بچوں کو وہ پڑھائیں جو وہ پڑھنا چاہتے ہیں!

کاشف نصیر  پير 1 جون 2015
’’آئی بی‘‘ بھی ایک بہترین نظام تعلیم ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اسکے نتائج اُسی وقت سامنے آسکتے ہیں جب اِسے ہماری معاشرتی ضرورت، سماجی خدوخال اور اکثریت کی پرچنگ پاور سے ہم آہنگ کیا جائے۔ فوٹو: فیس بک

’’آئی بی‘‘ بھی ایک بہترین نظام تعلیم ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اسکے نتائج اُسی وقت سامنے آسکتے ہیں جب اِسے ہماری معاشرتی ضرورت، سماجی خدوخال اور اکثریت کی پرچنگ پاور سے ہم آہنگ کیا جائے۔ فوٹو: فیس بک

کراچی میں ایک معروف اسکول کے صدر دفتر میں بلاگرز کے ساتھ  ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا جسکا مقصد سوئزرلینڈ بیس بین القوامی نظام تعلیم ’’انٹرنیشنل بیچولرایٹ‘‘ (آئی بی) اور نونہالوں کی ذہنی نشونما کے لئے بنائے گئے سینٹر ’’جمبوری‘‘ سے بلاگرز کو روشناس کرانا تها۔ یہ یقینا ایک احسن قدم تھا، جس سے بلاگرز کو ملک کے اس اہم تعلیمی ادارے  اور اس میں رائج مختلف تعلیمی نظام کو قریب سے دیکھنے، سمجھنے اور جانچنے کا موقع ملا ہے۔ 

اسکول کے ہیڈ آف کارپوریٹ کمیونیکشن سیدعلی تبریز بخاری اور آئی بی کے برانڈ مینجرعمیر یحیی نے آئی بی کے نصاب، ٹیچنگ تکنیک، طریقہ امتحانات اور متبادل نطام تعلیم کے موضوعات  پر تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ نظام تعلیم بچوں کو وہ مضامین پڑهاتا ہے جو وہ پڑهنا چاہتے ہیں، وہ سیکھاتا ہے جو وہ سیکھنا چاہتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کے کوئی بهی چیز ان پر زبردستی مسلط نہ کی جائے۔ اس میں امتحانات کے روایتی اصولوں کے برعکس اندرونی (انٹرنل) و بیرونی (ایکسٹرنل) آزمائش کا ایک منفرد طریقہ کار رائج ہے جس میں کوئی بهی طالب علم پاس یا فیل نہیں ہوتا۔ لازمی مضامین کی تعداد کم اور اختیاری مضامین کی تعداد زیادہ ہے جبکہ اختیاری مضامین کی کم از کم تعداد بھی مقرر نہیں کی گئی ہے۔ اس نظام کے چار گریڈ ہیں، پرائمری ائیر پروگرام (پی وائے پی)، مڈل ائیر پروگرام (ایم وائے پی)، ڈپلومہ پروگرام (ڈی پی) اور کیرئیر ریلٹیڈ پروگرام (سی پی)۔

پچهلے برس کیمبریج سسٹم سے متعلق ایک رپورٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا جس کے مطابق کیمبریج سسٹم کو پاکستان میں مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکے ہیں۔ اس رپورٹ میں واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ برسوں کی محنت، مارکٹنگ اور اسکول نیٹ ورکنگ کے باوجود آج بھی او اور اے لیول ملک کے چند بڑے شہروں کے مخصوص طبقوں اور علاقوں تک محدود ہے۔ ہم آغا بورڈ کا حشر بھی دیکھ چکے ہیں جو جتنے زور و شور سے سامنے آیا تھا اتنی ہی خاموشی سے چند اسکولوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ان حالات میں ’’آئی بی‘‘ کا پاکستان میں کیا مستقبل ہے اِس کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل کام ہرگز نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اِس نظام میں نقص ہے بلکہ میرے نزدیک  یہ کیمبریج سسٹم اور آغا خان بورڈ سے بہت بہتر، جدید تقاضوں سے ہم آہنگ، عمرانی اور نفسیاتی اصولوں کے عین مطابق ہے لیکن مسئلہ فیس اسٹریکچر کا ہے جو اسے ایک خاص طبقے تک محدود کررہا ہے۔

کسی بھی تعلیمی نظام کو برآمد کرتے ہوئے ہمیں تین عناصرکا خیال رکھنا چاہئے، پہلا اپنے معاشرے کی مقامی ضرورت، دوسرا اپنے سماجی خدوخال اور  تیسرا اکثریت کی پرچیزنگ پاور۔ مغرب میں یقیناً دنیا کے بہترین تعلیمی نظام موجود ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ سارے نطام مغرب کے مخصوص حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دئے گئے ہیں جبکہ ہمارا ملک ایک مختلف تہذیبی، ثقافتی اور معاشی پسِ منطر رکھتا ہے۔ نیز اگر طالب علم ایک پراڈیکٹ ہے تو ہماری مارکیٹ کی کھپت اور ضرورت کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ جبکہ معاشرے میں کسی بھی قسم کی نئی تقسیم، احساس کمتری و برتری اور ذہنی خلیج کو پروان چڑھنے سے روکنے کے لئے سماجی خدوخال اور پرچیزنگ پاور کو مدنظر رکھنا  بھی ناگزیر ہے۔

ایک مسئلہ متبادل نظام تعلیم کا بھی ہے کیونکہ ہمارے ہاں کافی عرصے سے یکساں نظام تعلیم کی بحث چل رہی ہے۔ ہمارے یہاں موجود نظام تعلیم کے اجزاء ایک دوسرے سے اِس قدر مختلف ہیں کہ اُن سے نکلنے والے طلبہ وطالبات ایک دوسرے سے ایسے مختلف نظر آتے ہیں جیسے دو مختلف صدیوں کے انسان ہوں جبکہ مغربی ممالک میں موجود تمام نظام تعلیم یکساں اصولوں پر چل رہے ہیں۔

’’آئی بی‘‘ بھی ایک بہترین نظام تعلیم ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اسکے نتائج اُسی وقت سامنے آسکتے ہیں جب اِسے ہماری معاشرتی ضرورت، سماجی خدوخال اور اکثریت کی پرچنگ پاور سے ہم آہنگ کیا جائے۔ اگر ایسا ممکن ہوا تو یقیناً اِس نظام سے فارغ ہونے والے طلبہ و طالبات ایک نئی برگر کلاس کو جنم دینے کے بجائے خود کو اسی ملک، اسی معاشرے اور اُسی سماج کا بھرپور حصہ تصور کریں گے۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

کاشف نصیر

کاشف نصیر

مصنف اردو بلاگر ہیں اور سوشل میڈیا پر اردو زبان کے فروغ کے لئے سرگرم رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔