مودی کی پی آر

کلدیپ نئیر  جمعـء 29 مئ 2015

بھارتی وزیر اطلاعات ارون جیٹلے بھارت کے مختلف علاقوں سے ایڈیٹروں کو وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات کے لیے دعوت دے رہے ہیں تا کہ انھیں حکومت کے پہلے سال کی کامیابیوں سے مطلع کیا جاسکے۔ پی آر (تعلقات عامہ) کی یہ مشق کوئی نئی نہیں، مودی کے تمام پیشرو ایسا کرتے رہے ہیں۔

بھارت کے مثالی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو یہ نہیں کرنا پڑا حتیٰ کہ جب بھارت کو 1962ء میں چین کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا پڑی تب انھوں نے ایڈیٹروں سے ملاقات کر کے شکست کی وجوہات کی وضاحت کی۔ لال بہادر شاستری کی ساکھ اتنی اچھی تھی کہ انھیں ایڈیٹروں کو ہمنوا بنانے کی زیادہ ضرورت نہیں تھی تاہم 1965ء کی پاکستان کے ساتھ جنگ کے بعد، جس میں دونوں ملکوں نے اپنی فتح کا دعویٰ کیا تھا، شاستری نے تاشقند جانے سے پہلے ایڈیٹروں کو ضرور اعتماد میں لیا۔

موصوف  کی عاجزی اور انکساری کی وجہ سے ان کی بہت قدر و منزلت تھی تاہم بھارت سے روانہ ہوتے وقت انھوں نے کہا کہ اب میری عزت آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے چنانچہ آپ جو بھی لکھیں اس سے رائے عامہ کی درست رہنمائی ہونی چاہیے۔

مسز اندرا گاندھی تو گویا ہوا کے گھوڑے پر سوار تھیں تاآنکہ ایک سال ملک کی فصلیں تباہ ہو گئیں اور انھیں امریکا سے گندم درآمد کرنا پڑی۔ جس نے نقد رقم کے عوض گندم بھجوائی۔ مسز گاندھی نے غیر رسمی طور پر ایڈیٹروں سے بات کی اور بھارت کی بگڑتی ہوئی اقتصادی صورت حال کے بارے میں انھیں آگاہ کیا۔

ان کے بیٹے راجیوگاندھی، جنھیں کہ ’بوفورس توپوں‘ کے اسکینڈل سے خاصا شدید جھٹکا لگا تھا انھوں نے کبھی اپنے کر و فر کا مظاہرہ نہیں کیا تھا جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ انھیں اپنے خاندانی اثر و رسوخ کی اہمیت کا احساس تھا اسی لیے  وہ ہوائی جہاز کے پائلٹ کی سیٹ سے گویا پیرا شوٹ کے ذریعے چھلانگ لگا کر سیدھے وزارت عظمیٰ کی گدی پر آ  براجمان ہوئے۔

ان کو یہ احساس بڑی شدت سے تھا کہ ان کا چھوٹا بھائی سنجے گاندھی اس منصب کے لیے ان کی نسبت کہیں زیادہ موزوں تھا کیونکہ ان کی والدہ نے شروع ہی سے اپنے چھوٹے صاحبزادے کی اپنی جانشینی کے مقصد کی خاطر ہی تربیت کی تھی۔ راجیو نے بھی ایڈیٹروں کو اپنا ہم نوا بنانے کی معمول سے ہٹ کر کوشش کی۔ ان کے جانشین قد کاٹھ میں ان سے کم تھے لہٰذا انھوں نے وزیراعظم کے دفتر میں توسیع کرتے ہوئے اطلاعات کے مشیر رکھ لیے۔

مودی خود ہی اپنے پی آر او ہیں۔ انھوں نے کوئی اطلاعات کا مشیر نہیں رکھا۔ ممکن ہے کہ اب انھیں اس کی ضرورت محسوس ہوئی ہو جس کی وجہ سے جیٹلے نے ایڈیٹروں کو وزیر اعظم سے ملاقات کی دعوت دی ہے۔ لیکن کیا اس سے کوئی فرق پڑے گا؟ مودی کو ممکن ہے کہ غلط حکمرانی کا الزام نہ دیا جا سکے البتہ ان کی حکومت درست حکمرانی بھی نہیں کر رہی۔

ان کی حکومت کے پہلے سال میں ان کی کسی طرف سے مخالفت نظر نہیں آئی۔ مثال کے طور پر ان کا دورۂ چین نہ تو بار آور ثابت ہوا اور نہ ہی اس کے کوئی منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ بہرحال اس کو کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ البتہ اس بنیاد پر مودی کی کارکردگی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس کے باوجود انھوں نے یہ دورہ کیا اور بھارتی علاقے پر چین کے قبضے پر بھارت کی ناخوشی کا اظہار کیا جو کہ بڑی اچھی بات ہے۔

اس بارے میں باوثوق خبریں ملی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے چین کے ساتھ ارونچل پردیش کے رہنے والوں کے لیے پاسپورٹ پر ویزا سٹیپل کرنے کا معاملہ بھی اٹھایا، جس کے بارے میں چین کا دعویٰ ہے کہ یہ اس کا علاقہ ہے۔

میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ مودی کو چین کا دورہ منسوخ کر دینا چاہیے تھا کیونکہ ان کے بیجنگ پہنچنے سے صرف ایک دن پہلے حکمران کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار نے بھارت کے بارے میں ایک بہت دشنام آمیز رپورٹ شایع کی جس میں بھارت کا ایک ایسا نقشہ شامل تھا جس میں ارونچل پردیش اور جموں کشمیر کو بھارت میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ آخر نئی دہلی حکومت کو اس دورے کا اتنا اشتیاق کیوں تھا۔

مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کیونکہ نئی دہلی نے اس سے کہیں کم قابل اعتراض وجہ سے پاکستان کے ساتھ خارجہ سیکریٹریوں سطح پر ہونے والی ملاقات منسوخ کر دی تھی کیونکہ بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر نے خارجہ سیکریٹریوں کی مجوزہ ملاقات سے قبل کشمیر کے آزادی پسند رہنماؤں سے ملاقات کر لی تھی۔ غالباً چین کے ساتھ تعلقات کے لیے بھارت کے پاس ایسا کوئی پیمانہ نہیں ہے اس کے بجائے بھارت چین کو اپنے ملک کی بہت بڑی مارکیٹ تک رسائی بھی دے رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ بھارت چین کا مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ چین کے آگے سرنگوں ہو جائے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ چین کو بھی اسی کے الفاظ میں جواب دینے کے لیے تبت سے آنے والے لوگوں کو بھی ان کے پاسپورٹ پر بھارتی ویزا سٹیپل کیا جاتا۔

اگر ہم یہ سمجھیں کہ ہمارا سرحدی مسئلہ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب کر رہا ہے تو ہم غلطی پر ہوں گے۔ اس حوالے سے نہرو کی بات بالکل درست تھی جنہوں نے کہا تھا کہ دو جِنّوں کا تصادم ہے جن کے نظریات مختلف ہیں اور اس بات کا فیصلہ تو اب آیندہ نسلیں ہی کریں گی کہ آیا ہماری جمہوریت درست نظریہ ہے یا چین کی مطلق العنانی کا نظریہ درست ہے۔

اس وقت تک تو مطلق العنانی جیتتی ہوئی محسوس ہوئی ہے، کیونکہ جنوبی ایشیا کے زیادہ تر ممالک چین کے زیر اثر لگتے ہیں گو کہ ان کی حکمرانی کے انداز مختلف ہیں۔ نہرو کا خیال تھا کہ جمہوریت کی سیاست قابل ترجیح ہے اور  وہ کمیونسٹ نظریے سے اتفاق نہیں کر سکے۔ ان کا اعتقاد بیلٹ بکس پر تھا وہ جبر کی حکمرانی کے قائل نہیں تھے۔

جہاں تک اقتصادی شعبے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں مودی کی کارکردگی بے حد ناقص ہے۔ مودی نے انتخابات کے دوران نعرہ لگایا تھا کہ ’’اچھے دن آ گئے ہیں‘‘ اس نعرے نے لوگوں کی توجہ کھینچ لی  لیکن اصل حقیقت اس سے برعکس ہے۔ ایک عام آدمی پر اتنی زیادہ مصیبت پہلے کبھی نہیں پڑی جتنی کہ اب ہے۔ اس کے باوجود کہ مودی کی حکومت ایک لحاظ سے جمہوری حکومت کہی جا سکتی ہے لیکن اس کا میلان  فرقہ پرستی کی طرف ہے۔ آر ایس ایس اور ویشوا ہندو پریشد کے کٹر لوگوں کا بی جے پی پر خاصہ غلبہ ہے۔ مودی اور ان کے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں سمیت تمام برادریوں کو مساوی حقوق دیے جائیں جو کہ بڑی اچھی بات ہے۔

لیکن اس مقصد کے لیے انھیں ماحول کو تفرقہ بازی سے پاک رکھنا ہو گا۔ تاہم اس کے باوجود ایسے لگتا ہے کہ ’’ہندو توا‘‘ کا پرچار کرنے والے عناصر شر انگیز تقاریر کرتے ہیں گو کہ عام لوگوں پر اس کا زیادہ اثر نہیں ہوتا جو  بڑے اطمینان کی بات ہے۔ اس سے بھی بہتر یہ ہو گا کہ وہ ماحول کو آلودہ نہ کریں۔ انھیں احساس ہونا چاہیے کہ اس سے معاشرے کو کتنا نقصان ہو سکتا ہے۔

بالخصوص اس صورت میں جب کہ بھارت کی 80% آبادی ہندوؤں پر مشتمل ہے۔ مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ مودی نے ایک سرخ لائن کھینچ دی ہے جس کو آر ایس ایس اور اس قسم کے دوسرے عناصر کو عبور کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس سے ایک صحت مند سیکولر معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مودی کی حکومت کے باقی کے چار سال بھی امن و امان سے گزریں۔ لگتا ہے کہ انھوں نے اور ان کی پارٹی نے یہ احساس کر لیا ہے کہ فرقہ پرستی اور تفرقہ بازی سے نہ تو امن و امان قائم رہ سکتا ہے اور نہ یہ جمہوریت کے ہمارے دعوے پورے ہو سکتے ہیں۔ انھیں اور ان کی پارٹی کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو عدم اعتماد کی فضا ہے اسے دور کرنا ہو گا۔

یہ شکایات عام ہیں کہ پولیس مسلمان نوجوانوں کو بلاوجہ گرفتار کر لیتی ہے اور انھیں بغیر مقدمہ چلائے جیل بھیج دیا جاتا ہے اور یہ بات بہت ہولناک ہے کہ ان کی تعداد سیکڑوں میں ہے جو سالہا سال سے جیلوں میں بند ہیں اور ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں۔ یہ کام کانگریس کی حکومت میں بھی ہوتا تھا جسے حکومتوں کا سنگین جرم قرار دیا جا سکتا ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔