کشکول توڑ دو، بھارت کے پیچھے نہ بھاگو

سلیم خالق  بدھ 27 مئ 2015
سب مجبور ہیں کیونکہ کھیل میں ریونیو کا بڑا حصہ بھارت سے ہی آتا ہے۔ فوٹو: فائل

سب مجبور ہیں کیونکہ کھیل میں ریونیو کا بڑا حصہ بھارت سے ہی آتا ہے۔ فوٹو: فائل

بہت سے لوگوں کے بچپن میں شاید ایسا ہوا ہوگا جب ایک بڑا لڑکا گلی میں کرکٹ کھیلتے ہوئے سب پر رعب جماتا، اس کی بیٹنگ سب سے پہلے آتی، اسے آؤٹ ہونے پر گیند کو ٹرائی (آزمائشی) قرار دینے کی بھی اجازت ہوتی، وہ جب چاہتا کھیلنے آتا اور کسی شام ’’موڈ نہیں ہے‘‘ کہہ کر پورے محلے کے بچوں کو مایوس کر دیتا، مگر مجبوراً سب کو اس کی دھونس برداشت کرنا پڑتی کیونکہ بیٹ اور گیند اسی کی ہی ہوتی تھی، اصل کرکٹ میں یہ کام بھارت نے سنبھالا ہوا ہے، وہ کبھی کسی ملک کے ساتھ کھیلنے سے منع کر دیتا، کبھی امپائر کے فیصلے پر احتجاج پراپنے پلیئرز کا حد سے زیادہ ساتھ دیتا، ڈی آر ایس کو قبول نہیں کرتا اور اپنی لیگ میں دنیا بھر کے پلیئرز بلا کر خود اپنے کھلاڑیوں کو کہیں نہیں بھیجتا، مگر سب مجبور ہیں کیونکہ کھیل میں ریونیو کا بڑا حصہ بھارت سے ہی آتا ہے۔

اسی لیے اب کرکٹ میں اس کی حکمرانی اور  وہ ہر فیصلے میں شریک ہے، دنیا کا کوئی بورڈ اس کے خلاف بات نہیں کر سکتا کیونکہ اگر بھارت ٹیم نہ بھیجے تو خاصا مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے، یہی مسئلہ پاکستان کے ساتھ ہے، بھارت حکومتی اجازت نہ ملنے کو جواز بنا کر سیریز کھیلنے سے گریزاں اور پی سی بی منت سماجت پر مجبور ہے، پاکستان بھارتی فلموں کی بڑی مارکیٹ ہے اور وہ یہاں بہت زیادہ بزنس کرتی ہیں، حیران کن طور پر اب تک بھارت کی حکومت نے اپنی فلموں کو یہاں ریلیز ہونے سے نہیں روکا،تجارت میں بھی روک ٹوک نہیں ہوتی ہیں کیونکہ اس سے پیسہ آتا ہے، جہاں بات کرکٹ کی آئے تو اب فوراً ممبئی حملوں کی بات سامنے آ جاتی ہے، اس سے پہلے کوئی اور بہانہ بنا لیا جاتا تھا۔

پاکستان نے تو کبھی ایسا نہیں کیا، ذکا اشرف جب چیئرمین تھے تو میزبانی کی باری ہونے کے باوجود ہماری ٹیم بھارت کھیلنے گئی اور بی سی سی آئی کے خزانوں میں اربوں روپے بھر دیے، یہ اور بات ہے کہ خود کچھ بھی ہاتھ نہ آیا مگر ہم اسی پر خوش ہو گئے کہ چلو بھارت نے سیریز تو کھیلی، حکومت پاکستان نے تو کبھی نہیں کہا کہ چونکہ بھارت نے کشمیر میں اتنے مظالم ڈھائے لہذا ہم ٹیم نہیں بھیجیں گے،وجہ کھیل اور سیاست کو الگ رکھنا ہے، اسپورٹس کی وجہ سے عوامی سطح پر نفرتیں نہیں بڑھتی تھیں۔

یہ سلسلہ سیاستدانوں تک موجود تھا، مگر اب جب پاک بھارت سیریز نہیں ہوتی اور نئی نسل کا کوئی نمائندہ پوچھے کہ ایسا کیوں ہے تو اسے بتایا جائے گا کہ پاکستان نے ہمارے ساتھ ایسا کیا، یوں وہ بھی دشمن بن جائے گا، بھارت صرف پاکستان نہیں بلکہ اپنے آپ کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے، نفرتوں کے جو بیج آج بوئے جا رہے ہیں کل جب درخت بنیں گے تو ان کے پھل کھا کر ایک خونخوار قوم پیدا ہو گی جوپھر اپنوں کو بھی نہ بخشے گی۔

اسی کے ساتھ پی سی بی کو بھی سوچنا چاہیے کہ طویل عرصے سے بھارت نے اس سے ہوم سیریز نہیں کھیلی تو کیا وہ دیوالیہ ہو گیا؟ کیا آج تک ایسا ہوا کہ ملازمین کی فوج کو کسی ماہ تنخواہ کی ادائیگی نہ ہوئی ہو؟ کیا کسی کے اندرون و بیرون ملک دورے و ٹی اے ڈے اے بند ہوا؟ کبھی کھلاڑیوں نے تنخواہ نہ ملنے پر کھیلنے سے منع کیا؟ کبھی ورلڈکپ یا کسی اور ایونٹ کیلیے جانے سے قبل حکومت کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑا؟ نہیں ناں تو اس کا مطلب ہے پاکستانی  بورڈ اپنے قدموں پر کھڑا ہے، ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی ہو گئی، آئندہ چند برسوں میں بڑی ٹیمیں بھی آنے لگیں تو اور آمدنی ہو گی، سارے آفیشلز بادشاہوں جیسی زندگی گذار رہے ہیں۔

ایسے میں کشکول لے کر بھارت کے پیچھے نہ بھاگیں، چیئرمین پی سی بی شہریارخان اور اہلیہ کے ساتھ کولکتہ ایئرپورٹ پر گذشتہ دنوں جو سلوک ہوا وہ پاکستان غلطی سے سمندری حدود میں آنے پر گرفتار شدہ بھارتی مچھیروں کے ساتھ بھی نہیں اختیارکرتا، سفارتی پاسپورٹ کے حامل 82 سالہ سابق سفیر کو کئی گھنٹوں تک ایئرپورٹ پر بٹھا کر بے عزت کیا گیا اور پھر بمشکل ’’رہائی‘‘ نصیب ہوئی، اگر انھیں براہ راست کولکتہ آنے کی اجازت نہ تھی تو ایئرلائن نے جہاز میں کیوں سوار کیا؟ پہنچنے کے بعد یہ نکتہ کیوں اٹھا، مگر بیچارے شہریارخان بھی مجبور ہیں، پی سی بی نے اپنی حالت اس وقت ایک ایسے لاچار باپ جیسی بنا لی ہے جو بیٹی کی منگنی کر چکا مگر سسرال والے شادی سے پہلے مختلف فرمائشیں کر کے تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔

ایسے میں انھیں ناراض بھی نہیں کیا جا سکتا، اگر شہریارخان بھی اپنے ساتھ ناروا سلوک پر آواز اٹھاتے تو سیریز کی جو رہی سہی امید ہے وہ بھی ختم ہو جاتی، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ شہریارخان بھارت سے آکر بڑے بڑے بیانات دیتے ہیں مگر انوراگ ٹھاکر تو کبھی راجیو شکلا یہ کہہ کر بے عزت کر دیتے ہیں کہ ’’پاکستان سے سیریز کھیلنے کا ابھی کوئی ارادہ نہیں، سوچ رہے ہیں، بعد میں دیکھیں گے‘‘۔اب وقت آ گیا کہ پی سی بی کو کچھ سوچنا ہوگا، دنیا میں بھارت کے علاوہ اور بھی کئی کرکٹ کھیلنے والے ملک ہیں، ان کے ساتھ اچھے مراسم بنائیں اورکھیلیں، آئی پی ایل میں بھارت نہیں بلا رہا تو اپنی اچھی سی لیگ کرائیں،مگر خدارا بھارت کے پیچھے ایسا نہ پڑیں کہ ’’پلیز یو اے ای میں کھیل لو ، ارے ہمیں اپنے ملک ہی بلا لو‘‘ ہماری بھی عزت ہے اسے برقرار رکھیں، آگے پاکستانی ٹیم کی دیگر کئی سیریز ہونی ہیں، اسے خالی نہیں بیٹھنا، جو وقار کے ساتھ آپ کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہے تو اس سے ضرور کھیلیں مگر جہاں بھیک مانگنے جیسی بات ہو جائے وہاں سے دور رہنا ہی مناسب ہے، بورڈ کو اب کوئی سخت پالیسی اپنا لینی چاہیے کیونکہ اس کے ساتھ پاکستان کا نام جڑا ہے اور ملک کی بے عزتی کسی سے برداشت نہیں ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔