نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت

انتظار حسین  پير 1 جون 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

کل کا دن ہم پر عجب گزرا۔ کراچی سے ہمارے دو یاران عزیز غازی صلاح الدین اور آصف فرخی آن دھمکے۔ تھوڑی دیر بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں کیں‘ سب سے بڑھ کر ایگزیکٹ کا جو ہمارے وطن عزیز پاکستان کا تا حال سب سے عظیم سکینڈل ہے۔ اور ہم غازی صلاح الدین سے اس کا ذکر ایسے سن رہے تھے جیسے یہ اکیسویں صدی میں نمود کرنے والے ساحر الموت کی فردوس بریں کا ذکر ہے اور وہ جو صحافی اور ٹی وی اینکر خاص طور پر صنف نازک سے تعلق رکھنے والی بول چینل میں شامل ہوئی ہیں وہ اس نئی فردوس بریں کی حوریں ہیں۔

تھوڑی دیر بعد غازی صلاح الدین بیچین ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ کہا کہ اٹھو‘ ہمارے ساتھ چلو۔ کہیں ٹھنڈے گوشے میں بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں۔ ہماری سواری باد بہاری یعنی اس بینک کی کار جس کے وہ آج مہمان تھے ایسے کوچے سے گزری کہ ہم نے حیران ہو کر سوچا کہ اچھا یہ بھی لاہور کا گوشہ ہے اور پھر ایک ایسے ریستوران میں داخل ہوئے کہ لگا کہ ؎

اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

مگر پھر ہمیں آج کا کشور ناہید کا کالم یاد آیا جہاں آج انھیں پندرہ سولہ سال بعد لاہور کی شب لکشمی چوک میں گھومنے پھرنے کا موقعہ میسر آیا تھا اور وہ یہ دیکھ کر کتنی خوش ہو رہی تھیں کہ لاہور میں وہ پہلے والی گہما گہمی ہے۔ کہیں مالشئے اپنا ہنر دکھا رہے ہیں۔ کسی دکان کے آگے کھڑے یار فیرنی کی خاکی طشتریوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ کہیں کسی تھڑے پر آلو چھولے‘ کہیں گرما گرم سیخ کباب۔ کتنی خوش ہوئیں یہ منظر دیکھ کر اور بقول ناصر کاظمی ع

شہر لاہور تری رونقیں دائم آباد

اور اس سے ہمارا دھیان اپنی مال روڈ کی طرف گیا۔ ناصر کاظمی اور مظفر علی سید اور احمد مشتاق کے ساتھ اس سڑک پر کتنے رتجگے ؎

میں ہوں رات کا ایک بجا ہے
خالی رستہ بول رہا ہے

اور پھر اس سے آگے جگمگ کرتا میٹرو۔ کیبرے اینجلا۔ بال روم ڈانسنگ۔ نئے سال کی پہلی شب۔ بارہ بجے ہیں۔ بینڈ باجے کی دھن تیز سے تیز تر۔ اچانک ساری بجلیاں گل۔ آسوں مرادوں والا مبارک اندھیرا۔ ایک منٹ کی تاریکی۔ نئے سال کے جشن کا حاصل۔ اور اب میٹرو کہاں ہے۔ اینجلا گئی‘ اینجلا کے پروانے گئے۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ اب تو مال روڈ کھسکتے کھسکتے بھاٹی دروازے سے جا ملی ہے۔ گزرے کل کی ٹھنڈی سڑک۔ آنے والے کل کا بھاٹی دروازہ نمبر2۔ یہ اب ہمارا ناسٹولجیا ہے۔ کشور ناہید کے ناسٹولجیا سے مختلف ہے۔ 48 ء میں ہمارا ناسٹولجیا اور رنگ کا تھا۔ ارے وہیں سے تو ساری خرابی پیدا ہوئی۔ وہ تو بھلا کرے ترقی پسند دوستوں کا۔ انھوں نے جلد ہی مرض کی تشخیص کر لی۔ یہ ناسٹولجیا کا مریض ہے۔ ماضی پرست۔ حال سے بے خبر۔ چٹا رجعت پسند۔

مگر دکھ بیماری سب کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ ہمارے ترقی پسند دوست حمید اختر کے یہاں پہلے کینسر کا مرض دریافت ہوا۔ پھر ناسٹولجیا کے موذی مرض نے آ لیا۔ کالم میں ہر پھر کر وہی بنے بھائی‘ سردار جعفری۔ اردو تنقید کا سرخ مسافر۔ ایسی ساری تحریروں کا مجموعہ شایع ہوا تو اس کی افتتاحی تقریب کی صدارت ہم نے کی۔ حمید اختر سے اب اچھی بھلی یاری جو ہو گئی۔ اور ہم نے کسی خلوص سے اس عزیز کے ساتھ اپنی رفاقت کا ذکر کیا   ؎

آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار‘ میں چلاؤں ہائے دل

ہم نے اس عزیز کو بہت اکسایا۔ کالموں کو ایک طرف رکھو۔ یکسوئی سے تحریک کے متعلق اگلی پچھلی ساری یادیں قلمبند کر ڈالو۔ کیسے یہ کام کرتے۔ جب روز کا کنواں کھودنا اور آب حیات برآمد کرنا ہو۔ کتاب کی رائلٹی کتنی ملتی ہے۔ عجیب ہوا۔ کینسر کا علاج شافی ہوا۔ مگر ناسٹولجیا کی بیماری جان لیوا بن گئی۔ جان سے گزر گئے۔ بیماری نے پیچھا نہیں چھوڑا۔

لو بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ذکر یہ تھا کہ لاہور شہر کس تیزی سے بدل رہا ہے۔ بدلتا چلا جا رہا ہے۔ پرانے گلی کوچوں کو بھول جاؤ۔ آج نہیں بھولے تو کل انھیں بھولنا پڑے گا۔ لاہور شہر کو کہیں سے الہ دین کا چراغ مل گیا ہے۔ روز گھسو‘ روز ایک نئی عمارت کھڑی دیکھ لو اور کونسی عمارات

گرجا سے کہیں بڑھ کے ہیں بینکوں کی عمارات

بینک یا پھر ہوٹل۔ مال روڈ سے ریستوراں کیسے غائب ہوئے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ مگر ذرا مال روڈ سے گزر کر قدم رکھو۔ ہوٹلوں کی فلک بوس عمارات نمودار ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ ان عمارتوں پر موقوف نہیں۔ فیض کے نئے نئے اسباب نمودار ہو رہے ہیں   ؎

پل بنا‘ چاہ بنا‘ مسجد و تالاب بنا
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا

سرنگیں‘ پل‘ سروں پر تنی ہوئی چھتیں‘ میٹرو بس کی دور تک پھیلی ہوئی بلند و بالا پٹریاں۔ اس نو آمدہ نقشے نے تو شہر کی شکل و صورت اس طرح بدلی ہے کہ پہچانی نہیں جاتی۔ شیر شاہ سوری ملک عدم سے کبھی ادھر نکل آئے تو حق دق رہ جائے اور میاں شہباز شریف کے ہاتھ چوم لے۔ سڑکیں جتنی پھیلتی جاتی ہیں اتنی سکڑتی جا رہی ہیں۔ ٹریفک الٰہی توبہ۔ کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ سواری سے سواری بھڑ کر چلتی ہے۔ سواروں کا بول بالا ہے۔ پیادہ پٹ گیا۔ نئی سڑکیں نئے پل فٹ پاتھ سے نا آشنا ہیں۔ پیادہ کہاں جائے کونسی راہ چلے۔

بلند و بالا عمارتوں کے بیچ شہروں کی شناخت گم ہے۔ یکساں فلیٹ قطار اندر قطار۔ نمبروں سے گھروں کو پہچانو۔ اور مکین کیسے پہچانے جائیں۔ شناختی کارڈ۔ مکینوں کے بھی تو نمبر ہونے چاہئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔