پاکستان کس کا؟ جناح کا؟ اقبال کا؟ یا ...(آخری حصہ)

تشنہ بریلوی  منگل 23 جون 2015
tishna.brelvi@yahoo.com

[email protected]

علامہ اقبال اپنے انگریز پروفیسر آرنلڈ کو بہت پسند کرتے تھے، جو ان کی مدد کو بھی آئے تھے اور اسی وجہ سے انگریزوں کو بھی سراہتے تھے ۔ انگریز سرکار چاہتی تھی کہ اقبال ’’ مذہب پرست ‘‘ رہیں اورکانگریس کی طرح انگریز دشمن نہ بنیں۔پنجاب کے مسلمان تو ویسے بھی انگریزوں کے ’’شکرگزار ‘‘ تھے کیونکہ انگریزوں نے پنجاب کو سکھوں سے آزاد کراکے مسلمان پنجابیوں کے دل جیت لیے تھے ۔

اقبال بھی سر سیّد کی طرح ’’انگریز دوست ‘‘ تھے اور چاہتے تھے کہ انگریزوں کی حمایت مسلم پنجاب کو ہمیشہ حاصل رہے ۔ اسی لیے انھوں نے جلیانوالہ باغ کے اندوہناک واقعے پر کچھ نہیں لکھا ۔ جب کہ بنگالی مہا کوی رابندر ناتھ ٹیگور نے احتجاجاً ’’سر‘‘ کا خطاب واپس کردیا ۔1919 میںامرتسرکا یہ واقعہ جس پر انگریز سرکارنے چند برس پہلے ہندوستان سے معافی بھی مانگی، علامہ اقبال کے بالکل قریب پیش آیا مگر وہ شاید مصلحتاً خاموش رہے۔

( جس طرح شاید فیض صاحب بھی مشرقی پاکستان کے سلسلے میں ایک دوغیر اہم اشعار تک ہی محدود رہے ۔) علامہ اقبال مسلم ریاستوں اورانگریز سرکار کے درمیان پُل بھی بنے رہے۔1930کے قریب حکومت ہند نے انھیں جنوبی افریقہ میں ہندوستانی نمایندہ بنا کر بھیجنا چاہا تھا مگر چونکہ اُن کی اہلیہ ’’سوشل لیڈی‘‘ نہیں تھیں اس لیے بات آگے نہ بڑھی۔

1922میں مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ’’ بہشتی زیور ‘‘ شایع ہوئی۔ یہ مسلم خواتین کے لیے ہدایت نامہ تھا تاکہ دورِ جدید کی تعلیم سے وہ گمراہ نہ ہوجائیں اور سخت مذہبی حدود میں رہیں۔ عورتیں کمزور اور کم عقل ہوتی ہیں اور ناقابل اعتبار۔وہ مکمل طور پر خود کو شوہروں کی اطاعت اور خدمت کے لیے وقف کردیں، تابعداری اور خاموشی کو اپنائیں ۔اس تصنیف نے جو بہت جلد گھر گھر پہنچ گئی ۔عورتوں کے لیے سارے دروازے بندکردیے اور اس کے اثرات اب تک موجود ہیں۔

قائد اعظم کی زندگی میںقیام پاکستان کے فوراً بعد مولانا اشرف علی تھانوی کے بھتیجے مولانا شبیر احمد عثمانی نے ایک پورے فرقے کو عورتوں بچوں سمیت واجب القتل قرار دے دیا تھا ۔ 1922میں علامہ اقبال کو ’’سر‘‘ کا خطاب ملا ۔ بعد میں اسی طرح سانگ پبلسٹی کے انچارج ’’میں تو چھورے کو بھرتی کراآئی رے‘‘ اور شاہنامہ ٔ اسلام کے خالق حفیظ جالندھری کو بھی ’’ خان بہادر ‘‘ کا خطاب مل گیا ۔وہ ’’سر‘‘ بننے کے لیے سر دھنتے رہے کیونکہ ’’خدمت ‘‘ میں وہ بھی کم نہ تھے لیکن ’’ نائٹ ہڈ‘‘ نہیں ملی۔ البتہ ریاست خیر پور سے ایک ہاتھی ضرور انعام میں مل گیاتھا ۔ راجہ نواب بھی حس مزاح رکھتے تھے۔

حکیم اجمل کی زندگی کے آخری دنوں میں مسلم لیگ کا ایک اجلاس دہلی میں ہوا ۔ لیگ ٹکڑوںمیں بٹی ہوئی تھی ۔حکیم اجمل خان‘ محمد علی جناح ‘حسرت موہانی‘ سر اقبال اورسر فیروز خان نون وغیرہ بھی موجود تھے  سراقبال اور سر نون وہاں انگریز کے ’’ نمایندوں‘‘ کے طور پر دیکھے گئے۔ جناح اور اقبال کے درمیان کوئی گرم جوشی نہیں تھی۔ لیگ کا اگلا اجلاس لاہور یا کلکتہ میں بلائے جانے کی تجویز تھی جب کلکتہ کے حق میں فیصلہ ہوا تو محمد علی جناح، حکیم صاحب اور مولاناحسرت بہت خوش تھے لیکن دونوں پنجابیوں کو مایوسی ہوئی اور انگریز سرکارکو بھی ہوئی ہوگی ۔ واضح رہے کہ سر رامزے میکڈانلڈ وزیر اعظم برطانیہ نے محمد علی جناح کو گورنر شپ آفرکی تھی جو انھوں نے ٹھکرادی۔

علامہ اقبال کو سمجھنے کے لیے جرمنی کو سمجھنا ضروری ہے جہاں انھوں نے تعلیم حاصل کی تھی، جرمن گورنس ڈورس ان کی بیٹی منیرہ کے لیے رکھی گئی اور انگریزوں کے بعد وہ جرمن قوم کے مداح تھے ۔1870میں پراشاPrussia کاگنوار وزیر اعظم بزمارک فرانس کو عبرت ناک شکست دے کر قابض ہوگیا اور اس فاتحانہ ماحول میں اس نے پیرس کے نزدیک ورسایا کے سنہری محل میں تمام جرمن ریاستوں کو متحد کر کے جرمن ایمپائر کا اعلان کردیا اور اپنے جنگجو صوبے پراشا کے راجہ ولیم اوّل کو قیصر جرمنی بنادیا بعد میں اس کا بیٹا ولیم دوئم قیصر بنا ۔ وہ ملکہ وکٹوریا کا نواسا تھا اس نے پہلی عالمی جنگ چھیڑی۔ علامہ اقبال یہی کردار پنجاب کے لیے اد اکرنا چاہتے تھے ۔

ہندوستان کی مغربی وحدتیں پنجاب کی قیادت میں نیا ملک بن جائیں ۔پورا پنجاب ‘ افغانہ‘ کشمیر ‘ سندھ اور بلوچستان مل کر پاکستان بنے افغانہ میں صوبہ سرحد اور افغانستان بھی شامل ہے( ہاں بنگال کا کوئی ذکر نہیں) اور مسلم ملک برٹش انڈیا ہی رہے تو بہتر ہے تاکہ انگریز مسلمانوں کی مدد کرتے رہیں۔ اور پنجاب سب سے زیادہ آبادی والا اور سب سے زیادہ تعلیم یافتہ خطہ ہونے کی وجہ سے غالب رہے ۔مسلمان بھی خوش ‘انگریز بھی خوش‘ سرحد دریائے جمنا ہوگی اس لیے دلی بھی اس ملک میں شامل ہوگا ۔کیا اس سے زیادہ سنہرا نقشہ تصور میں آسکتا ہے؟ یاد رہے کہ علامہ اقبال کا یہ خواب خیالی پلائو نہیں تھا ۔

ضرورت تھی قائدانہ روشن خیالی کی جس میں تعصب اور تنگ نظری کی کوئی گجائش نہیں تھی لیکن افسوس صد افسوس کہ مسلمانان ہند باپ کو قید کرنے اور بھائیوں کو قتل کرنے والے سخت گیر اور شدت پسند اورنگزیب کے رنگ میں رنگ چکے تھے نیز خلافت عثمانیہ کی مثال بھی سامنے تھی ۔ترکی میں تخت کی خاطر بھائیوں وغیرہ کو قتل کرنا تو ایک معمول تھا۔نیز ترکی نے پیدا کیے Eunuchs,Catamites,Concubines,& Slavesمشرقی یورپ کی عیسائی آبادی کے بچے چھین لیے جاتے اور انھیں یے نی چیری(Janissaries)کے نام سے ایک خاص فوجی دستہ میں شامل کیا جاتا بعد میں یہ سب قتل کردیے گئے ۔ مگر ترک خلافت مسلمانان، ہند کے لیے جنت تھی ۔ مشرقی یورپ آج تک اس ترک تسلط( اور سوویت تسلط) کی وجہ سے پسماندہ ہے۔

علامہ اقبال کی زندگی کے آخری برسوں میں ابوالاعلیٰ مودودی ان کے قریب آئے یہ بہت باصلاحیت جوان تھے جو حیدرآباد دکن میں ملازمت کرچکے تھے ۔ دینی علوم سے گہری واقفیت رکھتے تھے ۔ علامہ اقبال ان سے خاصے متاثر ہوئے اور ان کی بہت ہمت افزائی کی جس کے نتیجے میں مودودی صاحب نے 1941میں جماعت اسلامی قائم کی، مقصد تھا کہ ’’صالح ‘‘ مسلمان پیدا کرنا ۔ اسی بنیاد پر انھوں نے پاکستان کی بھی مخالفت کی تھی۔لیکن پاکستان بننے کے بعد ان کو زبردست مواقعے مل گئے ۔ موت کی سزا بھی ملی جس پر عمل نہیں ہوا ۔

اب تو ان کی مقبولیت کی کوئی حد نہیں رہی۔ پاکستانی فوجی افسروں میں بھی جماعت کا اثر رسوخ بڑھ گیا ۔ اس کے نتیجے میں ملک میں شدت پسندی اور بنیاد پرستی کو فروغ حاصل ہوا۔ جماعت کے پروفیسر غفور جیسے علم دوست اورروشن خیال کارکن ’’بے اثر ‘‘ ہوتے گئے ۔ ہر شدت پسند نے اقبال کا سہارا لیا لیکن علامہ اقبال نہ شدت پسند تھے نہ تنگ نظر ۔ انھیں شاعر مشرق بھی کہنا درست نہیں اس لیے کہ وہ تو شاعر ِعالم تھے۔

ادھرمحمد علی جناح کے بارے میں تو کسی شک و شبے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ اگر ان کی ہدایات کے مطابق پاکستان آگے بڑھتا تو خوش حالی اور ترقی قدم چومتی مشرقی پاکستان اور مغربی شاید کنفیڈریشن بن چکے ہوتے یا چیک ری پبلک اور سلوواکیہ کی طرح خون خرابے کے بغیر علیحدہ ہوجاتے ۔

قائد اعظم اور علامہ اقبال کے اختلافات رفتہ رفتہ ختم ہوتے گئے اور علامہ اقبال کے انتقال سے چند ماہ پہلے جب کانگریسی لیڈر جواہر لعل نہرو ان سے ملنے آئے تو علامہ اقبال نے صاف کہہ دیا کہ وہ تو محمد علی جناح کی فوج کے ادنیٰ سپاہی ہیں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم محمد علی جناح اور علامہ اقبال سے دوبارہ اپنا رشتہ جوڑیں ۔ ترقی پسندی اور روشن خیالی کو اپنائیں اور ہرقسم کے تعصّب ، شدت پسندی اور تنگ نظری کو رد کرتے ہوئے ملک و ملّت کی تعمیر کیرں۔ کیونکہ:

اسلام سر کا تاج ہے زنجیرِ پا نہیں

گلزارِ ارتقا سے مسلماں جُدا نہیں

یہ ملک’’ پاکستان‘‘ محمد علی جناح اور علامہ اقبال دونوں کا ہے اور ہم سب کا بھی ۔ آئیے اسے قابلِ فخر بنائیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔