پاکستان کس کا؟ جناح کا؟ اقبال کا؟ یا…(پہلا حصہ)

تشنہ بریلوی  پير 22 جون 2015
tishna.brelvi@yahoo.com

[email protected]

اس چبھتے ہوئے سوال کا تسلی بخش جواب سامنے نہیں آیا ہے۔ پاکستان کے دانشور ابھی تک اس پر غور فرمارہے ہیں اور مختلف قسم کی وضاحتیں پیش کررہے ہیں۔ تھک ہار کر ان میں سے بیشتر کہتے ہیں کہ یہ سوال بے معنی ہے اور اس پر وقت ضایع کرنا ضروری نہیں۔

لیکن ہم حقیقت پسندی کے تحت یہ ماننے پر مجبور ہوں گے کہ یہ سوال پاکستان کی اساس سے تعلق رکھتا ہے اور ملک کے مستقبل کا بھی اس پر انحصار ہے۔ 14 اگست 1947 کو جو نیا ملک وجود میں آیا وہ کس کا تھا؟ کیا وہ قائداعظم محمدعلی جناح کی نیشن۔اسٹیٹ Nation- State تھی، جو ہندوستان کے بے چین مسلمانوں کے قائد تھے؟ کیا یہ شاعرِ مشرق اور صاحب وجدان فلسفی سخنور علامہ اقبال کی جنت ارضی تھی؟ یا پھر یہ خدائے پاک کے بندوں کا وطنِ موعود تھا کہ جس کی ان کو بشارت دی گئی تھی، جیسا کہ ہمارے بھانت بھانت کے مذہبی پیشوا، ہمارے مولوی اور ملّا ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں۔

جواب مشکل بھی نہیں اس لیے کہ یہ حقیقت تو سب پر عیاں ہے کہ بنیادی طور پر یہ ملک بانی پاکستان قائداعظم سے ہی منسوب ہے۔ انھوں نے نہایت قابلیت اور محنت سے برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کی تھی تاکہ وہ ایک نیا وطن حاصل کریں جہاں تک ہمارے ’’روحانی‘‘ رہنماؤں کا تعلق ہے۔ انھیں بھی پاکستانی عوام کے لیے ایک بہت اہم (لیکن ثانوی) کردار ادا کرنا تھا، خصوصاً مصلحین قوم کی حیثیت سے مذہبی اور مسلکتی رواداری کے لیے۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ نئے ملک میں ہندو، عیسائی اور پارسی بھی ہیں اور مختلف مسالک پر عمل کرنے والے مسلمان بھی۔ یہ ایک رنگ برنگے پھولوں سے سجا مہکتا ہوا گلدستہ ہے جس کو مزید دلکش بنانا ہے۔

لیکن ’’روحانی‘‘ رہنماؤں نے اول روز سے یہ کہنا شروع کردیا کہ جناح صاحب ایک بہت قابل بیرسٹر تھے۔ انھوں نے ’’ہمارا‘‘ مقدمہ خوب لڑا اور ہمیں جتوادیا۔ اور اب اس مقدس وطن کی باگ ڈور سنبھالنا ہمارا اور صرف ہمارا حق ہے۔

ریاست پاکستان قائداعظم کے تصور کے مطابق آغاز پذیر ہوئی۔ قائداعظم موجود تھے اور ان کے ساتھ ان کا ’’نظریہ‘‘ بھی زندہ تھا۔ لہٰذا مذہبی رہنماؤں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ خاموش رہا جائے اور قائداعظم کی 11 اگست والی تقریر پر بات نہ کی جائے۔ وہ جانتے تھے کہ قائداعظم ایک روشن خیال دانشور تھے۔ انھوں نے مغرب میں بہت وقت گزارا تھا۔ تعلیم حاصل کی تھی اور وہاں کی ساری خوبیوں کو سمیٹنے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجے میں ایک ایسی شخصیت وجود میں آئی جو علم اور عمل کا بہترین نمونہ تھی اور سب سے اہم بات یہ کہ محمد علی جناح حقوقِ نسواں کے زبردست علمبردار تھے۔ ان کے دوست سر آغا خان نے کہا تھا کہ ’’اگر میں غریب ہوں اور میرے سامنے یہ انتخاب ہو کہ میں اپنے بیٹے کو تعلیم دوں یا اپنی بیٹی کو تو بیٹی کو تعلیم دینا پسند کروں گا۔‘‘ قائداعظم بھی یہی سوچ رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ کوئی قوم عورتوں کی تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی۔ لہٰذا انھوں نے والدکی وفات کے بعد اپنی چھوٹی بہن آٹھ سالہ فاطمہ کو بہترین تعلیم اور Dentistry کی ٹریننگ دلوائی تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکیں۔ یاد رہے کہ اب سے سو سال پہلے تو یورپ اور امریکا کی خواتین بھی ایسے ’’مردانہ‘‘ پیشے میں شامل ہونے کی ہمت نہیں کرسکتی تھیں۔

لہٰذا جب تک قائداعظم زندہ رہے تب تک ’’روحانی رہنما‘‘ چپ سادھے رہے۔ وہ جانتے تھے کہ قائداعظم انھیں امورِ مملکت میں ’’مداخلت‘‘ نہیں کرنے دیں گے۔ قائداعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر ان کو کھٹک رہی تھی لیکن وہ سب ’’انتظار‘‘ میں تھے۔

جیسے ہی بیمار قائد نے آخری سانس لی وہ سب باہر آگئے اور اپنا حق مانگنا شروع کردیا۔ حیرت انگیز طور پر انھوں نے ایک ’’رستم روئین تن‘‘ کو بھی اپنے لشکر میں شامل کرلیا یعنی شاعر مشرق علامہ اقبال۔

محمد علی جناح کی ’’آئیڈیالوجی‘‘ یا نظریہ آئینہ کی طرح شفاف تھا۔ وہ ایک لبرل اور روشن معاشرہ قائم کرنا چاہتے تھے۔ سوشل ڈیموکریٹس کی طرز پر جس میں سب کو برابر کے حقوق حاصل ہوں۔ عورتوں کو مکمل آزادی اور برابری ملے۔ قبائلی نظام اور جاگیرداری کا خاتمہ ہو تمام مذاہب کے لوگ مل کر رہیں اور کام کریں۔ اسی لیے انھوں نے کراچی کے ہندوؤں کو بھارت جانے سے روکا تھا مگر لاہور میں صورت حال بالکل مختلف تھی۔ محمد علی جناح چھوت چھات، ذات پات، برہمن، کشتری، ویش اور شودر کی درجہ بندی، ستی کی ظالمانہ رسم، جانوروں کی پوجا، کھانے پینے میں سو طرح کی پابندیوں، بات بات پر دھرم بھرشٹ ہونے کے خطرے، ماتھے پر لکیروں اور نشانوں وغیرہ کو سمجھنے سے قاصر تھے، ورنہ روشن خیال ہندوؤں میں ان کے بہت سے دوست بھی تھے مگر مالویا، ساورکر اور گاندھی جی کی رجعت پسندی اور جواہر لال نہرو کی تیز مزاجی کے سبب وہ بددل ہوگئے۔ تاہم وہ سختی کے ساتھ اس بات پر مصر تھے کہ پاکستان میں نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو عیسائی اور پارسی بھی ہندوستان کے مقابلے میں زیادہ خوش ہوں گے اور کاروبار ریاست میں بھرپور حصہ لے سکیں گے۔

ان کی نظر میں پاکستان YMCA جیسا ماحول پیش کرے یا اردو مشاعرہ جیسا YMCA (اور YWCA) کے دروازے سب کے لیے کھلے تھے (چونکہ ہر مذہب کا ایک ’’سیکولر‘‘ پہلو بھی ہوتا ہے) مقصد تھا کہ ایک صحت مندانہ ماحول پیدا کیا جائے، جس میں سب مل کر کام کرسکیں۔ کچھ ایسا ہی ماحول اردو مشاعروں میں بھی ہوتا ہے۔ اس رومان پرور جلسے میں ہر مذہب کے لوگ شریک ہوتے ہیں اور تعصب کی سب دیواریں گرجاتی ہیں، یہ وہ شفاف اور روح پرور فضا ہے جس میں ہندو مسلم مقابلے کے بجائے مکالمے پر زور دیتے ہیں اور ایک دوسرے سے انسپائر ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ماحول میں ایک ہندو عالم (پنڈت دتاتیریہ کیفی) ایک مسلمان لڑکے (تابش دہلوی) کو قرآن پاک پڑھاتا ہے۔ بے شمار ہندو نعت لکھتے ہیں اور مسلم شاعر شری کرشن کی شان میں نظمیں، لہٰذا جب ایک ہندو شاعر (جگن ناتھ آزاد) نے پاکستان کا ترانہ لکھا تو یہ بات قائداعظم کی خواہش کے عین مطابق تھی۔ مگر ایک نامور مدرس اور کالم نگار یہ سن کر شمشیر بکف ہوجاتے ہیں۔ تنگ نظری کی تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں کہ قائداعظم کے ساتھ ہندو جگن ناتھ کا نام کیسے آگیا۔

محمد علی جناح شفافیت کا مظہر تھے جب کہ علامہ اقبال کی شخصیت محبوب کے گیسوئے تابدار کی طرح پر پیچ تھی۔ وہ ایک بہت ذہین نوجوان رہے تھے۔ چھ زبانوں کا علم ان میں سرائیت کرچکا تھا۔ پنجابی، اردو، فارسی، عربی، انگریزی اور جرمن۔ وہ یورپ میں بہت وقت گزار چکے تھے۔ دماغ بہت زرخیز تھا۔ شعرگوئی کا قابل رشک سلیقہ رکھتے تھے۔ بنیادی طور پر روشن خیال تھے۔ تنگ نظری سے کوئی علاقہ نہیں تھا۔ انھوں نے ترانہ ہندی لکھا (محترم پروفیسر اقبال کو بھی شاید نہ بخشیں) ہندوستانی بچوں کا گیت لکھا۔ شری رام کو خراج تحسین پیش کیا اور گرونانک کو توحید کی آواز، اور ’’مردِ کامل‘‘ قرار دیا۔ (آج اگر کوئی ایسا کرے تو زندہ نہ رہے) لیکن وہ خاص کر انجمن حمایت اسلام سے تعلق کی وجہ سے ’’اسلامی ذہن‘‘ بھی رکھتے تھے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔