’’بول‘‘ کہ لب آزاد ہیں تیرے

رئیس فاطمہ  جمعرات 28 مئ 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

ہمارے تمام ادارے، ہماری حکومت، ہماری   ایجنسیاں اور پولیس کا محکمہ۔ سب کتنے معصوم اور بے خبر ہیں کہ انھیں اپنی سرزمین پہ ہونے والے جرائم، کرپشن اور ہر قسم کے غیر قانونی کام اورکالے دھندوں کا پتہ ہی نہیں چلتا، کہ ان کی ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے؟ پھر کوئی غیر ملکی صحافی یا اخبار کے ذریعے جب پنڈورا بکس کھلتا ہے تو حکومت کے لیے دکھاوے کی کارروائی کرنے کے کوئی دوسرا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ کیونکہ تمام دنیا کے میڈیا کی نظریں ایٹمی صلاحیت سے معمور اس ملک کی جانب لگ جاتی ہیں جہاں کے عوام بجلی سے محروم، پانی سے محروم رہ کر بھی قطاروں میں لگ کر یوٹیلیٹی کے بلز جمع کرواتے ہیں اور گود پھیلا پھیلا کر انھیں بددعائیں دیتے ہیں جو اس کے ذمے دار ہیں۔

ایگزیکٹ (AXACT)اور ’’بول‘‘ چینل کے حوالے سے جو بم پھٹا ہے، اس پر اس قدر حیرانی کی کیا بات ہے؟ ’’پبلک ہے سب کچھ جانتی ہے‘‘ کے مصداق جب غبارے میں سے ہوا نکلی تو کچھ عقل کل والے گھبرا گئے۔ آپ زبانی کچھ بھی کہہ لیں کتنی ہی تردید کردیں لیکن جاننے والے جانتے ہیں۔ مگر خاموش رہتے ہیں۔ کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہیں ہوگا۔ کہ اتنا بڑا اسکینڈل حکومت کی نظروں سے کیونکر اوجھل رہا؟ ایسا کچھ نہیں ہے۔

یہ سب ایک باقاعدہ پلاننگ سے ہو رہا تھا۔ دو سال قبل ایک اخبار کا کمپوزر اور پروف ریڈر جب اپنی درخواست لے کر ’’بول‘‘ کے دفتر گیا تو اسے جواب ملا کہ C.V آن لائن بھیجیں۔ وہ جب واپس آیا تو اس کے ہوش اڑے ہوئے تھے۔ اس نے کہا کہ آج تک کسی اخبار یا چینل کا دفتر اتنا عالیشان اور جدید ترین سہولتوں سے مزین نہیں دیکھا۔ کیا تھا جو وہاں نہیں ہے۔

ایسا لگ رہا ہے جیسے درختوں پہ سے ڈالر خود بخود گر رہے ہوں۔ یا آسمان سے اشرفیوں کی بارش ہو رہی ہو۔ وہ تھوڑا پژمردہ اور اداس بھی تھا مگر  وہ یہ بھانپ گیا تھا کہ وہاں کسی عام صحافی، رپورٹر یا کمپوزر کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ کہ جہاں پیسہ بولتا ہو وہاں ’’خاص لوگ‘‘ ہی داخل ہوسکتے ہیں۔ ’’بول‘‘ کا انتظار محبوب کے انتظار سے زیادہ طویل ہوگیا تھا۔ ہر دفعہ ’’اگلے تین ماہ‘‘ کی بازگشت سنائی دیتی تھی۔

’’بول‘‘ کی اپنی گاڑیاں اور دیگر پرائیویٹ اسکولوں کی وین اور رکشوں پہ بھی ’’بول‘‘ کے لب آزاد نظر آتے تھے۔ البتہ ’’ایگزیکٹ‘‘ کے نام اور کام پر ایک پراسرار طلسماتی پردہ پڑا تھا۔ لیکن اس دبیز پردے کے پیچھے کیا ہو رہا تھا؟ کیسے ہو رہا تھا اور کن کی اجازت سے ہو رہا تھا؟ اس سوال کا جواب اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ایک بڑی تعداد جس کا تھوڑا سا بھی تعلق کسی چینل سے تھا۔ وہاں جانے کو بیتاب و بے قرار تھی، سفارشیں تلاش کی جا رہی تھیں، نجانے کون کون سے جیک لگائے جارہے تھے۔ آہستہ آہستہ بہت سے لوگ اخبارات کے صفحات، ایڈیٹوریل اور ٹی وی اسکرین سے غائب ہوگئے۔ پتہ کیا تو سب وہیں پائے گئے جہاں دریا میں موتی بکھرے پڑے تھے۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ سب ایک سربستہ راز تھا؟ نہیں ایسا بالکل نہیں تھا، جو پہلے وہاں گئے اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی لے گئے۔ وہ بھی واقف تھے کہ ’’بول‘‘ دراصل ایگزیکٹ ہی کی پروڈکٹ ہے۔ ممکن ہے کہ شعیب شیخ صرف ایک مہرہ ہو۔ لوگ آپس میں کھل کر بات کرتے تھے کہ ’’بول‘‘ کے ڈانڈے کہیں اور ملتے ہیں۔ اب تو یہ حقیقت اخبارات میں بھی آگئی ہے، اسی لیے ہم نے بھی ذکر کردیا۔ ورنہ ایک اور کالم میں تقریباً ایک سال پہلے جب ہم نے یہ بات کہی تھی تو وہ کالم میں بوجوہ جگہ نہ پاسکی تھی۔ آج شعیب شیخ زیر حراست آچکے ہیں؟ وہ کس بڑی طاقت ور شخصیت سے ہدایات لیتے رہے ہیں کہ وہ کس طرح اپنا اور ایگزیکٹ کا دفاع کرسکیں؟ وہ دو تین  مرتبہ نجی چینل پہ چیختے چنگھاڑتے نظر آئے۔

آج بہت عجیب صورت حال ہے۔ بھانڈا پھوٹنے کے بعد وہ لوگ بہت خوش ہیں جنھیں ’’بول‘‘ میں نوکری نہیں ملی تھی۔ اب انھوں نے اپنے ہی ساتھیوں کے لیے عدالتیں سجا لی ہیں۔ جب کہ عدالتیں سجانے والے بیشتر میزبان، اینکرز اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں نے وہاں شمولیت کی بھرپور کوششیں کیں، اس کے ثبوت بھی ’’بول‘‘ کے پاس یقینا موجود ہوں گے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سینئر صحافیوں نے ’’بول‘‘ جوائن کیا تھا۔ اور انھوں نے یہ دیکھا تھا کہ عام مارکیٹ ویلیو کے لحاظ سے یہ ادارہ انھیں تقریباً 200 %  فی صد تک زیادہ کا پیکیج دے رہا ہے۔ جوکہ ان کی سابقہ تنخواہوں سے کئی گنا زیادہ ہے تو انھیں شک تو یقیناً ہوگیا تھا۔ لیکن انھوں نے معاملات کی چھان بین کیوں نہیں کی؟ پہلی بات تو یہ کہ چھوٹے اخبارات اور بعض نجی چینلز کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جہاں ہمارے بہت سے ساتھیوں کو ماہ بہ ماہ باقاعدگی سے اور وقت پر تنخواہیں نہیں ملتیں۔ انھیں جب کوئی دوسرا چینل یا اخبار بہتر آفر کرتا ہے تو وہ اس لیے چلے جاتے ہیں کہ انھیں وہاں حالات اچھے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ سوچ ایک عام صحافی کے لیے تو ٹھیک ہے۔

لیکن جو پہلے ہی سے اپنے اپنے اداروں سے لاکھوں کما رہے ہیں۔ انھیں ضرور سوچنا چاہیے تھا کہ جس دن ادارے کی حقیقت سامنے آئے گی، تو انھیں کہیں منہ چھپانے کی جگہ نہ ملے گی اور وہ کسی بھی طرح اپنا دفاع نہ کرپائیں گے۔ مانا کہ ان سب کا تعلق Axact  سے نہیں تھا۔ لیکن انھیں یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ ’’بول‘‘ میں اصل سرمایہ کاری کس کی ہے؟ وہ اس لیے بھی مطمئن تھے کہ آج تک پاکستان میں بھلا کرپشن کا کون سا کھیل ہے جو نہیں کھیلا گیا۔ پاکستان میں پہلے بھی کرپشن کے بے شمار کیس سامنے آئے ہیں۔ دور کیوں جائیں۔ رینٹل پاور پروجیکٹ سے لے کر حج کرپشن تک میں کسی کو کوئی سزا ہوئی؟

ہر طرف مایا کا جلوہ اور کھیل جاری ہے۔ ہمیں فکر ہے اپنے ان صحافی بھائیوں کی جو کئی کئی ماہ تنخواہیں نہ ملنے اور تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونے کی بنا پر ’’بول‘‘ کے جال میں جاکر پھنسے۔ ان کے سابقہ اداروں کو چاہیے کہ ایسے وقت میں انھیں تنہا نہ چھوڑیں۔ وہ اس وقت ہمدردی کے مستحق ہیں۔ اب کوئی ڈان (Don) تو ان کی مدد کو آنے سے رہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔