’’اردو ہے جس کا نام‘‘

زید عفان  جمعـء 19 جون 2015
جو رحجان اب ہمارے اندر پیدا ہوتا جارہا ہے اس کے بعد لگتا یہ ہے کہ اب یہ لشکر (زبان اردو) تتر بتر ہوجائے گا.

جو رحجان اب ہمارے اندر پیدا ہوتا جارہا ہے اس کے بعد لگتا یہ ہے کہ اب یہ لشکر (زبان اردو) تتر بتر ہوجائے گا.

 ’ارے واہ اعلیٰ لکھ دیا یار‘ ۔۔۔ ’کمال‘ ’’لاجواب‘ ’بہت شاندار لکھا ہے۔۔۔ کس قدر با مقصد ہے۔۔۔!‘

ہمیشہ کی طرح حماقت ۔۔۔ پڑھتے جاؤ اور سر دھنتے جاؤ ۔۔۔ احمقانہ تحریر پر انتہائی عقلمندانہ تبصرے پڑھ کر کیا مزہ آتا ہے؟ دل چاہتا ہے خوشی سے کوئی ایک کبوتر ہی آزاد کردوں مگر ڈرتا ہوں کہ بھارت اِدھر سے بہت قریب ہے۔۔۔ ارے لکھنا کونسا مشکل ہے اگر کی پیڈ پر ہاتھ سیٹ ہو ۔۔ سیٹ ہونے سے کوئی غلط مطلب نہ لیجیے گا۔۔ احمق ضرور ہوں۔۔ عقل کا کوئی کام سرزد ہونا محال ہے۔۔۔ مجال ہے کہ ایسے کام میں ہاتھ ڈالوں جو محال ہو۔۔۔ سیٹ تو آج تک مجھ سے مرغی بھی نہ ہوئی۔۔ روز بس ایک انڈہ ـــ! یہ کیا شروع کردیا۔۔لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔۔۔!

’کیا لکھتے ہو بھائی۔۔۔!‘، بھائی کا تبصرہ پڑھ کر میں نے اطمینان سے لکھا۔۔۔ ’اردو !‘ ہمارے ہاں اردو کو نئے سرے سے ترویج دینی پڑے گی۔۔ ورنہ یہ لشکری زبان ہے سب ہضم کرجائے گی اور سرکاری ڈکار مارے گی ۔۔۔ پھر ہمیں مجبوراً حروف تہجی کم کرنا پڑیں گے۔۔۔ جب سے یہ رومن اردو ایجاد ہوئی۔۔۔ رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی۔۔ اردو پورے 26 حروف میں ہی سمٹ گئی۔۔ مجھ جیسے احمق ’ز‘ کو ’ذ‘، ’ہ‘ کو ’ح‘ ، ’س‘ کو ’ث‘ ، ’ت‘ کو ’ط‘ اور اِس کے برعکس لکھتے ہیں۔۔ پڑھنے والے کہتے ہیں۔۔ ‘واہ۔۔۔ واہ ـــ!’ پڑھنے والا تو خوش۔۔۔ اور لکھنے والا ہواؤوں میں اڑنے لگتا ہے۔۔ ہے نا نری حماقت ۔۔۔ نہیں؟ ’نہ‘ ، ’نا‘ اور ’ناں‘ زلفِ یار میں ایسے الجھ جاتے ہیں کہ ہاں کرتے بنتی ہے نہ ، نہ ۤـــ! دل لبھانے کو بندہ ’ناں‘ کہتا ہے۔۔۔ ’سنو ناں۔۔۔!‘، مگر توڑے جاؤ اردو کی ٹانگیں۔۔ لشکری ہی ٹہری۔۔ ٹوٹ پھوٹ کر پھر نئی بن جائے گی۔۔۔ اس لیے کچھ ’نہ‘ سنو۔۔ کبھی ’نہ‘ سنو۔۔۔ پھر بعد میں کہنا۔۔ اچھا ’نا‘ سوری۔۔۔!

ذندگی کو ’ذ‘ سے لکھ کر، زندگی کو جیتے جی مارڈالا۔۔۔ ہائے ظالم ـــ! اتمینان ’ت‘ سے لکھا اچھا لگتا ہے۔۔۔ نہیں؟ میں تو ماخوذ میں ’ز‘ لکھتا رہا ہوں۔۔ احمق جو ٹہرا۔۔۔۔ـ!

احمق کو مزید ہوا دیتا ہے۔۔۔ یا یوں کہیے کہ جلتی پر تیل چھڑکتا ہے۔۔ بلکہ خود کش دھماکہ ہوتا ہے جب بندہ اردو میں لکھنے بیٹھے اور اس کے سامنے انگریزی الفاظ کا ڈھیر پڑا ہو۔۔۔ مثال بڑی گندی ہے مگر کچرے کے ڈھیر سے صاف کھانا چننا بڑی تکلیف دیتا ہے۔۔۔ اب آپ فتوی لگادیں کیوں کہ انگریزی کو برا کہہ دیا ہے۔۔ آپس کی بات ہے انگریز ہمیں دو چیزیں سکھا گئے۔۔۔ ایک لفظ غلامی (جو ہم میں سرائیت کر چکا ہےــ!) اور دوسرا لفظ سوری۔۔۔ میں بھی لکھ دیتا ہوں۔۔ ’اچھا سوری۔۔۔!‘

بات یہ ہے کہ احمق چاہے جتنا پڑھ لکھ لے۔۔۔ وہ خواب اپنی مادری زبان میں ہی دیکھتا ہے۔۔ اور تخیل کی پرواز اوجِ ثریا تک مادری زبان میں ہی ہوتی ہے۔۔۔ انسان جب لاشعور سے اچانک شعور کی کیفیت میں منتقل ہوتا ہے تو چاہے لاکھ منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بولتا ہو مگر بے ساختہ منہ سے وہی زبان نکلتی ہے۔۔۔ آہ۔۔۔ !

ابنِ مریم ہوا کرے کوئی میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

انگریز زبان کو ناخدا کرکے انگریزی آتی ہے اور نہ اردو۔۔۔ محاورہ تو یہ ہے کہ آدھا تیتر، آدھا بٹیر۔۔ مگر حماقت میں ہم کوئی تیسری چیز ہی بن گئے ہیں۔۔ تیتر اور بٹیر دونوں سے پوچھ لیں بیشک۔۔ دونوں کہیں گے احمق ہو ۔۔۔۔!

زیادہ زبانیں سیکھنا تو اچھا ہے۔۔ مگر اتنا بھی اچھا نہیں کہ بندہ اپنی زبان سے بے بہرا ہوجائے۔۔ نہ لکھ سکے نہ پڑھ سکے۔۔۔ اردو لکھتے پڑھتے ’کنفیوژن‘ کا شکار ہوجائے۔۔ حق ہا۔۔۔ اب کیا کروں جس قسم کی کنفیوژن مجھے ہوگئی ہے اس کے معنی ’الجھن‘ میں پوشیدہ نہیں ہیں۔۔۔ وقت کے وقت کے ساتھ ساتھ اردو میں بگاڑ ہی پیدا ہوتا جارہا ہے۔۔ ایک طرف ہمارا احمقانہ پن اور دوسری طرف اردو میں نئے ادبی الفاظ کی شمولیت کا شدید فقدان ہے۔۔۔ پچھلی دہائی میں اردو بے چاری شرماتی لہراتی اور بل کھاتی چلتی رہی ہے۔۔۔ اگلی دہائی کا تصور کرکے لگتا ہے کاندھوں پر ہی ہوگی۔۔۔ !

جو رحجان اب ہمارے اندر پیدا ہوتا جارہا ہے اس کے بعد لگتا یہ ہے کہ اب یہ لشکر (زبان اردو) تتر بتر ہوجائے گا ۔۔۔ اور ہم اپنی اگلی نسل کو جب عجائب خانوں میں بغرضِ سیر و تفریح لے جائیں گے تو انھیں بتائیں گے۔۔۔ ’بیٹا یہ عبرانی زبان کے نسخے ہیں۔۔۔‘ ، ’بیٹا یہ سانسکریت زبان ہے جو اب متروک ہو چکی۔۔۔‘ اور۔۔۔ شرماتے ہوئے ، سر کجھاتے ہوئے اور نظریں چراتے ہوئے کہیں گے۔۔ ’یہ ہماری مادری زبان تھی۔۔ اردوـــ!‘

داغ صاحب سے معذرت۔۔۔ مگر اب حالات ایسے ہیں کہ ان کا شعر مجبورا تبدیل کردیا۔۔۔ حال کو ماضی کے صیغے سے بدلنا پڑا۔۔۔۔

اردو ’تھا‘ جس کا نام ہمیں جانتے ’تھے‘ داغ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ’تھی‘

کیا آپ بھی اُردو لکھتے ہوئے ایسی ہی غلطیاں کرتے ہیں جس کا بلاگ میں ذکر کیا گیا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

زید عفان

زید عفان

لکھاری سول انجئنیر ہیں۔ این ای ڈی یونیورسٹی کراچی سے فارغ شدہ۔ رفاح اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں سائٹ انجئنیر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ کرکٹ اور سیاست میں دلچسپی ہے جبکہ لکھنے لکھانے کا شوق بھی بچپن سے ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔