ۢۢۢۢیہ لوگ ٹارزن نہیں (دوسرا حصہ)

نادر شاہ عادل  ہفتہ 30 مئ 2015

ٹارزن کو تہذیب جدید کی مکاری سے چڑ تھی۔اسے نام نہاد لوگوں کی ثقافت اور دوغلے پن سے شدید نفرت تھی۔ صحافی بھی مکارلومڑی نہ بنے،اس سے مولانا روم بننے کی بھی فرمائش نہیں ہے، مگر صحافی کا بے داغ قلم ٹارزن کے خنجر کی طرح کا ہونا شرط ہے،جس سے وہ گلشن کے بدنما حصوں کو مالی کی طرح کاٹتا چھانٹتا ہے۔ جنگل بوائے ڈرائنگ روم دانشوروں، تجزیہ کاروں، سیاسی مبصروں، سقراط نما اینکروں سے قطعی مختلف تھا، میری ذاتی رائے ہے کہ ٹی وی کے اس بے ہودہ ڈبہ Idiot box اوربزدل دیو timid Giant نے پرنٹ میڈیا کے حسن کوگہنا دیا، ’’خراب کرگئی شاہیں بچوں کو صحبت زاغ۔‘‘ قلم سے نکلے ہوئے دل نشین الفاظ اور موتی جیسے خیال آفریں معانی کو ٹی وی چینلز کی ساحرائوں نے کسی قابل نہیں رکھا۔

میڈیا دو حصوں میں تقسیم ہوا، پرنٹ میڈیا کو تھکے ہوئے گھوڑے کا طعنہ ملا، جب کہ الیکٹرانک میڈیا کوگلیمرکی نئی تہذیبی چکاچوند ملی۔ لفظ شرمندہ ہوئے ، چرب زبان جیت گئے۔ ٹارزن کے قول وفعل میں مصنف نے کسی قسم کے تضاد کی آمیزش نہیں رکھی، وہ اینکر ایک چینل کا اورکالم نویس دوسرے اخبارکا نہیں تھا۔اس کی جنگل سے کمٹمنٹ تھی ایگزیکٹ کے چنیدہ نامور، بزعم خود سچے، انقلاب ومسابقت کے علمبردار اور سونامی بکف و تبدیلی بدوش سینئروائس پریزیدنٹ صحافیوں کی اپنے پیشے سے مالیاتی وابستگی کتنی ہے ، ’’بول‘‘ نے ثابت کیا کہ پیسہ بولتا ہے۔

ورنہ لاکھوں کے پیکیج سے کھیلنے والوں کو غارت گر ہوش ٹولہ بن کر صحافتی طوفان اٹھانے کی کیا ضرورت پیش آئی۔ انھوں نے فاقہ مست اورسالانہ انکریمنٹ کے انتظار میں رہنے والے مڈل کلاس عامل صحافیوں کی عزت نفس پر حملہ کیا، ان کو حقارت سے ٹھوکر مارکر ایکزیگٹ کے در پر جبیں سائی کی۔ مقصد پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا میں انقلاب برپا کرنا نہیں تھا ۔ چینل کی بہتی گنگا میں ڈبکیاں لگانا تھا۔ یہ صحافت کی محفل میں نقب زنی کی سب سے بڑی واردات تھی۔

برصغیرکی قدیم و جدید صحافت نے عوام میں فکری شعورکی شمع جلانے کا مشن جاری رکھا ، کئی مالکان اخبارات نے اس کارخیر میں نام پیدا کیا، برٹش راج سے ٹکر لی، قیام پاکستان کے بعد ملک کے کئی بڑے شہروں سے روزنامے اور جرائد نکلے، وہ بند بھی ہوئے، سرکولیشن برائے نام رہی، معاشی عذاب سہتے رہے، مگر فراڈ کاموں سے بچے رہے، جنہوں نے زرد صحافت اختیارکی وہ مین اسٹریم جرنلزم میں ہمیشہ ’’کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلۂ مانیست‘‘ کے نعرہ مستانہ سے سہمے رہتے تھے ۔

فہرست دینے کی ضرورت نہیں، سب ان عظیم صحافیوں کی درویش صفتی اور قلم کی حرمت و تقدس پر مر مٹنے کی آرزو سے واقف ہیں۔ٹارزن کو جنگل کی تہذیب اورجدید تہذیب کے مروجہ آداب و خیالات اور تمدن کے درمیان پیمان وفا کا درجہ حاصل ہے، اس کی دلیری اور بے خوفی سے قبائل کو ایک آفاقی پیغام ملتا تھا کہ ظالم اور باطل قوتوں کے خلاف اس کی جنگ اصولوں پر جاری ہے اور وہ ظلم کے خلاف جنگ کرتا رہے گا۔

ٹارزن نے اپنی بلا شرکت غیرے طاقت کو ریاستی دہشت گردی میں بھی بدلنے نہیں دیا، اپنے مزاج اور جرات وشجاعت کو سیاسی مصلحتوں سے آلودہ نہیں کیا ، اس نے جنگل میں اپنی ایمپائر ’’مسٹری میڈیا‘‘ کے سماجی لومڑیوں، جمہوری گیڈروں اور معاشی لگڑبھگوں کے اشتراک و اتحاد سے مستحکم نہیں کی،نہ آئی ٹی کی ٹیکنالوجی کی بازی گری اور تعلیمی جعل سازیوں سے ۔ مال و منال ، سرمایہ کاری کا دام فریب ، بزدلی وپسپائی اس کی سرشت میں نہیں، اس سے تو جسمانی و ذہنی طاقت، رفتار، لچکیلے پن، لہوگرم رکھنے کی صد ہزار جہتیں، تحمل و استقامت ، دفاعی تدبیریں، حملہ کرنے کی دنداںشکن مہارت، حساسیت پیراکی کی بے مثل صلاحیت کی توقع رکھی جاتی تھی۔

ٹارزن جسمانی لحاظ سے وحشی کلچر کا اسیر تھا مگر اس وحشی کردار کو اس کے پیکر ساز مصنف ایڈورڈ بارو اور دیگر نے وحشی شریف کے طور پر پیش کیا، جن لوگوں نے انتھونی کوئن کی فلم ’’سیوج انوسنٹ ‘‘ Savage Innocent دیکھی ہے وہ محسوس کرسکتے ہیں کہ ایگزیکٹ اور بول کے پروگرام ، شیڈول ، منشور ،ایجنڈے ، انفرااسٹرکچر ، انتظامی ساخت ، تخلیقی پھیلائو اور جارحانہ مارکیٹنگ میں صحافتی اقدارکی بنیادی ضروریات کا عمل دخل کتنا تھا۔ میں نے بول کی لیاری پر ڈاکومنٹری دیکھی ہے ۔کیا گلاب کے پھول تھے اس میں؟ کیا پورا گلشن لیاری مہک اٹھا تھا؟ ویسے کئی دستاویزی پروگرام دیگر چینل نے بھی ٹیلی کاسٹ کیے۔ بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا ۔ پاکستانی کلچرکی بدنصیبی ہے کہ برس ہا برس سے دشت صحافت میں تعلیمی حوالے سے داخلے کی کوئی ممانعت نہ تھی، کئی واجبی اور بے ادب لوگ راتوں رات صحافی بن گئے۔

یہ بات اے کے بروہی نے 70 ء کی دہائی میں امریکن لائبریری کے احاطے میں ہونے والی ایک خصوصی سیمینار میں کہی تھی جس میں جاوید جبار نے بھی شرکت کی تھی اوراظہار خیال بھی کیا تھا۔ان دنوں ہم جونیئر رپورٹر تھے ، ناصربیگ چغتائی اور راقم الحروف نے آگے پیچھے مساوات جوائن کیا تھا، وہ ڈیسک پر چلے گئے مجھے اخبارکے ایڈیٹر جناب شوکت صدیقی نے رپورٹرکی جاب دی۔ کیا زمانہ تھا کہ شیر شاہ کالونی پر ہمارے پہلے فیچر کی نوک پلک میرے استاد احفاظ الرحمٰن نے درست کی۔وہ مساوات کے سینئر اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے۔

شہزاد منطر ، ذکی حسن اورطاہر احمر ادارتی ٹیم کے رکن تھے۔ 73 ء میں ہم نے مساوات میں کسی ایگزیکٹ یا بول جیسے ادارے کی کوئی جھلک نہیں دیکھی۔ رپورٹراور فوٹوگرافر اکثر پیدل چل کر اسائنمنٹ کور کرتے۔521 روپے تنخواہ تھی۔ مگرجاوید چوہدری کے استدلال اور ان کے سوالات جو بول جوائن کرنے والوں نے پوچھنے کی بوجوہ ہمت نہیں کی بہت سارے سوالوں کا ازخود واضح جواب ہیں۔ یہ کون سی صحافتی سلطنت کے قیام کی تیاری تھی کہ جن کا ان صحافیوں سے کوئی نظریاتی، فکری اور پیشہ ورانہ رشتہ نہیں جنہوں نے عام آدمی کی خاطر، سماجی تبدیلی اورریاستی ڈھانچے میں جمہوریت اور عدل وانصاف کے لیے برہنہ پا سفرکیا، فاقے کیے ، برطرفیاں برداشت کیں، ان نیوز فوٹوگرافرز، رپورٹرز اور فیچر رائٹرزکو آپ کیا نام اورمقام دیں گے جنہوں نے پیدل چل کر صبح وشام بلکہ رات گئے تک بھوکے پیاسے اسائنمنٹ مکمل کیے ؟ ان کی تنخواہ اس وقت کے مالی معیار اورکرنسی کی قدرکے حوالے سے بقدر اشک بلبل ہوا کرتی تھی۔ مگر قناعت اور صبر صحافت کا اصل جوہر تھی۔

میرے مشاہیر، سینئر صحافی اسیر حرص نہیں تھے،اگر پیشہ صحافت کی آبرو وہ نہیں تھے تو کیا کروڑوں کے ڈبہ پیر جیسے پیکیج والے ہمیں آج صحافتی سلطنت کے سٹیڈیم یا ایڈیٹوریم میں بتائیں گے کہ اخبار اور چینل کس طرح تباہی مچاتے اور حریف و مقابل معاصر اداروں کو روند ڈالتے ہیں ۔ وہ منظر عام پر آکر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی حشرسامانیوں کا انوکھا تھیٹر سجائیں گے، راتوں رات سرکولیشن ،اشتہارات اور ریڈرشپ و ویورشپ سمیٹ کر شیر مادر کی طرح پی جائیں گے۔چند روز میں ہزاروں ورکنگ جرنلسٹس کو بیروزگارکردیں گے۔

مگر ہمارے سینئرز اپنے پیشہ صحافت کی آبرو بنے رہے ۔ میں فخر ماتری، عثمان آزاد ، عبدالکریم عابد، شیخ عزیز ، اخترعالم ، اے ٹی نظامی، جمیل زبیری ، قادرنظامانی،خواجہ رضی حیدر، شہر یارجلیس، پرویز بشیر، حسین اعظمی،عارف الحق عارف، نوراللہ ہاشم ، شیخ عزیز، جاوید بخاری، عبدالرئوف عروج ، ایس کے پاشا، ایس آر غوری، ظفر قریشی، نظام صدیقی، علی اختر رضوی ، شمیم احمد، ایس ایم آزاد،عبدالحمید چھاپرا، ظفر رضوی ، شفیع عقیل ،صلاح الدین پراچہ ، فاروق پراچہ، یونس ریاض،الیاس رشیدی، رقیب پونا والا،الطاف رانا ، مجیب الرحمان، نسیم شاد ، احمد حمید، رفیع احمد فدائی،آفتاب سید،محمود شام، صدیق بلوچ ،جبار خٹک،خالد علیگ، طفیل احمد جمالی، فرہاد زیدی، امداد نظامی ، قمر عباس جعفری ، مناظر صدیقی ، سید محمد صوفی ، مولانا صلاح الدین، افسرآذر، ابوالاخیار، اشفاق بخاری،آئی ایچ برنی ، منصورعالم ،ایس آرغوری، انور حسین، ضمیر نیازی، حمید جہلمی، ہمایوں ادیب، جمیل انصاری ،محمدعلی صدیقی،

محمد علی خالد، علی احمد خان، رضا علی عابدی ، شفیع نقی جامعی ، سلیم عاصمی، عباس ناصر، وقار انبالوی، رانا خالد اور ان گنت رجحان ساز صحافیوں اور ساتھیوں کو فراموش نہیں کرسکتا، میں ان خوش نویسوں کو یاد رکھتا ہوں جنھوں نے مجھے لفظ کی حرمت کا احساس دلایا ، جن کی بالواسطہ یا بلاواسطہ رہنمائی ، نصیحتوں اور شفقت نے صحافت کو شجر سایہ دار بنائے رکھا۔ بعض اہل صحافت پوچھیں گے کہ میڈیا میں غالب کی آبروکیا تھی ۔کیا وہ میرؔ سے بھی زیادہ سادہ ثابت ہوئے، یا نرے احمق تھے، ان کا کوئی گھر نہ تھا ، بیوی بچے نہ تھے، معاشی آسودگی ان کا مسئلہ نہ تھا،ان اور ان کے بچوں کا کوئی مستقبل نہ تھا، یا وہ یوں ہی بے منزل سی زندگی کو آگ لگا کر آتش صحافت میں بے خطر کود پڑنے کو تیار تھے۔

(جاری ہے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔