زبان کے ہاتھ میں خنجر دے کر اسے کسی دوسری زبان کے بولنے والوں کی گردن کاٹنے پر اکسا سکتے ہیں؟

کیا ہی اچھا ہو کہ ہم وفاقی اکائیوں میں بولی جانے والی زبانوں کو بھی قومی زبان کا درجہ دیں۔ جس طرح صوبہ سرحد کو خیبر پختونخوا کا نام دینے سے کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑی اسی طرح پاکستانی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے سے لسانی تعصبات کا خاتمہ ہوگا اور وفاق مضبوط ہوگا۔ زبانیں سوئی کی طرح ہوتی ہیں۔ دلوں کو یکجائی کے رشتے میں اسی طرح ٹانکتی چلی جاتی ہیں ۔

جس طرح سندھی عورتوں کی ہنرمند انگلیاں رنگ برنگ کترنوں سے رلیاں بناتی ہیں۔اس رات سندھی اور اردو کے شاعر امداد حسینی کو سنتے ہوئے جی چاہا کہ ’’اردو باغ‘‘ میں ایک ایسی بارہ دری ہو جس کے طاقچوں میں ہماری تمام قومی زبانوں کی بڑی اور اہم کتابیں موجود ہوں اور وہاں آنے والے سندھ کے’’اردو باغ ‘‘ میں ہماری تمام زبانوں کے گل بوٹوں کی بہار دیکھ سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔