احسن اقبال، پاک چین اقتصادی راہداری اور گھاتیں

تنویر قیصر شاہد  بدھ 27 مئ 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک حالیہ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں جناب محمد نواز شریف نے وفاقی وزیرِمنصوبہ بندی چوہدری احسن اقبال کی کمٹمنٹ اور خالصتاً پیشہ وارانہ کارکردگی کی بنیاد پر نہ صرف انھیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے بلکہ سب کی موجودگی میں دل کھول کر انھیں شاباش بھی دی۔

اس اجلاس میں ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں شریک تھیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے اہم ترین سیاستدانوں کو اس لیے مدعو کیا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے بارے میں بعض اطراف سے جو گلے شکوے کیے جارہے ہیں اور غلط فہمی کی بنا پر شبہات پھیلانے کی جو کوششیں ہورہی ہیں، انھیں دُور بھی کیا جائے اور ناسمجھیوں کا ازالہ بھی کیا جاسکے۔ احسن اقبال صاحب کو اس عظیم منصوبے، جو پاکستان میں 46بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا باعث بننے والا ہے، کے بارے میں بریفنگ دینے کا کہا گیا تھا۔

وہ نقشوں اور اعداد و شمار کی مدد سے وزیراعظم کے سامنے اے پی سی میں شامل جملہ افراد کو سمجھانے اور باور کرانے کی اپنی سی بھرپور کوشش کررہے تھے کہ پاک چین اکنامک کوریڈور کے حوالے سے نہ تو کوئی راستہ بدلا گیا ہے اور نہ ہی وطنِ عزیز کے کسی صوبے کو مستقبل کی خوشحالی سے محروم کرنے کی کوئی کوشش و سازش بروئے کار ہے۔

یہی وہ مرحلہ تھا جب وزیراعظم محمد نواز شریف نے جناب احسن اقبال کی تحسین بھی کی اور انھیں شاباش بھی دی۔ لاریب وزیرمنصوبہ بندی وزیراعظم کی توقعات اور آدرشوں پر پورا اترے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ان کی سہل زبان میں دی گئی بریفنگ کے باوجود ہمارے ملک کی چند ایک سیاسی جماعتیں اور ان کے گنے چنے سربراہ صاحبان مسلسل پاک چین معاشی راہداری کے بارے میں اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔

چین کی مہربانی سے پاکستان میں چھیالیس ارب ڈالر کی جو سرمایہ کاری ہونے جارہی ہے، بھارت سمیت ہمارے کئی مخالف ممالک کی دلی خواہش ہے کہ یہ بیل کسی بھی طرح منڈھے نہ چڑھ سکے۔ ہماری عسکری اور اعلیٰ سیاسی قیادت خفی و جلی الفاظ میں بھارت کے ان عزائم سے بار بار خبردار کررہی ہے لیکن بعض سیاست کاروں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی۔ یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ وہ دانستہ نہ سمجھ کر اور اپنے اپنے نام نہاد تحفظات کا اظہار کرکے اپنے پوشیدہ ایجنڈے اور ذاتی مفادات کی تکمیل چاہتے ہیں۔

اسی وجہ سے احسن اقبال کو کہنا پڑا ہے: ’’پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر بھارت کا چیخنا اور واویلا کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اپنے کیوں شور مچا رہے ہیں؟‘‘ انھوں نے یہ خوشخبری بھی سنائی ہے کہ آیندہ مالی سال کے بجٹ (2015-16) میں پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے دو سو پچاس ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔ خدا نہ کرے کہ تازہ ترین اور پاکستان کے حق میں نہایت مفید یہ پاک چین اکنامک کوریڈور دوسرا کالا باغ ڈیم بن کر رہ جائے۔ احسن اقبال احسن انداز میں یہی بات باور کرانے کی سعی کررہے ہیں لیکن بھَد اڑانے والی قوتیں اور گروہ باز نہیں آرہے۔ کیا ہم اپنے ہی ہاتھوں سے خسارہ اٹھانے والی قوم بنتے جارہے ہیں؟

جناب محمد نواز شریف نے تیسری بار اقتدار میں آتے ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ دوست ملک چین سے خاطر خواہ استفادہ کیا جائے گا اور بعض جہادی تحریکوں نے(سنکیانگ کے یغور مسلمانوں کے حوالے سے) اگر پاک چین تعلقات کو گزند بھی پہنچایا ہے تو اسے تیزی کے ساتھ اور شائستہ اسلوب میں بحال کیا جائے گا۔ اسی نیت کے تحت ہی وزیراعظم نے چین کا اوّلین دَورہ کرنے سے قبل، راستہ ہموار کرنے کے لیے، جو پہلا پاکستانی وفد بیجنگ بھیجا، اس کی قیادت جناب احسن اقبال کر رہے تھے۔

پیغام یہ تھا: ہم گزشتہ حکومت اور حکمرانوں سے قطعی مختلف ہیں۔ پاک چین تعلقات پر مبنی شایع ہونے والی تازہ ترین کتاب The  China – Pakistan  Axis,  Asia’s  New  Geopolitics (مصنف اینڈریو اسمال) میں لکھا گیا ہے کہ آصف زرداری نے بحیثیتِ صدرِ پاکستان اپنے دورئہ چین میں دوبار چینی قیادت سے پاکستان کے لیے مالی امداد حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن زرداری کی دونوں مرتبہ درخواستوں کو چینی قیادت نے شرفِ قبولیت نہ بخشا تھا۔ یہ استرداد نواز شریف کے علم میں تھا؛ چنانچہ اسی لیے انھوں نے بذریعہ احسن اقبال چینی قیادت کو نئے جذبات و احساسات کا حامل نیا پیغام بھیجا۔

امریکی مصنف اینڈریو اسمال نے مذکورہ بالا کتاب میں لکھا ہے کہ احسن اقبال نے وزیراعظم نواز شریف کے پیامبر کی حیثیت سے اپنا فریضہ نہایت خوبی سے انجام دیا۔پاک چین اکنامک کوریڈو کے خلاف دشمنوں کی جن چالوں سے چوہدری احسن اقبال خبردار کررہے ہیں، ان پر کان دھرا جانا چاہیے۔ خصوصاً پاکستان کے اس عظیم الشان معاشی منصوبے کے خلاف بھارت بڑے پیمانے پر جس دہشت گردی پر اتر آیا ہے، ان گھاتوں پر بھی نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

بھارت کی پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے پاکستان مخالف سازشوں پر اگر کوئی یقین نہیں رکھتا تو اسے 21مئی 2015ء کو بھارتی اخبار ’’دی ہندو‘‘ میں اٹل انیجا اور ستیابراتاپال کے لکھے گئے آرٹیکلز ضرور پڑھ لینے چاہئیں۔ ان دونوں صاحبان نے پاک چین اکنامک کوریڈور کی کھُل کر مخالفت کی ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کو اس معاملے میں کتنی شدید تکلیف ہورہی ہے۔

وزیراعظم نواز شریف نے اب تک چین کے جتنے بھی دورے کیے ہیں، احسن اقبال ہمیشہ ان کے ہمرکاب رہے ہیں کہ انھیں بیک وقت اپنے قائد اور چینی قیادت کا اعتماد اور اعتبار حاصل ہے۔ گزشتہ دنوں عظیم چینی لیڈر شی چنگ پنگ نے اپنے دورے میں پاکستان کے ساتھ جتنے بھی معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط کیے، احسن اقبال صفِ اول میں کھڑے اور تاریخی وحساس دستاویزات پر دستخط کرتے نظر آتے رہے۔

انھوں نے اعلیٰ امریکی جامعات سے جو پڑھا، پھر وہیں مختلف یونیورسٹیوں میں استاد بن کر جوپڑھایا اور گزشتہ تین عشروں کے دوران جو سیاسی تجربات حاصل کیے، اب یہ قیمتی اثاثہ وزیرِ منصوبہ بندی بن کر ان کے کام آرہا ہے۔ بیجنگ میں ان کے تعلقات کی وسعت اور گہرائی میں تو اضافہ ہوا ہی ہے، اسلام آباد میں بروئے کار چینی سفارتخانے میں بھی انھیں اعتماد اور اعتبار کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔

یہ اسی کا مظہر ہے کہ احسن اقبال صاحب گزشتہ دنوں اپنے آبائی اور سیاسی حلقۂ انتخاب، نارووال، میں پاکستان میں متعین چینی سفیر اور ان کی اہلیہ محترمہ کو لے گئے۔ وہاں چینی معزز مہمانوں کا نہایت شاندار استقبال کیا گیا، ایسے جیسے اپنے گھر کے دو محبوب افراد کا دل و جان سے سواگت کیا جاتا ہے۔ چینی سفیر کا احسن اقبال کے حلقہ انتخاب میں جانا اہلِ نارووال کے لیے یوں مسعود بن گیا کہ انھوں نے وہاں کے ایک مقامی سرکاری انسٹی ٹیوٹ کو جدید ترین کمپیوٹر لیب دینے کا وعدہ کیا۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ چینی وعدے کرکے مکرنے والوں میں سے نہیں۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی ہونے کے ناتے وہ اپنی متعینہ قومی ذمے داریاں تو نبھا ہی رہے ہیں، انھوں نے اپنے حلقۂ انتخاب میں ناقابلِ یقین حد تک ترقیاتی کام بھی کیے ہیں۔ شہرِ نارووال کی کایا کلپ ہوچکی ہے، حالانکہ اس شہر کا چہرہ اس وقت ہی بدل جانا چاہیے تھا جب اس ضلع کے کرتا دھرتا ایک ریٹائرڈ کرنل اور بعدازاں ایک ’’سائنسدان‘‘ تھے لیکن ان دونوں کے سیاسی ادوار و اقتدار میں اس شہر، جسے شہرِ فیض احمد فیض بھی کہاجانے لگا ہے، کی تقدیر نہ بدل سکی۔ احسن اقبال نے یہاں میرٹ کا جھنڈا بلند کرنے کی بھی اپنی سی تگ ودَو کی ہے لیکن ان کے ووٹروں نے ان سے بہت ہی بلند توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔

وہ ان کے توسط سے اپنے ہاں ایک عدد میڈیکل کالج کے قیام کا خواب بھی دیکھتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ کاش، سیالکوٹ سے نارووال اور مریدکے سے نارووال آنے والی دونوں سڑکوں کے عذاب سے نجات مل جائے۔ ان کے ووٹروں کا کہنا ہے کہ احسن اقبال صاحب پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے سولہ ہزار فٹ بلند درۂ خنجراب سے لے کر نیچے کی جانب پاکستان بھر میں شاندار شاہراہیں بچھانے کے اچھے اعلانات تو کررہے ہیں لیکن انھیں اپنے حلقے کی ادھڑی ہوئی سڑکوں کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔