اردو باغ کا سنگ بنیاد

نسیم انجم  اتوار 31 مئ 2015
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ماہ مئی کئی خصوصیات کے حوالے سے اہم ترین بن گیا ہے، مزدوروں کا عالمی دن ’’یوم مئی‘‘ اسی مہینے میں مولانا حسرت موہانی کا دن بھی منایا جاتا ہے۔

اس خاص دن میں یوں تو کئی اہم واقعات رونما ہوئے لیکن ایک واقعہ اور بھی 9 مئی 2015 کو ظہور پذیر ہوا وہ تھا ’’اردو باغ کا سنگ بنیاد‘‘ اہل زبان اور اہل قلم کے لیے یقینا یہ دن بے حد خوشگوار اور یادگار تھا، اس کی وجہ گورنر ہاؤس میں تقریب نقاب کشائی سنگ بنیاد تھی اور یہ نیک کام صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان صدر ممنون حسین کے حصے میں آیا۔

تقریب کی ابتدا قومی ترانہ اور تلاوت کلام پاک سے ہوئی، خیر مقدمی کلمات محترمہ ڈاکٹر فاطمہ حسین معتمد اعزازی انجمن ترقی اردو پاکستان نے ادا کیے۔ کمشنر کراچی جناب شعیب احمد صدیقی نے اظہار تشکر اور گورنر سندھ جناب ڈاکٹر عشرت العباد نے محفل کے شرکا سے خطاب کیا، جس میں اردو اور انجمن ترقی اردو کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ صدر پاکستان جناب ممنون حسین نے اپنی تقریر کا آغاز بے حد خوبصورت اور افسانوی انداز میں اس طرح کیا کہ

’’انجمن ترقی اردو کی عمارت ’’اردو باغ‘‘ کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے تاریخ کے ان اوراق میں کھو گیا ہوں، جب تحریک آزادی کی داغ بیل ڈالی جا رہی تھی، انجمن ترقی اردو بظاہر ایک علمی اور ادبی تنظیم محسوس ہوتی ہے، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس کا تعلق دو قومی نظریے اور نظریہ پاکستان کے ساتھ انتہائی گہرا ہے بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ یہ ہی انجمن تھی جو آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ثابت ہوئی.

یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ 1903 میں جب انگریزی سامراج نے ہندی کو برصغیر کی سرکاری زبان کی حیثیت سے رائج کرنے کا فیصلہ کیا تو اس موقع پر سرسید احمد خان کے رفیق خاص نواب محسن الملک نے اردو کا پرچم بلند کرتے ہوئے انجمن ترقی اردو قائم کرکے مسلمانوں کی شناخت اور علمی و ادبی سرمائے کو محفوظ کرنے کی پہلی منظم کوشش کی، انجمن ترقی اردو کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ مولانا الطاف حسین حالی، مولانا شبلی نعمانی اور ڈپٹی نذیر احمد جیسے علم وادب کے شہسواروں سے لے کر قائد اعظم، علامہ اقبال اور نظام دکن میر عثمان علی خان جیسی نامور قومی شخصیات اس کے عہدیدار اور مجلس عاملہ کے رکن رہے، انھوں نے مزید کہا کہ اردو باغ محض ایک تعمیراتی منصوبہ نہیں بلکہ پاکستان کی نظریاتی، ثقافتی اور کئی اعتبار سے سیاسی شناخت کا آئینہ دار ہے۔‘‘

صدر صاحب کا خطبہ انجمن ترقی اردو پاکستان اور اردو زبان کی اہمیت اور مقصدیت کو بے حد موثر انداز میں نمایاں کرتا ہے ایک ، ایک جملہ قابل غور اور قابل فکر ہے، بے شک اپنی زبان اور تہذیبی اقدار کی حفاظت کرنا ہم سب کا فرض ہے، ہر فرد اپنی زبان اور قومی ورثے کے تحفظ کے لیے دامے، درمے، سخنے اپنا کردار ادا کرے، زبان ہماری شناخت ہے پاکستان کی شناخت ہے اس کے علمی و ادبی سرمائے کو تحفظ دینا اپنے روشن مستقبل کو محفوظ کرنے کے مترادف ہے۔ اور یہ ہم سب کی خوش قسمتی ہے کہ صدر پاکستان کی نقاب کشائی سنگ بنیاد کے بعد عمارت کی تعمیر کا کام شروع کرنے کے لیے تگ و دو جاری ہے۔

پچھلے دنوں انجمن ترقی اردو پاکستان کے دفتر میں جانے کا اتفاق اس لیے ہوا کہ تحریک نفاذ اردو کا ایک وفد، ڈاکٹر فاطمہ حسن سے ملاقات کے لیے گیا ۔ یہ وفد 4 افراد پر مشتمل تھا۔ جناب ڈاکٹر مبین اختر، جناب نسیم شاہ (ایڈووکیٹ)، راقم السطور اور نجیب عمر صاحب، مقصد اردو زبان کو سرکاری و دفتری زبان کا درجہ دینے کے لیے مزید کاوشیں، اس موقع پر قرارداد رفاقت کے فارم بھی دستخط ہوئے اور کئی حضرات نے ممبرشپ کے فارم بھی پُر کیے۔

اور اس خوشگوار ماحول میں معنی خیز گفتگو ہوئی ڈاکٹر فاطمہ حسن نے خوش اخلاقی اور مہمان نوازی کا مظاہرہ بھی کیا۔ اس طرح تبادلہ خیال سے مثبت آرا سامنے آئیں اور حوصلہ بلند ہوا کہ ان اداروں کی کاوش اور جسٹس ایس خواجہ کی اردو زبان سے محبت ضرور رنگ لائے گی۔ انھوں نے حکومت کو توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اتنے سال گزر جانے کے باوجود بھی اردو قومی زبان نہ بن سکی تو اب کب بنے گی؟ باقاعدہ کوششیں جاری و ساری ہیں گورنر ہاؤس کی تقریب نے بھی محب وطن پاکستانیوں کا حوصلہ بڑھایا ہے کہ ہمارے قدم بہتری کی طرف رواں دواں ہیں۔

صدر صاحب کی اردو زبان سے محبت لائق تحسین ہے کہ سربراہان مملکت کو اپنے ملک و قوم کی بقا اور استحکام کے لیے ایسے کام کرنے ناگزیر ہیں۔ ملک کے ممتاز مزاح نگار جناب مشتاق احمد یوسفی بھی تقریب میں تشریف لائے تھے ان کے علاوہ شہر کے معزز و معتبر تخلیق کار و اکابرین اور صحافی تشریف فرما تھے۔ موسم بھی سہانا تھا، سرکاری اداروں اور گورنر ہاؤس جیسے ہاؤسز میں جہاں (سیاسی حالات) باد سموم مزاج میں تلخی پیدا کرتی ہے وہاں ٹھنڈی اور فرحت بخش ہوا کے جھونکے بھی طبیعت میں تازگی و فرحت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں، گورنر ہاؤس کے تناور اشجار بھی جھوم جھوم کر مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے کہ سب ہی لوگ قابل عزت تھے۔

ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اپنی تقریر میں اس بات کی وضاحت کی کہ انجمن ترقی اردو پاکستان کا سن پیدائش 1903 اور بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اس کی ذمے داری 1912 میں سنبھالی اور اسے اپنے ساتھ ہی پاکستان لے آئے تھے۔

انجمن کی نادر و نایاب کتب جن کی تعداد 60 ہزار ہے امانتاً دوسرے سرکاری ادارے میں رکھوائی گئی ہیں جب عمارت تعمیر ہوجائے گی تب یہ اپنی اصل جگہ یعنی انجمن ترقی اردو پاکستان کے نئے دفتر میں پہنچیں گی کتب خانہ کا پلاٹ 5331 گز پر مشتمل ہے جسے 1989 میں حاصل کیا گیا تھا۔ بہت جلد کتب خانے کی نئی عمارت تعمیر کے مرحلے میں داخل ہوجائے گی۔

اس تقریب کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس میں ملک کے ممتاز شعرا نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ جس کی سب نے داد دی۔ فاطمہ حسن نے لعل شہباز قلندر کی غزل کا ترجمہ سنایا۔ جس کا مطلع یہ ہے:
نمی دانم کہ آخر چوں دم دیداری رقصم
مگر نازم کہ ہر صورت بہ پیش یارمی رقصم

صدر صاحب کو بھی شعر و سخن سے اچھی خاصی دلچسپی ہے اور اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں اس بات کا انکشاف تقریب کے موقع پر ہوا۔ حاضرین کے بے حد اصرار پر انھوں نے مشہور شعرا کے اشعار سنائے۔ شمیم جے پوری کا یہ شعر:
سمو لیے ہیں زمانے کے غم شبنم نے
زمانہ اس پر بھی برہم ہے کیا کیاجائے
شعر و سخن کے بعد یہ باوقار تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔