گلگت بلتستان انتخابات؛ پورے پاکستان کے لئے مثال

ممتاز گوہر  بدھ 10 جون 2015
عوام کو جیسے ہی  موقع ملا تو کرپشن کرنے والوں کو نشان عبرت بنادیا، اُمید ہے نئی حکومت اِس غلطی کو نہیں دہرائے گی اور عوامی خدمت کو شعار بنائیں گے۔ فوٹو: فائل

عوام کو جیسے ہی موقع ملا تو کرپشن کرنے والوں کو نشان عبرت بنادیا، اُمید ہے نئی حکومت اِس غلطی کو نہیں دہرائے گی اور عوامی خدمت کو شعار بنائیں گے۔ فوٹو: فائل

8 جون کو گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے 24 عام نشستوں کے لئے ہونے والے انتخابات چند خوشگوار اور سبق آموز واقعات بھی نقش کرگئے۔ سب سے پہلی بات یہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی علاقے میں ہونے والے سب سے پر امن انتخابات تھے. عوام پرامن طریقے سے پولنگ سٹیشنوں میں آئے، قطار میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کیا، اپنے پسندیدہ امیدوار کے حق میں رائے دہی استعمال کیا اور واپس ہو گئے.

ساتھ ساتھ  پولنگ کے دوران، ووٹوں کی گنتی کے دوران یا پھر نتائج کے اعلان کے بعد بھی کسی بھی امیدوار یا سیاسی پارٹیوں کی طرف سے دھاندلی کے الزامات سامنے نہیں آئے۔ سب نے نتایج کو کھلے دل سے تسلیم کر لیا۔ نہ دھرنوں کا اعلان ہوا، جلوسوں کا اور نہ ہی نتایج کو چلینج کرنے کی بات کی گئی۔ کچھ حلقوں میں اُمیدوار بھاری مارجن سے کامیاب ہوئے تو کچھ حلقے ایسے بھی تھے جہاں چند ووٹوں نے کسی کو گھر کا اور کسی کو اسمبلی کا راستہ دکھا دیا گیا۔ اِس انتخاب کی تیسری بات جو سب سے دلچسپ اور اہم رہی سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی شکست تھی۔

گزشتہ انتخابات میں عوام نے پیپلزپارٹی پر مکمل اعتماد کیا تھا اور اِس یقین کے ساتھ اسمبلی بھیجا تھا کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی کام کرے گی لیکن بدقسمتی سے سابقہ حکومت اور ممبران اسمبلی نے سرکاری نوکریوں کی خرید و فروخت، رشوت خوری، اقرباپروری، بدعنوانی اور بیڈ گورننس کی نئی مثالیں قائم کردیں تھی۔ پھر جب جیسے ہی عوام کو دوبارہ اپنے نمائندوں کے انتخاب کا حق ملا اُنہوں نے نہ صرف انہیں نشان عبرت بنا دیا بلکہ نو منتخب ممبران اسمبلی کو بھی یہ سخت پیغام دیا ہے کہ یہ عوام آپکی پانچ سالہ کارکردگی پر نظر رکھے گی اور یہ بات ذہن میں رکھ کر اقتدار کے مزے لیں کہ اگر آپ نے بھی عوام کے لیے کام نہیں کیا تو پھر آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے گا، درحقیقت یہی جمہورت کا حسن ہے۔

گلگت بلتستان قانون ساز اسبملی کے عام انتخابات کے لئے کل رجسٹر ووٹرز کی تعداد 6 لاکھ 18 ہزار 3 سو 64 تھی۔ جن میں خواتین ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 88 ہزار 8 سو 89 جبکہ مرد ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 29 ہزار 4 سو 75 تھی۔ 268 اُمیدواروں نے قسمت آزمائی کی اور پورے گلگت بلتستان میں 1143 پولنگ اسٹیشنز قائم کئے گئے تھے جن میں سے 282 حساس قرار دیے گئے تھے۔ مجموعی طور پر ٹرن آوٹ 50 فیصد سے زائد رہا۔ اگر یہ کہا جائے کہ انتخابات کے پرامن اور شفاف انعقاد میں نگراں حکومت، جی بی انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کے ساتھ پاک فوج کا کردار انتہائی شاندار رہا، تو یہ ہرگز غلط نہ ہوگا۔

دوسری طرف الیکشن جیت لینا کامیابی نہیں بلکہ فتح تو اصل امتحان کی طرف ایک قدم ہے۔ اصل امتحان تو نئی حکومت کا اب ہوگا۔ کیونکہ تمام تر مسائل کے باوجود اُن کو عوام کی خدمت کرنی ہے، کیونکہ صرف یہ کہنے سے کام نہیں چلے گا کہ سارے مسائل پچھلی حکومت کے کیے ہوئے ہیں بلکہ تمام تر مسائل کے باوجود عملی طور پر عوامی خدمت کرنی ہوگی۔ اگر وہ ایسا کرگئے تو درحقیقت یہی اصل فتح ہوگی۔ ایک بات جو ہمارے حکمرانوں کو ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ سیاست اصل میں ایک عوامی امانت ہے، اس میں خیانت یا کوتاہی کو ہوسکتا ہے انسان تو معاف کردے مگر ان انسانوں کا رب اپنی مخلوق سے نہ انصافی کرنے والوں کو با آسانی نہیں بخش سکتا۔

اِس لیے اب کامیابی کے بعد نو منتخب ممبران اسمبلی کا امتحان بھی شروع ہو چکا ہے، ان کے پاس دو راستے ہیں۔ ایک وہی راستہ ہے جس پر سابقہ ممبران اسمبلی نے اپنے پانچ سال کا دورانیہ گزارا۔ یعنی کرپشن، لوٹ مار اور بدعنوانی کی سرپرستی کریں اور دوسرا راستہ ہے عوام میں رہیں، عوام کے حقیقی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوششیں کریں، میریٹ اور انصاف کو اپنا شعار بنایئں۔ اسمبلی کو ربڑ اسٹمپ کے بجائے اسکے اصل روح کے مطابق کام کرنے والا ادارہ بنایئں اور یوں اگر پانچ سال گزاریں اور دوبارہ عوام کے پاس جایئں گے تو یقیناً اُن کو اگلے انتخابات میں شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔