بُک شیلف

اقبال خورشید  اتوار 21 جون 2015
ڈسٹ کور کے ساتھ شایع ہونے والی کتاب میں معیاری کاغذ استعمال ہوا ہے، چھپائی اور قیمت، دونوں مناسب۔: فوٹو فائل

ڈسٹ کور کے ساتھ شایع ہونے والی کتاب میں معیاری کاغذ استعمال ہوا ہے، چھپائی اور قیمت، دونوں مناسب۔: فوٹو فائل

کتابیں بولتی ہیں (مضامین)
مضمون نگار: رضا الحق صدیقی، صفحات: 222، قیمت: 600 روپے، ناشر: بک کارنر، جہلم

متن سے قبل کتاب کا سرورق بولتا ہے۔ آپ اُسے آنکھوں سے سنتے ہیں۔ اور ایسی کتاب جس کا عنوان ہی ’’کتابیں بولتی ہیں‘‘ ہو، چونکا دیتی ہے۔ تیار رہنے کا پیغام دیتی کہ وہ ضرور کچھ ایسا کہے گی، جو آپ کی سماعت پر خوش گوار اثرات چھوڑے گا۔

تو جاذب نظر ٹائٹل اور عمدہ کاغذ پر چھپی رضا الحق صدیقی کی یہ کتاب بہت کچھ کہتی ہے۔ بہ ظاہر دیکھیں، تو یہ نثری اور شعری تخلیقات پر اُن کے مضامین پر مشتمل ہے، مگر معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ رضا صاحب بڑے دل چسپ آدمی ہیں۔

سمجھ لیجیے جدت پسند۔ انٹرنیٹ پر فروغ ادب کے لیے جو کام اُنھوں نے کیا، وہ قابل تقلید۔ اردو میں ویڈیو کالمز کا سلسلہ شروع کیا۔ نام دیا؛ بولتے کالم۔ یہ کوشش سوشل میڈیا پر بڑی مقبول ہوئی۔ سمعی اور بصری مواد میسر آیا، تو یار لوگوں کی توجہ بڑھی۔ کتابوں پر بات ہونے لگی۔ تو ایک معنی میں وہ ادبی منظر میں نئے اوزاروں کے ساتھ وارد ہوئے۔

ہمارے مانند رضا صاحب بھی والٹیر کے اس خیال سے متفق کہ جب سے دنیا بنی ہے، وحشی نسلوں کو چھوڑ کر دنیا پر کتابوں نے حکم رانی کی ہے۔ مطالعہ اُن کا وسیع۔ تنقیدی فلسفے کا بھی علم۔ مگر ادبی ویب سائٹ کے صارفین کا مزاج بھی خوب سمجھتے ہیں۔ ان کے بولتے کالم گاڑھے نہیں ہوتے، بھاری بھرکم نظریات سے آزاد، تاثراتی یا تعارفی نوعیت کے جائزے ہوتے ہیں۔

ادبی کتب کے فنی محاسن اجاگر کرتے یہ مضامین ایک روزنامے کے ادارتی صفحے پر بھی شایع ہو کر قارئین کی توجہ حاصل کر چکے ہیں۔ رضا صاحب شستہ زبان لکھتے ہیں، جمالیاتی تقاضوں کی خبر رکھتے ہیں، بات کہنے کا ڈھب جانتے ہیں۔ اور ان جیسے سنیئر آدمی سے اسی کی توقع کی جانی چاہیے۔ کتاب کی فہرست پر نظر ڈالیں، تو جی خوش ہوتا ہے۔

احمد ندیم قاسمی، گلزار، زاہدہ حنا، محمد حمید شاہد، مشرف عالم ذوقی جیسے فکشن نگاروں کا تذکرہ، ادھر مجید امجد، خالد احمد، شہزاد احمد جیسے شعرا کا ذکر۔ جہاں پختہ لکھنے والوں پر مضامین، وہیں نئے لکھنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی۔ کتاب کی خوبی یہ کہ اسے پڑھ کر زیربحث آنے والی تخلیقات پڑھنے کو من کرتا ہے۔ کتاب کے فلیپ پر درج مختلف حکما کے اقوال بھی بھلے لگتے ہیں کہ وہ کتاب کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں۔

جینی مارکس کے خطوط (ترجمہ)
مترجم: ڈاکٹر شاہ محمد مری، صفحات: 168، قیمت: 300 روپے، ناشر: سنگت، کوئٹہ
ڈاکٹر شاہ محمد مری کا تعارف کروانا ایک لاحاصل کوشش ہے۔ فصیح و بلیغ الفاظ استعمال کریں، کتنا زور لگا لیں، یہ دریا کوزے میں بند نہیں ہونے والا۔ ترقی پسند نظریات پر کامل یقین رکھنے والے یہ صاحب بڑی سنجیدگی سے ایک مشن میں جُٹے ہیں۔ دنیا بھر کے اجلے، محنت کشوں کے لیے آواز اٹھانے والے انسانوں سے متعلق یا تو کتب مرتب کرتے ہیں، یا کسی معیاری کتاب کا ترجمہ پیش کر دیتے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ہی کو لیجیے۔ یہ مارکس کی محبوبہ (جو بعد میں ان کی بیوی بنیں) جینی مارکس کے خطوط ہیں۔ اور یہ فقط عشق کے رنگ میں نہیں رنگے، بلکہ دنیا کو بدل دینے والے اس فلسفی کے اہل خانہ سے متعلق معلومات کا خزانہ ہیں اور مارکسزم کی تشکیل سمجھنے میں بھی معاون۔

اس دل چسپ کتاب میں فریڈرک اینگلز کو لکھے خطوط بھی ملتے ہیں، جو مارکسزم کے اس شریک بانی کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہیں۔ کتاب میں شامل 60 میں سے 23 خطوط اینگلز ہی کے نام۔ مترجم کے نزدیک یہ خطوط مائوں کے لیے ٹریننگ مینوئل بھی ہیں، اور انقلابی عورت کے لیے گائیڈ لائن بھی۔ لکھتے ہیں: ’’جب مارکس اپنی اہم ترین تصانیف میں مصروف تھا، یا بیماریوں سے جنگ میں غلطاں تھا، تو مارکس کی فکری ہم سفر ہونے کے ناتے وہ (جینی) پوری دنیا میں مارکسزم سے متعلق ساتھیوں، دوستوں سے خط و کتابت کرتی تھی۔ محض مارکس کی مُنشی بن کر نہیں، بلکہ خود کاررواں میں میں شامل ساتھی کے بہ طور، مورچے میں موجود سپاہی کے بہ طور۔‘‘
مختصراً یہ ایک عمدہ کتاب ہے۔ مارکسزم میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے Must Read!

ہوا کے دوش پر (خود نوشت)
مصنف: ڈاکٹر فیروز عالم، صفحات: 472، قیمت 300 روپے، ناشر، بزم تخلیق ادب پاکستان، کراچی
اس خود نوشت کو ’’ایک عام آدمی کی داستان حیات‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ کتابی صورت اختیار کرنے سے قبل چہار سو، راول پنڈی میں قسط وار شایع ہوئی۔ اس لکھنے کا مقصد، مصنف کے مطابق اپنی اولاد کی اپنی جیون کتھا سنانا، ان دشوار راستوں کا تذکرہ کرنا تھا، جن سے وہ گزرے۔ سید معراج جامی نے اِسے ایک صابر و شاکر انسان کی خودنوشت قرار دیتے ہوئے اِسے قادر مطلق پر کامل تکیہ کرنے والوں کے لیے مشعلیں روشن ٹھہرایا ہے۔ انجینئر راشد اشرف کے نزدیک یہ ایک ایسے شخص کی داستان ہے، جس نے زندگی میں کڑی محنت سے اعلیٰ مقام پایا۔ نوید سروش کے نزدیک، یہ عام نہیں، بلکہ ایک خاص آدمی کی سرگذشت ہے، جس میں ہمیں مشرق و مغرب کا تقابل نظر آتا ہے۔

ترتیب وار رونما ہونے والے دل چسپ واقعات سے سجی اس خودنوشت کی زبان رواں ہے۔ بائیو گرافی پڑھنے والوں کے لیے وقت کا اچھا مصرف ثابت ہوسکتی ہے۔ کتاب کا گیٹ اپ اچھا ہے۔ تصاویر بھی شامل ہیں۔ قیمت انتہائی مناسب معلوم ہوتی ہے۔

“Song in his Soul” (بائیو گرافی)
مصنف: ایس ایم شاہد، صفحات 148: قیمت: 500 روپے، ناشر: اے بی بی سی ایل، پبلی کیشنز

یہ مختصر سی آپ بیتی، یہ خوب صورت کتاب دل چھو لیتی ہے۔

ایس ایم شاہد کے، خود فراموشی (Autism) کے مرض میں مبتلا نواسے حسن، اس کی بنیادی تحریک، جسے مصنف نے My Music Soulmate قرار دیا ہے۔ موسیقی اور فن کاروں پر معیاری کتابیں لکھنے والے ایس ایم شاہد کی اِس کتاب کے اصل قاری معذور، خصوصاً خود فراموشی میں مبتلا بچوں کے والدین، اساتذہ اور معالجین ہیں۔ یہ اُن کا حوصلہ بڑھاتی ہے۔ احساس دلاتی ہے کہ ہر بچے میں ایک انوکھی قابلیت ہوتی ہے، ضرورت بس اسے دریافت کرنے کی ہے۔

البتہ یہ عام قارئین کے لیے بھی مطالعیت کا عنصر رکھتی ہے کہ حسن کی کلاسیکی موسیقی میں دل چسپی اس نوع کے بچوں کی بابت نئی جہت سے متعارف کرواتی ہے۔ اس چھوٹی سی کتاب کو پڑھتے سمے، معیاری تصاویر کی موجودی اور لکھت کے انداز کی وجہ سے ایک ڈرامے کی سی کیفیت جنم لیتی ہے۔اس کتاب کو لکھنا ضرور ایک مشکل مرحلہ رہا ہوگا کہ محبت کے ساتھ مصنف کو کرب کے تجربے سے بھی گزرنا پڑا، مگر موسیقی کے طلسم نے اِس عمل ممکن بنا دیا۔ موسیقی، جو انسانی احساسات کی زبان ہے، جو ہمارے جین میں گندھی ہے، جسے ختم کرنے سے پہلے شاید تہذیب کو ختم کرنا پڑے۔ اس کتاب کے کچھ مندرجات سے اختلاف ممکن، مگر کوشش کو سراہے بنا چارہ نہیں۔

مارکسزم: اکیسویں صدی میں
مصنف: تشنہ بریلوی، صفحات:208، قیمت:200 روپے، ناشر: الحمد پبلی کیشنز، کراچی
یہ کتاب معروف شاعر اور نثرنگار، تشنہ بریلوی کے مقالات، مضامین، فکشن فیچرز وغیرہ پر مشتمل ہے۔ یعنی اس میں کئی رنگ ہیں۔ بڑا تنوع ہے۔ کتاب 28 مضامین پر مشتمل ہے۔ تشنہ صاحب سنیئر آدمی ہیں۔ مطالعہ پھیلا ہوا۔ زبان کے برتائو پر خود گرفت رکھتے ہیں۔ شائستہ و شگفتہ انداز میں بات کہتے ہیں۔ تحریر رواں۔ پڑھنے والے پر ان کی کاوش خوش گوار تاثر چھوڑتی ہے۔ اس میں فقط ان کا نقطۂ نظر نہیں، بلکہ معلومات بھی ملتی ہے۔

آپ مزاح کے قاری ہیں، تو ’’وائسرائے کے آنسو‘‘ اور ’’دل پھینک جواہر لعل‘‘ پڑھیے، ’’انقلاب فرانس کا نسوانی پہلو‘‘ اور ’’سجاد ظہیر کی تاریخی غلطی‘‘ جیسے مقالات میں سنجیدہ موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ ’’میری جیب میں کیا ہے؟‘‘ اور ’’سونے کا سکہ‘‘ میں فکشن کا ذایقہ۔ مجموعی طور پر یہ ایک اچھی کتاب ہے۔ اور اب اچھی کتابیں خال خال ہی شایع ہوتی ہیں۔
ڈسٹ کور کے ساتھ شایع ہونے والی کتاب میں معیاری کاغذ استعمال ہوا ہے، چھپائی اور قیمت، دونوں مناسب۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔