علی سردار جعفری … شخصیت اور فن

رفیع الزمان زبیری  بدھ 10 جون 2015

عقیل عباس جعفری جنھوں نے ادیب، شاعر اور اپنے دور کے انقلابی رہنما علی سردار جعفری کی شخصیت اور فن پر ایک کتاب مرتب کر کے ابھی شایع کی ہے۔ ددھیال اور ننھیال دونوں طرف سے علی سردار کے قریبی عزیز ہیں۔ وہ اپنی کتاب کے حرفِ آغاز میں لکھتے ہیں ’’جب سے آنکھ کھولی گھر میں سردار جعفری کا نام سنا، بچپن ہی سے ان کی تحریریں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھی گئیں، بعد میں چند ادبی نشستوں اور مشاعروں میں رو بہ رو سننے کا موقع بھی ملا اور چند ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ ایک مشاعرے میں تو ان کے ساتھ کلام سنانے کا اعزاز بھی ملا جس کی آرزو مجھے ایک عمر سے تھی۔‘‘

عقیل عباس جعفری نے اس کتاب میں وہ تمام چیزیں جمع کر دی ہیں جن سے علی سردار جعفری کی متنوع شخصیت، ان کی شاعری اور ان کے افکار کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ کچھ اپنا تعارف تو سردار جعفری نے خود کرایا ہے، ان کی زندگی کا ابتدائی زمانہ، خاندانی ماحول، تعلیم، سوچ اور شاعری۔ اس سب کو انھوں نے خود بیان کیا ہے، باقی ان کے ہم عصر، ان کے ساتھی، تحریک کے رفقا نے ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ عقیل جعفری نے علی سردار کے لکھے کچھ مضامین اور ان کی شاعری کا کچھ انتخاب بھی اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔ ایک مختصر تحریر سردار جعفری کی بیوی سلطانہ کی بھی ہے۔ جنھوں نے ان کے ساتھ ایک بھرپور زندگی گزاری۔

علی سردار جعفری اپنی آپ بیتی کی ابتدا یوں کرتے ہیں ’’مجھے انسانی ہاتھ بہت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی جنبش میں ترنم ہے اور خاموشی میں شاعری ان کی انگلیوں سے تخلیق کی گنگا بہتی ہے‘‘ پھر کہتے ہیں ’’میں نے ہمیشہ قلم کو ہاتھوں کا تقدس، ذہن کی عظمت اور قلب انسانی کی وسعت سمجھا ہے اور قلم کے بنائے ہوئے ہر نقش کو سجدہ کیا ہے۔ اس لیے جب قلم جھوٹ بولتا ہے یا چوری کرتا ہے تو مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میرے ہاتھ گندے ہو گئے، میں ہر ادیب سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ اپنے قلم کا احترام کرے گا کیوں کہ اس کے نفس کی عزت اور شرافت اسی طرح قائم رہ سکتی ہے۔‘‘

شمالی ہند میں ہمالیہ کی ترائی کے دامن میں ایک چھوٹی سی مسلمان ریاست بلرام پور تھی، علی سردار جعفری کا خاندان یہاں آباد تھا۔ یہ بڑا ایمان دار، مذہب کا پابند اور پرہیزگار خاندان تھا۔ محرم بڑے جوش سے مناتے تھے، مجلسیں ہوتی تھیں، علی سردار لکھتے ہیں ’’میں نے اس عہد کے تمام بڑے ذاکروں کو سنا ہے اور تمام بڑے علما اور مجتہدین کے ہاتھوں کو بوسے دیے ہیں‘‘ یہ اس ماحول کا اثر تھا کہ پانچ چھ برس کی عمر سے وہ منبر پر بیٹھ کر سلام اور مرثیے پڑھنے لگے۔ پندرہ سولہ کی عمر میں خود مرثیے کہنے لگے، مرثیے کہنے کے ساتھ ساتھ علی سردار جعفری حدیث خوانی بھی کرتے تھے اس لیے روایات اور قرآن کی بہت سی آیات انھیں زبانی یاد ہو گئی تھیں۔ لکھتے ہیں ’’ان سب کا مجموعی اثر مجھ پر یہ تھا کہ حق اور صداقت کے لیے جان کی بازی لگا دینا، انسانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔‘‘

اس زمانے میں چند سوالات نے سردار جعفری کو بہت بے چین کیا اور پھر ان سوالات نے ان کی زندگی میں ایک بہت بڑا انقلاب پیدا کر دیا۔ لکھتے ہیں ’’مجھے اس سوال نے کبھی پریشان نہیں کیا کہ یہ دنیا کیوں ہے اور کہاں سے آئی ہے لیکن اس سوال نے ہمیشہ بے چین رکھا کہ یہ دنیا ایسی کیوں ہے؟ اس سوچ کی ابتدا میرے بچپن ہی میں ہو گئی تھی‘‘ سردار جعفری سوچتے تھے کہ یہ غریب، محتاج، ٹوٹے پھوٹے چہروں کے لوگ، دکھی دلوں کے مالک کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں؟ ان پر مظالم کیوں ہو رہے ہیں؟ اس پر کوئی احتجاج کیوں نہیں کرتا؟ اس ذہنی کیفیت میں وہ 1933ء میں علی گڑھ پہنچے، اس وقت ان کی عمر بیس سال تھی چونکہ انھوں نے ابتدائی چند سال عربی اور فارسی کی تعلیم میں گزارے تھے، پھر انگریزی اسکول میں داخلہ لیا تھا، اس لیے تعلیم کے اعتبار سے جب وہ انٹر میں تھے تو ان کے ہم عمر بی اے اور ایم اے کے طالب علم تھے۔

علی سرداری جعفری جس زمانے میں علی گڑھ پہنچے اس وقت ترقی پسند تحریک کے اولین نقوش بن رہے تھے اور ادب اور سیاست ایک ہو رہے تھے۔ اختر حسین رائے پوری، سبط حسن، حیات اﷲ انصاری، سعادت حسن منٹو، جان نثار اختر، آل احمد سرور سب وہاں کے طالب علم تھے بعد میں عصمت چغتائی اور جذبی بھی وہاں پہنچ گئے، مجاز سے بھی ان کی اسی زمانے میں ملاقات ہوئی تین سال وہاں گزارے تھے کہ حکومت کے خلاف طلبا کی ہڑتال میں شریک ہونے پر یونیورسٹی سے نکال دیے گئے، کچھ دن بعد لکھنؤ یونیورسٹی میں پہلے ایل ایل بی میں اور پھر ایم اے (انگلش) میں داخلہ لیا، اس وقت لکھنؤ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔

جنگ عظیم کے دوران ممبئی کمیونسٹ پارٹی کا مرکز بن گیا، سردار جعفری بھی پارٹی کے کل وقتی ممبر بن کر ممبئی چلے گئے اور وہاں پارٹی کے اخبار میں کام کرنے لگے۔ ترقی پسند تحریک کی سرگرمیاں بھی تیز ہو گئیں۔ ممبئی کے دوران قیام وہ دو مرتبہ گرفتار بھی ہوئے، وہیں ان کی سلطانہ سے شادی ہوئی دونوں کمیون میں رہتے تھے بڑی سادہ زندگی تھی۔ برصغیر میں ترقی پسند تحریک کے نظریے اور اس کے اغراض و مقاصد کو پھیلانے کی مہم میں سردار جعفری کا نہایت اہم حصہ ہے، صدیق رحمان قدوائی لکھتے ہیں۔ ’’کمیونسٹ پارٹی سے ان کے گہرے تعلق کی بنا پر وہ ان لوگوں میں تھے جنھوں نے اردو ادب میں ترقی پسند اور کمیونسٹ پارٹی کے درمیان رابطے مضبوط کیے اور پارٹی اور ادبی تحریک ایک دوسرے کے قریب آ گئیں۔‘‘

اپنی عمر میں علی سردار جعفری نے آزادی کے خواب دیکھے اور ان کو ٹوٹتا ہوا بھی دیکھا۔ اشتراکی انقلاب کی آرزو کے ساتھ سوویت یونین کا عروج و زوال بھی دیکھا۔ ترقی پسند تحریک کا ہندوستان کے ادبی منظر نامے پر حاوی ہونا دیکھا اور پھر نظریاتی بکھراؤ کے ساتھ اس کا وہ زور بھی ٹوٹتے دیکھا۔ بقول گوپی چند نارنگ تاریخی اعتبار سے کتنے ہی نشیب و فراز آئے لیکن سردار جعفری کے کمٹمنٹ میں کمی نہیں آئی۔ ان کی شاعری کی امتیازی اقدار انسان دوستی، حریت پسندی اور وطن پرستی تھیں۔ وہ عوام کے دکھ درد کے ترجمان اور سماجی انصاف کے علم بردار تھے۔

اپنی شاعری کے بارے میں علی سردار جعفری اپنے مضمون ’’میں اور میرا فن‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’میں شاعری کو بنیادی طور پر گانے کی چیز یا بلند آواز سے پڑھنے اور سنانے کی چیز سمجھتا ہوں، شاعری کے جوہر اس کے بغیر نہیں کھل سکتے، لیکن اس کے باوجود شاعری کو اس قابل ہونا چاہیے کہ کاغذ کے صفحے پر چھپ سکے اور خاموشی سے پڑھی جا سکے اور صدیوں کا سفر طے کر سکے لیکن کاغذ پر پڑھنے میں بھی الفاظ کا آہنگ اور لحن، تخلیق کا صوتی تلاطم اور ترنم روح کو محسوس ہوتا ہے، خاموشی سے پڑھنے میں بھی انسان کے دل و دماغ لفظ کی آواز کو سنتے ہیں۔ شاعری اس حد تک مقصود بالذات ہے کہ اس کی تخلیق میں کرب کے باوجود ایک لذت ہے اور یہ لذت شاعر کے لیے تسکین کا باعث ہے۔ شاعر کا موضوع زندگی کا کرب و نشاط ہے، انسانی دکھ اور سکھ میں میری شاعری میں محنت کش ہاتھوں کی قصیدہ خوانی ہے۔‘‘

علی سردار جعفری نے اپنی شاعری کی تخلیق میں جس کرب کا ذکر کیا ہے وہ ان کے ان تین شعروں میں عیاں ہیں، یہ شاعر کا مقدر ہے اور ہر شاعر کو اس سے گزرنا پڑتا ہے۔

ابھی ابھی میری بے خوابیوں نے دیکھی ہے
فضائے شب میں ستاروں کی آخری پرواز
خبر نہیں کہ اندھیرے کے دل کی دھڑکن ہے
یا آ رہی ہے اجالے کے پاؤں کی آواز
بتاؤں کیا تجھے نغمے کے درد کا عالم
لہو لہان ہوا جا رہا ہے سینۂ ساز

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔