فلسفیانہ اور جنگی علمیات

عمران شاہد بھنڈر  جمعرات 28 مئ 2015
ibhinder@yahoo.co.uk

[email protected]

فلسفہ و منطق میں جنم لینے والے خیالات اور تصورات محض فلسفہ و منطق تک ہی محدود نہیں رہتے اور نہ ہی ان خیالات کو انھی علوم تک محدود رکھا جا سکتا ہے، جن میں یہ تشکیل پاتے ہیں۔ مختلف نظریہ ساز بآسانی جنونی اور مہلک نظریات کی ترویج و احیا کے لیے فلسفیانہ و منطقی خیالات کو استعمال کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خیالات کے دوسرے علوم اور معاملات میں سرایت کر جانے کی صلاحیت خود خیالات کے اندر موجود ہوتی ہے۔ خیالات بے ضرر نہیں ہوتے، علمیات، دہشت اور تشدد سے ہم آہنگ ہونے کا میلان ان کے وسط میں موجود ہوتا ہے۔

تعقل پسند فلسفیوں نے انسانی دوستی پر مبنی جو خیالات پیش کیے، انھیں بھی فسطائی تحریکوں کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ فلسفیانہ تعقلات جنگوں اور دہشت کا حصہ بن چکے ہیں، بلکہ منظم جنگوں میں انتہائی دہشت و بربریت برپا کرنے سے پہلے انھی طاقتور خیالات کے اطلاق سے صورتحال کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ فلسفہ و منطق کا حقیقی مقصد اشیا کی حقیقی ماہیت کو جاننا تھا، مگر اب اسی فلسفہ و منطق کو منظم قتال یعنی جنگوں میں فتح یابی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جہاں آئیڈیالوجی قتال کا محرک بنتی ہے وہاں فلسفہ و منطق قتال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے صورتحال کا اندازہ لگاتے ہیں۔ اس بنیاد پر فلسفہ و منطق براہِ راست دہشت و بربریت میں ملوث ہے۔

جدید سامراجی مغربی ممالک کے فلسفہ و فکر میں جنگوں کو خصوصی تقدس حاصل ہوچکا ہے۔ اب ان جنگوں کو مغربی تہذیب کے ایک ایسے لازمی جزو کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے، جسے منفی نہیں بلکہ ایک مثبت قدر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مقتدر طبقات اور مفکروں کا جمِ غفیر جنگوں کو احترام کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں تشکیل پانے والی علمیات تعقلاتی(Conceptual) اعتبار سے جنگوں اور دہشت سے ہم آہنگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگوں اور دہشت کو محض تخریب یا تباہی تصور نہیں کیا جاتا، بلکہ انتہائی گہرائی میں ان جنگوں اور دہشت کے وسط میں ’تخلیق‘ کے پہلو کو پیوست دیکھا جاتا ہے۔

’تخلیق‘ چونکہ ایک مثبت قدر ہے، اس لیے اس کے حصول کو ہر سطح پر ممکن بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تخلیق کا یہ پہلو تباہی کے بغیر ممکن نہیں ہے، اس لیے تباہی طاقتور سامراجی ممالک کے لیے کوئی منفی قدر نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک ’وجود‘ کی از سرِ نو تخلیق کے لیے لازمی ہے۔ یعنی پہلے کسی ملک یا وجود کو اپنی ہی داخلی ضرورت کے تحت تباہ کر دیا جائے اور بعد ازاں اسے اپنی ہی شبیہ (امیج) پر تخلیق کیا جائے۔ ’دوسرے‘ کو اس انداز میں تخلیق کرنے کا یہ عمل حقیقت میں خود کو تخلیق کرنے کا عمل ہے۔

جنگوں میں برپا کی گئی تعقلی تباہی کسی خارجی عنصر کی بنیاد پر برپا نہیں کی جاتی، اس تباہی کا محرک اپنے ہی باطن میں موجود کمزور اور منفی پہلو ہوتے ہیں جنھیں دیکھنے سے مغربی عقلیت ہمیشہ سے گریز کرتی رہی ہے۔ لہذا جنگوں کی احتیاج اپنی ہی ’تکمیل‘ یا تخلیق کے تصور کے تحت اس وقت جنم لیتی ہے جب اپنے ہی اندر تضادات اور کمزوریوں کو نہ دیکھا جائے۔ وہ تضادات اور کمزوریاں جو کسی بھی موجود نظام کی سماجی و معاشی ہیئتوں میں عقلیت کی حدود کا تعین کرتے ہیں۔

جدید جنگوں کی بنیادی وجہ سامراجی سیاسی، معاشی اور نظریاتی غلبے کو برقرار رکھنا ہے۔ جنگوں کے ذریعے ’غلبے‘ قائم کرنے کا یہ عمل غیر تعقلی ہرگز نہیں ہے، اس کی پشت پر ایک گہری فلسفیانہ بصیرت کارفرما ہے۔ جنگیں برپا کرنے سے پہلے ہر طرح کی تعقلی منصوبہ بندی کی جاتی ہے، صورتحال کا حقیقی سطح پر اندازہ لگایا جاتا ہے، وسائل کو پرکھا جاتا ہے، حقیقت کو تصورات میں لا کر ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ جو تصورات جنگوں میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے تشکیل دیے جاتے ہیں، ان کا فلسفیانہ تعقلات کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے۔

وہ فلسفیانہ تعقلات ہی کی مانند منظم اور مربوط ہوتے ہیں۔ لہذا جنگوں کا برپا کیا جانا ایک گہرا فلسفیانہ اور تعقلی عمل ہے۔ اشیا کی حقیقت کو جاننے کے لیے فلسفیانہ علمیات اور جنگوں کی علمیات کی تفہیم کا عمل ناقابلِ علیحدگی ہے۔ انھیں علیحدہ کر کے محض آسانی کی خاطر سمجھا تو جا سکتا ہے، مگر ان کے مابین حتمی تفریق ممکن نہیں ہے۔ خارجی دنیا میں اشیا کو جاننے کا فلسفیانہ عمل اور امکانی جنگوں میں کامیابی حاصل کرنے کے ذرایع کو جاننے کا عمل معیاری سطح پر ایک ہی جیسا ہے۔ تاریخ ِ انسانی پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ جو اقوام فلسفہ و فکر میں برتری رکھتی تھیں وہی اقوام حکمرانی بھی کرتی رہی ہیں۔

تاہم کسی نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی کہ علمیاتی برتری جنگوں میں سبقت لے جانے کا باعث کیسے بنتی ہے؟ فلسفیانہ سطح پر جو مقولات اشیا کو جاننے کے عمل کے دوران میں تشکیل دیے جاتے ہیں وہی مقولات جنگوں میں کامیابی اور ناکامی کے امکانات کو جاننے کے عمل کے دوران بروئے کار لائے جاتے ہیں۔

اور انھی کی بنیاد پر اس نکتے پر زور دیا جا سکتا ہے کہ جدید جنگیں یا دہشت الٰہیات سے کہیں زیادہ فلسفیانہ تعقلات کے حصار میں ہیں۔ نفی، اثبات، تحدید، امکان، لازمیت، تعامل اورکلیت سمیت ایسے کئی فلسفیانہ مقولات ہیں جنھیں کسی بھی امکانی جنگ کو جاننے کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ تمام مقولات الٰہیاتی نہیں ہیں، بلکہ یہ سب اپنی سرشت میں فلسفیانہ ہیں اور یہ الٰہیات سے کہیں زیادہ جنگوں اور دہشت میں ملوث ہیں۔یہ سب مقولات جنگوں کی تیاری میں شامل ہوتے ہیں، لہذا جنگ کا محرک کچھ بھی ہو، فلسفیانہ علمیات ہر جنگ کے لازمی جزوکی حیثیت رکھتی ہے۔

سیاسی اور معاشی غلبے کو برقرار رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ کمزور ممالک پر جنگیں مسلط کرکے ان کی ثقافتی، سماجی اور نظریاتی حیثیت کی ’نفی‘ کی جائے۔ کمزور ممالک کی نفی سامراجی ممالک کے اثبات کے مترادف ہے۔ نفی اور اثبات دونوں ہی فلسفیانہ مقولات ہیں۔ فلسفے میں نفی اور اثبات کے عمل کا تعلق کسی بھی وجود کے لازمی پہلوؤں کی قبولیت اور اسی وجود کے غیر ضروری پہلوؤں کی نفی سے عبارت ہے۔کمزور ا قوام کوغیر ضروری تصورکیا جاتا، کیونکہ وہ فلسفیانہ سطح پر غیر ضروری ہیں۔ طاقتور اقوام کی بقا ضروری ہوچکی ہے، محض اس لیے کہ وہ فلسفیانہ سطح پر ضروری ہے۔

جنگوں میں نفی اور اثبات کے مقولات کا اطلاق سامراجی یا طاقتور ممالک کی مرکزیت کے تصور کے تحت عمل میں لایا جاتا ہے۔ یعنی سامراجی ممالک اپنا اثبات ’دوسرے‘ کی نفی سے کراتے ہیں۔ طاقتور سامراجی اقوام کے لیے کمزور اقوام کی نفی کا یہ عمل محض ان کی تباہی سے عبارت نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق طاقتورکی تخلیق سے بھی ہے۔ کمزور اقوام یا ’دوسرا‘ سامراجی اور طاقتور یعنی’ پہلے‘ کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتا،یعنی وہ ایک فلسفیانہ مقولہ ہے جسے Nothing کہتے ہیں۔ لیکن یہ طاقتور کے وجود کی بقا اور اس کی نمو کے لیے لازمی ہوچکا ہے۔ طاقتور کی بقا کمزور کے اثبات میں نہیں ہے، اس کی نفی میں ہے جو پہلے ہی نفی سے عبارت ہے، یعنی وہ پہلے ہی کچھ نہیں ہے۔

چونکہ وہ کچھ نہیں ہے اس لیے اس کی نفی کر دینا ہی بہتر ہے۔ کمزورکی نفی کمزور کو متعین نہیں کرتی، بلکہ طاقتور کمزور کی نفی سے خود کو متعین کرتا ہے۔اس حوالے سے نفی کا یہ عمل حقیقت میں ’پہلے‘ یعنی طاقتورسامراج کی ’تخلیق‘ کا عمل بھی ہے۔ذہن نشین رہے کہ طاقتور کی یہ تخلیق اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک طاقتورکے اپنے اندر تخلیق کی گنجائش موجود نہ ہو، مطلب یہ کہ حقیقت میں طاقتور کے اندر کمزوری کے پہلے سے موجود ہے، جسے وہ دیکھنے سے قاصر ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں ایسا طاقتور نہیں ہے جو محض خود پر انحصار کرتے ہوئے اپنی کمزوری کو دور کر سکے۔ لہذا طاقتور میں مضمر تخلیق کی یہ احتیاج اس کی اپنی کمزوری سے جنم لیتی ہے اور اس کمزوری کو دور کرنے کے لیے وہ ’کمزور‘ کا محتاج ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ساری دہشت انگیز صورتحال سے نکلنے کا کوئی راستہ موجود ہے؟ میرے خیال میں اس صورتحال سے نکلنے کے دو راستے ہیں: پہلا حل فلسفیانہ ہے لیکن عملی نہیں، یعنی طاقتور اپنا فلسفیانہ تجزیہ کرتے ہوئے اپنی کمزوری تک پہنچے کہ وہ اپنے وجود کے لیے ’کمزور‘ پر انحصار کرتا ہے، لہذا اس کا وجود اس کا اپنا نہیں بلکہ اس ’کمزور‘ کا مرہونِ منت ہے۔ اس خیال کے ساتھ طاقتور خود میں جھانکنے اور اپنی کمزوریوں کو خود میں تلاش کرے۔ دوسرا حل جو فلسفیانہ نہیں بلکہ عملی ہے، وہ یہ کہ ایک انقلابی تحریک کے ذریعے اس بنیاد کو ہی منہدم کر دیا جائے جس میں دہشت اور جنگوں کے تمام اسباب موجود ہیں۔ فی الوقت یہ دونوں ہی تجاویز ناقابلِ عمل دکھائی دیتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔