ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب سے ایک ملاقات

امجد اسلام امجد  اتوار 31 مئ 2015
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

گورنمنٹ کالج لاہور کا مشاعرہ جاری تھا، اسٹیج شاعروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جب کہ شاعر سامنے کی صفوں میں بھی دکھائی دے رہے تھے۔ اسٹیج سیکریٹری ڈاکٹر صائمہ، صاحب صدر خورشید رضوی اور مہمانان خصوصی یعنی سرمد صہبائی اور مجھ سمیت، سینئر شعرا سے بار بار معذرت اور وضاحت کر رہی تھیں کہ بہت سے شاعر بن بلائے آ گئے ہیں جس کی وجہ سے معاملہ ان کے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے کہ اچانک میرے ’’خاموش کردہ‘‘ فون کی اسکرین پر برادرم شوکت ورک کا نام ابھرا جو لاہور میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کی مجوزہ اسپتال کی انتظامی ٹیم کے مرکزی اراکین میں سے ہیں اور جن سے اس اسپتال کے Promotional Song کی تیاری کے سلسلے میں ملاقات رہتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب لاہور پہنچ گئے ہیں جہاں انھیں کل صبح علامہ اقبال میڈیکل کالج کی خصوصی تقریب کی صدارت کرنی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ رات کا کھانا کچھ دوست مل کر کھائیں۔

سو آپ آٹھ بجے تک ضرور آ جائیے گا کہ ڈاکٹر صاحب وقت کے بہت پابند ہیں۔ میں نے ایک نظر گھڑی پر ڈالی ، 6 بج کر 20 منٹ ہو رہے تھے اور پھر ان شاعروں پر نظر دوڑائی جنھیں ابھی کلام سنانا تھا۔ مشاعرہ گاہ سے کھانے کے وینیو تک کم از کم پندرہ منٹ کا فاصلہ تھا اسے نکال کر 85 منٹ اور 17 شاعر بچے جن میں عباس تابش، اختر شمار، تیمور حسن تیمور، صائمہ کامران، صغرا صدف، حمیدہ شاہین اور خالد شریف جیسے شعرأ بھی تھے۔ سو اس بات کا امکان کم تھا کہ میں اپنی باری پر پڑھنے کے بعد وقت پر ڈنر میں شامل ہو سکوں لیکن یہ سارے تخمینے دھرے کے دھرے رہ گئے۔

جب امریکا سے آئے ہوئے ہمارے دوست خالد خواجہ نے اپنا دلچسپ ورائٹی پروگرام شروع کر دیا، مخصوص انداز میں بازو ہلانے اور جون ایلیا مرحوم کے انداز میں اپنی رانوں پر دو ہتڑ مار کر شعر پڑھنے کے اسٹائل کو نوجوانوں نے بہت پسند کیا جسے وہ آخر تک اپنی شاعری کی داد سمجھتے رہے۔ سو یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا گیا اور مجبوراً مجھے بقیہ چھ سات شاعروں سے معذرت کر کے اپنی باری بھگتانی پڑی کہ بقول برادرم خورشید رضوی ابھی ایک اور ان ہی جیسے خفیہ مرد میدان باقی تھے۔

پرویز مشرف کے دور میں ڈاکٹر قدیر خان صاحب کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا وہ انتہائی شرمناک ہونے کے باوجود اب ہماری روایت کا حصہ بن چکا ہے کہ ہم اپنے ہیروز کی کردار کشی کے لیے دشمنوں کو بہت کم تکلیف دیتے ہیں۔ بقول عطاء الحق قاسمی ہمارے درمیان ایک ایسا خودبین طبقہ بھی موجود ہے جسے اس بات کا یقین ہی نہیں آتا کہ وطن عزیز میں کوئی شخص سچ مچ معزز اور محترم بھی ہو سکتا ہے اور اگر بدقسمتی سے کوئی ایسا بندہ ان کے ہتھے چڑھ جائے تو اسے بے عزت کرنے کے لیے وہ تن من دھن کی بازی لگا دیتے ہیں۔

اس حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود یہ معاملہ بہرحال سمجھ سے باہر ہے کہ موجودہ حکومت اور میاں برادران تو ڈاکٹر صاحب کے معتقدین میں سے تھے۔ وہ یوں ان سے کنی کترانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ 28 مئی 1998ء کو کیا جانے والا ایٹمی دھماکا جس کا کریڈٹ لیتے ہوئے وہ ہر حد کو پار کر جاتے ہیں ان ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم کا کارنامہ تھا۔ اس دن کا نام یوم تکبیر اور ڈاکٹر صاحب کو محسن پاکستان کا خطاب بھی ان ہی کے گزشتہ دور میں دیا گیا تھا۔

سو سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کی یہ موجودہ سرد مہری کس کھاتے میں ڈالی جائے؟ میں نے محسوس کیا کہ ڈاکٹر صاحب بھی اس صورتحال سے ڈسٹرب اور کسی حد تک ناراض بھی ہیں کہ جو بھی الزامات ماضی میں ان پر لگائے یا لگوائے گئے وہ اپنی جگہ مگر اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اور ان کی ٹیم نے ہی قوم کو وہ کچھ ڈلیور کیا جو ان کے ذمے لگایا گیا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ جب ہمارے پاس ایسے سائنسدان اور ماہرین موجود ہیں جو ایٹمی ٹیکنالوجی پر اعلیٰ ترین دسترس کے حامل قرار دیے جا سکتے ہیں تو پھر انرجی کے متبادل ذرائع کے ضمن میں آپ لوگ آگے کیوں نہیں آتے؟ اس پر ڈاکٹر صاحب بولے ’’ہم تو حاضر ہیں مگر کسی کو ہماری ضرورت بھی تو ہو‘‘

ایٹمی ٹیکنالوجی پاکستان نے کس کس طرح سے حاصل؟ کن کن لوگوں نے کن کن ذرائع سے متعلقہ اجزا فراہم کیے؟ کس نے کیا کمایا اور کیا خرچ کیا؟ بین الاقوامی سطح پر کس قانون کی کہاں اور کیسے خلاف ورزی ہوئی؟ اسلامی اور دیگر ترقی پذیر ممالک تک اس کی فراہمی کیوں کب اور کیسے ہوئی؟ یہ سب باتیں اپنی جگہ پر اہم اور متنازعہ طور پر درست سہی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا نے دوسری جنگ عظیم کے دنوں میں خود یہ سب کچھ نہیں کیا تھا؟ کیا جرمن سائنسدان اغوا یا فرار نہیں کروائے گئے تھے؟ کیا ٹیکنالوجی کی چوری اورا سمگلنگ اس وقت نہیں ہوئی تھی؟

اگرچہ قانون کے نقطۂ نظر سے یہ کوئی دلیل نہیں لیکن کیا یہ قانون سب پر ایک جیسا لاگو نہیں ہوتا۔ اگر جرمنی کے فاشزم سے بچنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کے لیے یہ سب کچھ جائز تھا تو پاکستان کو بھی بھارت سے کوئی کم خطرہ نہیں تھا۔سو دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اپنے محسنوں کو اس نام نہاد عالمی انصاف کے کٹہرے میں پابہ جولاں لے جانے اور میڈیا میں ان کی بے حرمتی کرنے اور کرانے سے اصل فائدہ کس کو ہوا؟ اس بحث کو بھی چھوڑیئے کہ ابتدا میں میاں نواز شریف دھماکے کے حق میں تھے یا نہیں۔

کن وجوہات کی بنا پر وہ یہ فیصلہ کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس کی وجہ سے ان کو اور ان کی حکومت کو جو عوامی مقبولیت ملی اس میں ان کا اپنا رول کیا تھا۔ امر واقعہ یہی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر جنرل ضیاء الحق اور پھر غلام اسحٰق خان، بے نظیر اور نواز شریف تک سب ہی نے ان سائنسدانوں پر نہ صرف اعتماد کیا بلکہ ہر طرف کے بیرونی دبائو کو برداشت کرتے ہوئے انھیں تمام ممکنہ سہولتیں بھی فراہم کیں اور اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب اور ان کے رفقا نے بھی اس اعتماد کا حق ادا کر کے دکھایا۔ دونوں باتیں ہماری تاریخ کے پس منظر میں ایک عجوبے اور معجزے سے کم نہیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر وہ سب لوگ جو کسی نہ کسی حوالے سے ملک کو آگے لے جا سکتے ہیں۔ اپنی جھوٹی انائوں کو ایک طرف رکھ کر خلق خدا کی خدمت کے لیے ایک صف میں کھڑے ہو جائیں اور ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اس ہجوم کو ایک قافلے کی شکل میں رہنمائی فراہم کریں جسے دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کہا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔