800 سالہ سالگرہ

زاہدہ حنا  اتوار 21 جون 2015
zahedahina@gmail.com

[email protected]

اب سے 800 برس پہلے برطانیہ کے وہ 40 امراء جو لندن کے مغربی حصے میں سبزہ زار پر جمع تھے اور دریائے ٹیمز کی لہروں کی گنگناہٹ سن رہے تھے، ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ ان کے دباؤ پر ایک ایسا واقعہ ظہور پذیر ہو رہا ہے جو صرف برطانیہ ہی نہیں‘ بلکہ مستقبل کی دنیا کے بیشتر جمہوریت پسند ملکوں کی تقدیر پر اثر انداز ہو گا۔

اب سے 800 برس پہلے انگلستان کے ان نوابوں کو اپنے بادشاہ جون سے شدید اختلافات تھے۔ وہ اس کا تختہ الٹ سکتے تھے، اسے قتل کر کے شاہی خاندان کے کسی دوسرے فرد کو تخت نشین کر سکتے تھے لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب نوابوں کے محلات اور عوامی شراب خانوں میں آئین اور قانون کی حکمرانی پر بحث شروع ہو چکی تھی۔ اشرافیہ اس کی خواہش مند تھی کہ بادشاہ انھیں اپنا چاکر یا غلام نہ سمجھے۔ اسی طرح مزدور، کسان اور گاڑی بان سب ہی یہ چاہتے تھے کہ انھیں انسان سمجھا جائے اور ان کی کھال کھینچنے یا ان کے گھر والوں کو بندھوا غلام سمجھنے کا رویہ ترک کیا جائے۔

انگریز بنیادی طور پر ملاح اور سیاح تھے۔ سمندر سے ان کا پرانا رشتہ تھا۔ وہ سامان تجارت لے کر دور دراز کی سرزمینوں کو جاتے اور وہاں سے جو سامان لاتے، اس کے ساتھ ہی نئے خیالات کا توشہ بھی لاتے۔ یہی وجہ تھی کہ برطانوی نوابوں نے اپنے مطلق العنان بادشاہ کو قتل کرنے سے گریز کیا۔

ماضی کی بغاوتوں سے وہ یہ سمجھ چکے تھے کہ بادشاہ کا قتل اس مسئلے کا حل نہیں۔ انھوں نے ایک دستاویز تحریر کی جس کی 63 شقیں تھیں اور پھر یہ دستاویز بادشاہ جون کے سامنے رکھ دی۔ یہ دستاویز اسے پڑھ کر سنا دی گئی کیونکہ وہ پڑھا لکھا نہ تھا۔ بادشاہ اس کی شقوں سے متفق نہ تھا کیونکہ یہ اس کے حق حکمرانی کو محدود کرتی تھیں۔

وہ شاید اس دستاویز پر شاہی مہر ثبت کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا لیکن بغاوت اس کے سر پر تُلی کھڑی تھی جس کا نتیجہ اسے اپنے قتل کی صورت میں دکھائی دے رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 15 جون 1215ء کو دریائے ٹیمز کے کنارے وہ اس دستاویز پر شاہی مہر لگانے کی ’’درخواست‘‘ کو رد نہ کر سکا۔ اس طرح انگلستان میں اس دور کا آغاز ہوا جس میں قانون کی حکمرانی کو تسلیم کرنا، شاہ وقت کی مجبوری بن گیا۔ میثاقِ اعظم کی اس دستاویز نے برطانوی عوام اور ملکی نظم و نسق پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

ابتدائی برسوں کے دوران اس میثاق میں کچھ تبدیلیاں بھی کی گئیں لیکن ان تبدیلیوں کے باوجود یہ میثاق برطانوی خواص اور ان سے کہیں زیادہ عوام کے ذہنوں پر نقش ہو گیا۔ دور دراز کا کوئی گاؤں ہو یا قصبہ اور شہر، عدالتوں میں اس کے حوالے دئے جاتے رہے اور سمندر پار ملکوں نے بھی اس سے استفادہ کیا۔

اس بارے میں جون ہڈسن نے ڈیلی انڈین ایکسپریس میں لکھا:

’’میگنا کارٹا کی دستاویز چند دنوں پہلے 800 برس کی ہوئی ہے۔ اس کی سالگرہ کی تقریب اسی جگہ منائی گئی جہاں اس تاریخی دستاویز پر بادشاہ جون نے  بہ امرِ مجبوری ہی سہی، اپنی شاہی مہر ثبت کی تھی اور اپنے بہت سے حقوق سے دستبردار ہونے میں ہی عافیت خیال کی تھی۔‘‘

15 جون 2015ء کو جب ملکہ الزبتھ دوم نے میگنا کارٹا کی 800 سالہ تقریبات میں شرکت کی تو برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ جس سبزہ زار پر ہم کھڑے ہیں وہاں 800 برس پہلے جس میثاق اعظم پر شاہی مہر ثبت کی گئی تھی، وہ آج بھی اپنی پائیدار حیثیت رکھتا ہے اور اس کے اثرات برطانوی سر زمین سے آگے نکل کر دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔

اس موقعے پر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ اس دستاویز نے صدیوں بعد امریکا کے بنیاد گزاروں، ہندوستان کے مہاتما گاندھی اور جنوبی افریقا کے نیلسن منڈیلا کی سوچ کو متاثر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دستاویز کی روشنائی وقت کے ساتھ دھندلا گئی ہے لیکن اس کے اصول آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتے ہیں۔

انسانی تاریخ میں ’’آزادی کی عظیم دستاویز‘‘ میگنا کارٹا کی اصل طاقت اس کی دیومالائی حیثیت ہے۔ دنیا میں جتنی بھی مشہور دیومالائی سیاسی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں، ان میں میگنا کارٹا کو دیومالائی کے ساتھ ہی تاریخی اہمیت بھی حاصل ہے۔ یہ دستاویز قانون کی حکمرانی کے وعدے کے ساتھ جون 1215ء میں جاری کی گئی۔

انگلینڈ کے بادشاہ نے منظوری دیتے وقت یہ اعلان کیا: ’’کسی شخص کو حق یا انصاف دینے سے انکار نہ ہو گا، نہ اس میں تاخیر ہو گی۔‘‘ میگنا کا رٹا کے ذریعے بادشاہ کو من مانی کارروائیوں سے روکا گیا  ’’کسی آزاد شہری کو حراست میں نہیں لیا جائے گا، نہ اس کی جائیداد ضبط ہو گی، نہ وہ جلا وطن کیا جائے گا، نہ مجرم قرار دیا جائے گا۔

ماسوائے یہ کہ اشراف جائز قانونی فیصلے یا رائج الوقت قانون کے مطابق ایسا قرار دیں‘‘۔ میگنا کارٹا میں کیے گئے تمام وعدے برطانوی قوانین کا آج بھی حصہ ہیں۔ میگناکارٹا کی آٹھ سو سالہ تقریبات کا جواز اس میں درج قوانین کے ذریعے انسانی حقوق کا استحکام ہے۔ میگناکارٹا کی یہی پائیداری ہے جس کی بنا پر 15 جون 2015ء  کو اس کی 800 سالہ سالگرہ منائی گئی۔

ساڑھے تین ہزار الفاظ اور 63 شقوں پر مشتمل یہ دستاویز لاطینی زبان میں تحریر کی گئی تھی۔ جس  سے لاطینی کے چند علماء کے سوا کوئی واقف نہ تھا لیکن آج بھی اس کی روح برطانیہ، امریکا، پاکستان، ہندوستان اور دوسرے کئی ملکوں کے آئین میں سانس لیتی ہے۔ برطانوی جج لارڈ ڈیننگ کے مطابق یہ ایک ایسی آئینی دستاویز ہے جو فرد کی آزادی کی بنیاد ہے اور آمرانِ مطلق کی آمریت پر خطِ تنسیخ کھینچتی ہے۔ اس سیاسی دستاویز کے اثرات اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے عالمی منشور، امریکی آئین اور حقوق کے قانون پر واضح طور سے نظر آتے ہیں۔ اس دستاویز کی 3 دفعات اس وقت بھی برطانوی آئین کا حصہ ہیں۔

جون ہڈسن نے انڈین ایکسپریس میں لکھا کہ 1884ء میں امریکی سپریم کورٹ نے برطانیہ کے پارلیمانی نظام کا موازنہ امریکی آئین سے کرتے ہوئے فیصلے میں لکھا ، ’’اس ملک میں لوگوں کے حقوق اور آزادی کے تحفظ کے لیے تحریری آئین ضروری خیال کیا گیا اور میگناکار ٹا کے نکات، بل آف رائٹس میں شامل کیے گئے‘‘۔

امریکی سپریم کورٹ غیر قانونی گرفتاریوں، عدالتی کارروائی کے بغیر حراست میں رکھنے کے عمل کی روک تھام میگناکارٹا کے حوالے سے کرتی ہے۔ اپریل 2004ء میں جسٹس سٹیفن پریئر نے میگناکارٹا کی بنیاد پر گوانتاناموبے کے قیدیوں کے ’’قانون کے دائرے‘‘ میں لانے کے حق کی بات کی۔

ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل 21 کی اصل میگنا کارٹا ہے جس کے مطابق ’’شہریوں کو شخصی آزادی اور زندگی کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ۔‘‘ یوں میگناکارٹا دنیا میں شخصی آزادی کے تحفظ کا قانون بن چکا ہے۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں منائی جانے والی سالگرہ کی یہ تقریبات انگریز قانون دان ٹام بنگھم کے ان الفاظ کی تائید کرتی ہیں کہ میگناکارٹا ’’دنیاکی سب سے زیادہ بااثر سیکولر دستاویز ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے۔‘‘

لاطینی زبان میں لکھی گئی 3500 لفظوں پر مشتمل اس دستاویز کو بادشاہ پڑھ نہیں سکتا تھا، نہ وہ اس پر دستخط کر سکتا تھا۔ اسی لیے اس نے صرف شاہی مہر ثبت کرنے پر اکتفا کیا۔ یہ دستاویز برطانوی زندگی پر جس طرح اثر انداز ہوئی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی امراء اور تاجر وں نے اپنے لوگوں میں تعلیم عام کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اس مقصد کے لیے خطیر رقوم فراہم کیں۔1249ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی کالج کی بنیاد پڑتی ہے۔

تاجر اور کاروباری افراد کی سیاست میں شراکت کے لیے 1258ء میں پہلی مرتبہ برطانیہ میں دارالعوام قائم ہوتا ہے۔ برطانوی سماج کو اب تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت ہے‘ اسی لیے 1263 ء میں آکسفورڈ کے بیلی اول کالج کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور صرف ایک برس بعد 1264ء میں آکسفورڈ میں میرٹون کالج قائم ہوتا ہے۔ 1310ء میں انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ دوم کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ انگلستان میں نظمِ حکمرانی کو بہتر بنانے کے لیے نمائندگان کی ایک کونسل تشکیل دے۔

میگناکارٹا میں عوام کے حقوق کو تسلیم کرنے اور بادشاہ کو قانون کی حکمرانی کے تابع کرنے کے یہ ابتدائی ثمرات ہیں جو ہمیں نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد کے تاریخی حقائق کی تلاش میں نکلتے ہیں تو آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں۔ ایسے میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ 800 برس بعد بھی موجودہ ملکہ برطانیہ کیوں اس فرمان کی تعظیم کرتی ہیں اور اپنے حال زار کو دیکھتے ہوئے کیوں اس شخص کا چہرہ نگاہوں میں ابھرتا ہے جو پاکستانی آئین کو بارہ صفحے کا چیتھڑا کہتا تھا اور دانشوری کے دعویدار اس شخص کی آواز کا نوں میں گونجتی ہے جو ہمارے موجودہ آئین کو منسوخ کر کے، نیا آئین تحریر کرنے کا نسخہء شفا تجویز کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔