یادوں کی پٹاری

زاہدہ حنا  اتوار 7 جون 2015
zahedahina@gmail.com

[email protected]

دنیا کی ہر زبان میں آپ کو مردوں کی لکھی ہوئی آپ بیتیاں ملیں گی لیکن عورت کی خود نوشت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ عورتیں بھی ادب کے میدان میں اتریں تو کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے قصے کہانیوں کے دائرے سے نکل کر آپ بیتیاں لکھنی شروع کیں۔

برصغیر کی دوسری زبانوں اور اردو میں خواتین کی خود نوشت کا سلسلہ بیسویں صدی کی پہلی دہائی سے شروع ہو گیا تھا۔ قیصری بیگم کی ’’کتاب زندگی‘‘، بیگم صغرا ہمایوں مرزا، نذر سجاد حیدر، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، کنیز فاطمہ بلخی، پرنسس عابدہ سلطان اور ادا جعفری بالکل سامنے کے نام ہیں۔ بیسویں صدی کا نصف آخر تھا جب امرتا پریتم کی ’’رسیدی ٹکٹ‘‘، کملا داس کی ’’مائی اسٹوری‘‘ اور بعد کے دنوں میں تہمینہ درانی اور تسلیمہ نسرین کی خود نوشت نے تہلکہ مچا دیا۔ تسلیمہ کی آتم کتھا سے کچھ ہی پہلے، کشور ناہید کی خود نوشت ’’بری عورت کی کتھا‘‘ سامنے آئی۔ یہ نام جس قدر چونکا دینے والا تھا، اتنی ہنگامہ خیزی اس کے صفحوں پر نہ تھی۔

اور اب حمرا خلیق ’’کہاں کہاں سے گزر گئے‘‘ کے عنوان سے یادوں کی پٹاری کھول کر بیٹھی ہیں۔ نازوں کی پالی اس لڑکی کے لیے جو ابتدا میں گل بی بی تھی، اس کی ماں نے عشق کے دریا بہا دیے، بیٹی اس دریا میں تیرتی چلی گئی اور ماں لب دریا پیاسی ہی رہی۔ بیٹی کے دل میں اپنی اس جاں نثار اور جاں ہار ماں کی اس تڑپ کا کانٹا ہمیشہ کھٹکتا رہا لیکن دوسرے رشتوں کا ہرا بھرا جنگل اتنا گھنا تھا کہ اس میں ماں کی وہ پکار کہ ’’اے منی بی، اے منی بی‘‘ کہیں کھو گئی۔

حمرا فردوس جو اب عرصۂ دراز سے حمرا خلیق ہیں، ان سے میرا رشتہ استاد شاگرد کے طور پر شروع ہوا تھا لیکن پھر دوستی اور دلداری میں بدل گیا۔ گزرے ہوئے 55 برسوں کے دوران، میں ان کی زندگی کے بہت سے مرحلوں کی ناظر رہی ہوں۔ وہ ان عورتوں میں سے نہیں ہیں جنھیں اپنا شجرئہ نسب گھڑنا پڑتا ہے۔ ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس کی عورتیں بیسویں صدی کی ابتدا سے تعلیم یافتہ تھیں۔ شعر کہتی، افسانے اور مختصر ناول لکھتی تھیں۔ ہندوستان کی علمی، ادبی، ثقافتی اور سماجی زندگی میں ریڈیو شامل ہوا تو ان کی ماں اور خالائیں آل انڈیا ریڈیو سے مشاعرے پڑھنے لگیں۔ داد وصول کرتیں اور ہندوستان کے ادبی حلقوں میں سر آنکھوں پر بٹھائی جاتی تھیں۔

حمرا فردوس کی والدہ رابعہ پنہاں، خالہ بلقیس جمال، میمونہ غزال اور منہ بولی ماں آمنہ عفت نے صرف شاعری نہیں کی، وہ بہت اچھی نثر نگار تھیں، ان کے افسانے، ان کے ناولٹ شایع ہوئے لیکن اس دور کی کئی دوسری ادبی خواتین کی طرح انھیں تعلقات عامہ کا فن نہیں آتا تھا۔ اسی لیے آج کوئی ان سے واقف نہیں ۔ 1960ء میں انھوں نے اپنا ناولٹ ’’نشانہ‘‘ مجھے لکھ کر دیا تھا۔ جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ اسے آئینہ ادب لاہور نے شایع کیا تھا۔

ان کی منہ بولی ماں آمنہ عفت ہندوستان میں تھیں تو مظفر نگر کی میئر منتخب ہوئیں، لیاقت علی خان ان کے یہاں مہمان ہوتے تھے، ان کے ابی مسلم لیگی تھے۔ ترک وطن کو حمرا آپا نے نہایت سادگی سے بیان کیا ہے کہ لیاقت علی خان نے ابی کو جو سبز باغ دکھائے تھے وہ اس کے تعاقب میں نکلے۔

اپنے شوہر کے ساتھ آمنہ عفت بھی بیٹی حمرا کو لے کر پاکستان پہنچیں تو زندگی سراب اندر سراب بن گئی اور اسی کے درمیان حمرا فردوس کی ابتدائی اور آمنہ عفت کی تمام زندگی عذاب میں گزری۔ حمرا خلیق نہایت محتاط انسان ہیں لیکن مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ انھوں نے سات پردوں میں سہی، 16 برس کی اس لڑکی کا قصۂ غم لکھ دیا جو شبِ عروسی کے بعد عرصہ دراز تک بانجھ ہونے کا طعنہ سہتی رہی اور کبھی حرفِ حقیقت زبان پر نہ لائی، اس نے اپنی بہن رابعہ پنہاں کی بچی کو گود لے کر اپنے ارمان پورے کیے۔

یادوں کی اس پٹاری میں سفیروں، امیروں اور وزیروں کے نام نہیں۔ اس میں غموں کی گٹھڑیاں ہیں جو انھوں نے کھول کر ہمارے سامنے رکھ دی ہیں۔ اسما آپا کا رخصت ہونا جو نا وقت تو نہیں گئیں لیکن زندگی سے ناخوش ضرور گئیں۔ اسی طرح عزیز دوست فرخندہ اور خلیق ابراہیم کا ماتم۔ خلیق بھائی کو میں ان کا شوہر سمجھتی تھی لیکن حمرا آپا کی خود نوشت کے مطابق وہ ان کے شریک حیات نکلے۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ خلیق بھائی سے انھیں اتنی محبت ہے۔ اپنے بھائی محمد بشیر خالد کو بھی انھوں نے خوب یاد کیا ہے۔

یہ پی آئی اے کے عروج کے دن تھے۔ نئے ہوائی اڈوں پر اس کے طیارے اتر تے تھے۔ ان ہی دنوں پی آئی اے کی تعارفی پرواز قاہرہ جا رہی تھی جس میں عام مسافروں کے علاوہ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد بھی سفر کر رہی تھی۔ حمرا آپا کے بڑے بھائی محمد بشیر خالد کا شمار اس وقت کے اہم صحافیوں میں ہوتا تھا۔ کئی دوسرے صحافیوں کے ساتھ انھوں نے بھی اس فلائٹ سے رخت سفر باندھا اور پھر کبھی واپس نہ آئے۔ حمرا آپا لکھتی ہیں کہ 20 مئی 1965ء کو صبح کی روشنی ابھی پوری طرح نہیں پھیلی تھی۔

فضا دھندلی تھی اور وہ جہاز جسے قاہرہ کے ہوائی اڈے پر اترنا تھا، اس سے پہلے ہی ایک درخت سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا، کراچی اور ملک بھر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی… 125 گھروں کے چراغ آن کی آن میں گل ہو گئے جس میں جہاز کے عملے سمیت ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے خدا جانے یہ کیسا معجزہ تھا کہ اس ہولناک حادثے میں سے اسی دہکتی ہوئی آگ میں سے جو جہاز کے کریش ہونے کے بعد لگی تھی، پانچ مسافر زندہ بھی بچ گئے۔ انھوں نے جانے والوں کا ذکر کرتے ہوئے پی آئی اے کی جواں مرگ مومی گل کو بھی یاد کیا ہے۔ نہایت خوبصورت، نازک اندام اور بے انتہا مہذب ائیر ہوسٹس موت کے اندھیروں میں کھو گئی۔

انھوں نے اپنے حقیقی والد جو صوفی صاحب کے نام سے مشہور تھے، ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ابا جان ہمیشہ سے ذوالفقار علی بھٹو کو پسند کرتے تھے، بھائی جان ایم بشیر خالد کی بھٹو صاحب سے دوستی ہونے کی وجہ سے ابا جان بھٹو سے قربت بھی محسوس کرتے تھے۔ اسی لیے اکثر بھٹو سے خط و کتابت کرتے رہتے تھے۔ جن کے ذریعے وہ اپنی رائے اور مشورے بھٹو کو دیتے ۔ ان کی بزرگی اور پرانے تعلق کو مدنظر رکھتے ہوئے ان خطوں کا کبھی کبھی جواب بھی آ جایا کرتا تھا۔ ضیا الحق کا دور شروع ہوا۔ بھٹو سے تعلق رکھنے والے ہر انسان سے ضیا اتنا خوفزدہ تھا کہ اس نے ایک 85 سالہ بوڑھے شخص کو بھی نہیں بخشا۔

ایک دن دس گیارہ بجے دروازے پر دستک ہوئی، معلوم ہوا تھانے سے دو سپاہی ابا جان کو لینے آئے ہیں۔ گھر والے ششدر رہ گئے۔ خوفزدہ ہو گئے، ابا جان کا قصور کیا تھا؟ اس عمر میں گھر بیٹھے بیٹھے آخر انھوں نے ایسا کیا جرم کر دیا تھا؟ لیکن سپاہی کچھ بتانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس طلبی پر گھر والے پریشان تھے لیکن ایسا محسوس ہوا کہ ابا جان کو نہ اس بات پر کوئی حیرت ہوئی نہ پریشانی، انھوں نے سوال جواب کیے بغیر ایک چھوٹے سے اٹیچی کیس میں اپنا تھوڑا سا سامان رکھا اور سب کو خدا حافظ کہہ کر سپاہیوں کے ساتھ چل پڑے۔ کئی گھٹنے اسی شش و پنج میں گزر گئے۔ کسی کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ ابا جان کو کیوں اور کہاں لے جایا گیا ہے۔

ہم سب صرف ان کی خیریت کی دعا مانگ رہے تھے۔ اسی حالت میں سہ پہر ہو گئی جب دروازے پر گھنٹی بجی۔ دروازہ کھولا تو دیکھا ابا جان اپنا اٹیچی کیس سنبھالے کھڑے ہیں۔ ان کے چہرے پر نہ کوئی پریشانی تھی نہ غصے کی کیفیت۔ معلوم ہوا کہ بھٹو سے خط و کتابت کرنے کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے کے لیے طلبی ہوئی تھی اور شاید ابا جان بوڑھے نہ ہوتے تو انھیں اس کی سزا بھی دے دی جاتی۔ تھانے والوں نے انھیں دیکھا تو انھیں لگا کہ یہ کوئی سٹھیایا ہوا بوڑھا ہے جو بے ضرر ہے اور حکومت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ لہٰذا چند سوالات کے بعد انھیں واپس بھیج دیا گیا۔

اس خود نوشت میں انھوں نے نہایت محبت سے اپنی دوستوں کا ذکر کیا ہے اور بار بار کیا ہے۔ شاید ان کی یہی سہیلیاں تھیں اور آج بھی ہیں، جن کا ہاتھ تھام کر وہ بہت کٹھن مرحلوں سے گزر گئیں، ان میں حسینہ معین سرفہرست ہیں۔ حارث اور طارق ان کی جان ہیں۔ انھوں نے اپنے ان دو بیٹوں، بہوؤں اور اپنی اگلی نسل کو دل کھول کر یاد کیا ہے، اور کون نہیں کرتا۔ یاد تو انھیں وہ لوگ بھی ہیں جو سماج کے حاشیوں پر سانس لیتے ہیں اور جنھیں عموماً نظر انداز کیا جاتا ہے ۔

ان کی کتھا کو پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ یہ ایک خدمت گزار بیٹی، تابعدار بیوی اور ذمے دار ماں کی کہانی ہے جو انھوں نے سادگی سے بیان کر دی ہے لیکن سادگی میں بھی فن کاری ہے، تہداری ہے۔ بین السطور بہت کچھ ہے۔ اب یہ پڑھنے اور سمجھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ کیا سمجھے اور کس بات سے آنکھیں چرا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔