پاکستان معاشی اشاریوں کی بہتری پر بغلیں نہ بجائے، ساختی خامیاں دور کرے، آئی ایم ایف

کاشف حسین  جمعرات 28 مئ 2015
معاشی بہتری کے لیے حکومتی کوششیں قابل تعریف ہیں لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، نمائندہ آئی ایم ایف۔  فوٹو: فائل

معاشی بہتری کے لیے حکومتی کوششیں قابل تعریف ہیں لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، نمائندہ آئی ایم ایف۔ فوٹو: فائل

 کراچی: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ اگرچہ پاکستان کے معاشی حالات میں 18ماہ کے دوران نمایاں بہتری آئی ہے لیکن معاشی استحکام اور ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہونے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ پاکستان میں جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکسوں کا تناسب اور برآمدات بڑھانے کے لیے سخت اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔

اصلاحات کے عمل کو مکمل کرنے کے لیے حالات کافی سازگار ہیں اس لیے پاکستانی حکام اور اداروں کو معاشی اشاریوں کی بہتری پر بغلیں بجانے کے بجائے ساختی کمزوریاں دور کرنے اور معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے آستینیں چڑھالینی چاہیں ساختی اصلاحات کے پروگرام میں نرمی یا تاخیر کی صورت میں معیشت کو درپیش دیرینہ مسائل پھر شدت اختیار کرلیں گے۔ آئی ایم ایف کے پاکستان میں نمائندے Tokhir Mirzoevنے کراچی میں اکنامک رپورٹرز سے خصوصی ملاقات میں  کہا کہ پاکستان میں معاشی صورتحال  ایسی نہیں ہے جیسی 18ماہ قبل تھی۔

معاشی بہتری کے لیے حکومتی کوششیں قابل تعریف ہیں لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے پاکستان کے ہم عصر ملکوں میں مجموعی برآمدات کا جی ڈی پی سے تناسب 40فیصد جبکہ پاکستان میں محض 10فیصد ہے، اسی 10فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کو بھی 20فیصد تک بڑھانے کی ضرورت ہے، اس کے لیے ترکی کے ماڈل سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 18ماہ قبل زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہورہے تھے جبکہ عالمی منڈی سے پاکستان کو قرض ملنے کے بھی امکانات کم ہوگئے تھے تاہم اب صورتحال کافی بہتر ہوئی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر کافی حد تک بڑھ چکے ہیں، مالیاتی خسارہ کم ہورہا ہے، ریونیو بتدریج بڑھ رہے ہیں، افراط زر کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ شرح سود تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے، معیشت درست سمت میں گامزن ہے لیکن ان سب کے باوجود معیشت کی صورتحال پرفیکٹ نہیں ہے۔ پاکستان میں ٹیکس وصولیوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے جس کے لیے ٹیکس کا دائرہ کار وسیع کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں زیادہ توجہ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں پر مرکوز ہے لیکن ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے زیادہ عرصے کام نہیںچلایا جاسکتا۔ ڈائریکٹ ٹیکسوں میں اضافہ ناگزیر ہے ٹیکس وصولیاں بڑھا کرہی حکومت سماجی بہتری، تعلیم ، صحت  اور انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے لیے وسائل مہیا کرسکے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان معاشی بحالی کے ایک نازک دور سے گزررہا ہے  ماضی میں اصلاحاتی پروگرام اسی مرحلے سے ناکامی کی جانب چلے گئے جب حقیقی نااہلی  کو دور کرنے کے بجائے علامتی اقدامات کیے جاتے رہے انہوں نے کہا کہ ساختی کمزوریاں دور کرنے اور اصلاحاتی پروگرام کو مکمل کرنے کے لیے پاکستان کو اس سے زیادہ سازگار ماحول نہیں مل سکتا۔

پاکستان میں بجٹ سازی کے لیے آئی ایم ایف کے کردار پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پاکستان کو معاشی توازن کے لیے مشورے اور رہنمائی فراہم کرتا ہے، یہ تاثر غلط ہے کہ بجٹ اقدامات یا معاشی فیصلے آئی ایم ایف کے دباؤ پر کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ آئی ایم ایف پاکستان کے لیے ٹیکس وصولیوں کا ہدف یا جی ڈی پی کا ہدف مقرر کرتا ہے۔

جی ڈی پی دیگر عناصر کا خلاصہ ہے البتہ آئی ایم ایف امکانی اہداف کی نشاندہی کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آنے والے بجٹ کے لیے آئی ایم ایف نے اپنی سفارشات حکومت کو ارسال کردی ہیں جن میں سماجی بہبود کے لیے فنڈز بڑھانے، انکم سپورٹ فنڈ فنڈ کی کارکردگی بہتر بنانے، ٹارگٹڈ سبسڈی کی فراہمی، امیر طبقے پر سبسڈی کے ضیاع کو روکنے، ترقیاتی اخراجات میں اضافے  کی تجاویز شامل ہیں۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی کارکردگی کو اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے  حکومت کی قلیل مدتی مقامی قرضوں کو طویل مدتی قرضوں میں تبدیل کرنے کی پالیسی کو خوش آئند قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف پاکستان کے مرکزی بینک کی مکمل خودمختاری کا حامی ہے اور اس حوالے سے کی جانے والی قانون سازی کو سپورٹ کررہا ہے۔

پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے حکومت کی حکمت عملی پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت طویل مدت کے ساتھ قلیل اور وسط مدت کے بھی حل تلاش کررہی ہے جن میں ایل این جی کی درآمد، نئے پاور پلانٹس کی تنصیب اور پرانے پلانٹس کی پیداواری استعداد بڑھانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تقسیم کار پاور کمپنیوں کی پست کارکردگی ایک بڑا مسئلہ ہے، ان کمپنیوں کی ریکوری اور ایفی شنسی بڑھاکر توانائی کے شعبے میں درپیش نقصان کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح دستیاب پیداواری گنجائش کو بروئے کار لاکر بھی توانائی کے بحران کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔ آئی ایم ایف کے نمائندے نے پاکستان میں مقامی تجارت کو فروغ دینے کی ضرورت پر زوردیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔