بھارتی قلمکاروں کے ساتھ مکالمہ

مقتدا منصور  جمعرات 18 جون 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ دنوں دو بھارتی قلمکار وبھوتی نارائن رائے اورشریمتی وندھنا مشرا پاکستان آئے ہوئے تھے۔ انھوں نے ایک ایسے وقت پاکستان کا دورہ کیا، جب پاکستان اور بھارت کے درمیان جملوں کی جنگ اپنی شدت کو پہنچی ہوئی تھی۔ مگر جو لوگ امن، شانتی اور اہنساکے لیے کام کرتے ہیں، اس قسم کی تلخیاں ان کے پاؤں کی زنجیر نہیں بنتیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دونوں ممالک کے نقارخانوں سے بلند ہونے والی نفرتوں بھری آوازوں کے بیچ امن کی دعوت دینے والی طوطیوں کی آوازیں بھی ہماری سماعتوں تک پہنچتی رہتی ہیں۔ یہ آوازیں نحیف و ناتواں ضرور ہیں، لیکن بقول علامہ اقبال پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہیں۔ سرحد کے دونوں جانب سے ابھرنے والی انھی آوازوں میں وبھوتی نارائن رائے اور وندھانا مشرا کی پر اعتماد آوازیں بھی شامل ہیں۔

وندھنا مشرا شاعرہ ہونے کے علاوہ حقوق انسانی کی سرگرم کارکن ہیں۔ وہ پیپلز یونین برائے سول لبرٹیز کی جنرل سیکریٹری ہیں۔ خواتین اوربچوں کے علاوہ اقلیتوں کے حقوق کے لیے بھی مسلسل آواز اٹھا رہی ہیں۔ وہ سچائی اور حقائق کی بالادستی پر یقین رکھتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کشمیر میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر کئی دہائیوں سے مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کشمیری خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھی خاصی متحرک ہیں۔ وہ آج بھی پرامید ہیں کہ اس خطے کے حکمران بالآخر پر امن بقائے باہمی کی اہمیت کو سمجھنے اور اس پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کرنے پر ایک نہ ایک دن ضرور مجبور ہوجائیں گے۔

وبھوتی نارائن رائے کمیونل نفرتوں میں انتہاء رکھنے والے صوبے اتر پردیش(UP) کے شہر جون پور میں پیدا ہوئے۔ انگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے بعد انڈین پولیس سروس(IPS)میں طویل عرصہ گذارا۔ پولیس میں اپنی اعلیٰ ترین کارکردگی کے باعث اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچے۔ ان کی علمی اور انتظامی خدمات کے صلے میں انھیں مہاتما گاندھی یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ لیکن ان کی شہرت کا اصل سبب وہ پانچ ناول ہیں، جن میں انھوں نے سلگتے عوامی مسائل کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔

جن میں گھر، شہر میں کرفیو، قصہ لوک تانترا، تبادلہ اور پریم کی بھوت کتھا شامل ہیں۔ ان کا ناول’’ شہر میں کرفیو‘‘  پولیس کے محکمے میں پائے جانے والے کمیونل رجحانات کا بڑی بے دردی سے پردہ چاک کرتا ہے۔ یہ ناول1980 کے عشرے میں الہ آباد میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے پس منظر میں لکھا گیا۔ اس ناول کا اب تک کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکاہے۔ اس کے علاوہ پولیس میں ملازمت کے دوران انھوں نے محکمے میں موجود کمیونل سوچ اور طرز عمل کے خاتمہ کے لیے بھی انتھک کوششیں کی ہیں۔

انسان کے فکری رجحانات اگر پختہ ہوں تو اطراف کا ماحول اس کا کچھ نہیں بگاڑتا۔ یہی سبب ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف گو انتہائی قلیل تعداد ہی میں سہی، ایسے ذی شعور اور وسیع الذہن اہل دانش، متوشش شہری اور سیاسی کارکن پائے جاتے ہیں، جو کمیونل، فرقہ وارانہ اور نسلی و لسانی عصبیتوں کے خلاف سینہ سپر ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی اکثریت کی سوچ روایتی طور پر صرف اپنے مفادات کے دائرے میں گھومتی ہے اور وہ ان ذمے داریوں کا ادراک و احساس کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتی ہے۔

جس کا ان کا عہدہ اور شعبہ ان سے متقاضی ہوتا ہے ، لیکن چند برس قبل تک دونوں ملکوں میں ایسے سول سرونٹس بھی پائے جاتے تھے ، جنہوں نے دوران ملازمت نوآبادیاتی آقا بننے کے بجائے عوامی خدمت کو اپنا شعار بنایا اور اپنے اداروں میں مثبت اصلاحات لانے کی بھی سرتوڑ کوششیں کیں۔ ہوسکتا ہے کہ آج بھی کچھ ایسے سول سرونٹس ہوں، جو دردمندی اور اخلاص کے ساتھ اپنی ذمے داریاں ادا کررہے ہوں۔ وبھوتی نارائن رائے ایک ایسے ہی سول سرونٹ رہے ہیں، جنہوں نے عوامی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ انھوں نے برصغیر کی 68برس کی کمیونل تاریخ کا جس بے لاگ انداز میںانتہائی غیر جانبداری اور معروضیت کے ساتھ محض نصف گھنٹے میںاحاطہ کیا،اس سے ان کے گہرے مطالعہ، باریک بین مشاہدے اور فکری بالیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔

ان دونوں قلمکاروں سے گفتگو سے یہ اندازہ بھی ہوا کہ دونوں ملکوں میں انداز حکمرانی بھی ایک جیسا ہے۔ خاص طور پر بیوروکریسی کے طرز عمل پر نو آبادیاتی رنگ آج بھی غالب ہے، جو اس کے مزاج اور رویوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ البتہ ایک بنیادی فرق جس کا بارہا اظہار کیا جاچکا ہے، وہ یہ کہ وہاں سیاسی عمل بغیر کسی رکاوٹ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں جمہوری ادارے 68برس میں پھل پھول کر توانا ہوچکے ہیں۔

یہ ادارے ہر غیر جمہوری اقدام کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار بن چکے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں جمہوری عمل ہر چند برس بعد کسی نہ کسی جھٹکے کا شکار ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے جمہوری ادارے نہ صحیح طور پر تشکیل پاسکے اور نہ ہی انھیں وہ طاقت اور توانائی حاصل ہوسکی، جو جمہوری عمل کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ جہاں تک بھارت میں جمہوری عمل کے تسلسل کا تعلق ہے،تو اس بارے میں وبھوتی نارائن رائے کا کہنا تھا کہ بھارت کو اس کے اولین قائدین کی بصیرت اور دوراندیشی کے باعث ایک جمہوری و سیکیولر آئین مل گیا۔ اگر یہ آئین تشکیل نہ پاتا تو بھارت پہلی ہی دہائی میں اندرونی تضادات کا شکار ہوکر بکھر چکا ہوتا۔

رائے جی نے برملا اس بات کا اقرار کیا کہ 1940 میں قرارداد لاہور کی منظور ی کے بعد انڈین نیشنل کانگریس کے ایک بہت بڑے حلقے میں یہ سوچ  اور رائے بن گئی تھی کہ جب مسلمان ہندوستان کو توڑ کر ایک مسلم ریاست بنانے پر اصرار کر رہے ہیں، تو ہم بھی آزادی کے بعد ہندوستان کو ایک ہندو ریاست بنائیں۔ مگر پنڈت جواہر لعل نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد بھارت کو سیکولر جمہوریہ بنانے تہیہ کرچکے تھے۔

ان دونوں اکابرین کا پختہ یقین تھا کہ بھارت کی بقاء صرف سیکولر نظام سے مشروط ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں درجنوں عقائد، اتنی ہی تعداد میں وسیع ادبی ذخیرہ رکھنے والی زبانیں اور طویل تاریخی پس منظر رکھنے والی ثقافتیں ہوں، وہاں اکثریت کے عقائد نہیں سیکولر جمہوریت ہی ملک کو متحد رکھنے کا سبب بنتی ہے ۔ اس لیے بھارت کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے ان دونوں اکابرین نے پوری شدت کے ساتھ نہ صرف سیکولر نظام کی وکالت کی، بلکہ اسے نافذ اور جاری رکھنے کے لیے عملی اقدامات بھی کیے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارتی معاشرہ صدیوں کے مذہبی اثرات کے باعث ابھی تک حقیقی معنی میں سیکولر نہیں بن سکا ہے۔

وبھوتی نارائن رائے کا یہ بھی ماننا تھا کہ BJP میں موجودRSS اور شیوسینا اور خود نریندر مودی کا اپنا شدت پسندانہ مزاج بھارت کے وجود کے لیے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔ وہ دانستہ اقلیتوں کو تنگ کر رہے ہیں اور ہندو اکثریت کو ہندوتوا کے نام پر بے وقوف بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لیکن ان کے خیال میںBJPاپنے اس مشن میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔کیونکہ اسے ملنے والے حالیہ ووٹ کا سبب اس کا ہندوتوا کا نعرہ نہیں، بلکہ نریندر مودی کی وہ معاشی پالیسیاں ہیں، جو ان کے14سالہ وزارت اعلیٰ کے دوران صوبہ گجرات کی خوشحالی کا سبب بنی ہیں۔ دوسرے ریاستی ادارے بالخصوص عدلیہ ، ذرایع ابلاغ اور سول سوسائٹی 68 برسوں کے دوران اس قدر مضبوط اور مستحکم ہوچکے ہیں کہ وہ سیکولر ازم کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنا نے کے لیے مستعد ہیں۔

اگر اس تناظر میں بانیانِ پاکستان کے تصور ریاست کا جائزہ لیں، تو بابائے قوم بھی اس حقیقت کو سمجھتے تھے کہ مذہب کی بنیاد پر عوام کو زیادہ عرصہ اکٹھے رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ یہی سبب تھا کہ انھوں نے قیام پاکستان سے تین روز قبل دستورساز اسمبلی کو آئین سازی کے بارے میں رہنماء اصول سمجھانے کی کوشش کی۔ لیکن سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی مرحوم سمیت بعض سول سرونٹس اس ملک کو تھیوکریٹک ریاست میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔اسی لیے بانی پاکستان کی آنکھ بند ہوتے ہی قرارداد مقاصد دستورساز اسمبلی سے منظور کرا کے پاکستان کے لیے مشکلات کا آغازکر دیا گیا۔ آج پاکستان جن مسائل و مصائب کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے اور بدترین دہشت گردی کا شکار ہے۔ اس کے بے شمار اسباب میں سے ایک اہم سبب قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنانے سے دوسری آئینی ترمیم تک وہ تمام اقدامات ہیں، جن کی وجہ سے مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کو پھلنے پھولنے کاموقع ملا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والے معاملات و مسائل کے حل کے لیے عوام کا عوام سے رابطہ ضروری ہے تاکہ ذہنوں میں بیٹھی غلط فہمیاں دور ہو سکیں اور معاملات و مسائل کو جنگ وجدل کے بجائے دلیل کی بنیاد پر مکالمے کے ذریعے طے کیا جا سکے۔ گزشتہ68برسوں کے دوران دونوں ممالک نے جنگجویانہ ذہنیت اور شدت پسندانہ رجحانات کو فروغ دے کر کچھ حاصل نہیں کیا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اب کشمیر، سرکریک اور سیاچن سمیت تمام حساس اور نزاعی تنازعات کو ڈائیلاگ کے ذریعے طے کرنے پر توجہ دی جائے۔ تاکہ قومی وسائل کا بڑا حصہ دفاع کے بجائے سماجی ترقی پر خرچ ہوسکے۔ ان دونوں قلمکاروں سے ملاقات کا اہتمام حقوق انسانی کمیشن(HRCP)نے کیا تھا، جس کے لیے ان کے شکر گذار ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔