رمضان اور اسٹریٹ کرکٹ

فہیم اسلم  اتوار 28 جون 2015
ٹینس بال پر ٹیپ چڑھا کرکھیلی جانے والی لیگ اور آف سائیڈ کی باؤنڈریز سے محروم کرکٹ کے اصول بھی گلیوں والے ہوتے ہیں۔

ٹینس بال پر ٹیپ چڑھا کرکھیلی جانے والی لیگ اور آف سائیڈ کی باؤنڈریز سے محروم کرکٹ کے اصول بھی گلیوں والے ہوتے ہیں۔

رمضان المبارک کا مہینہ اپنی برکتوں سمیت رواں دواں ہے اور نیک لوگ بھر بھر کے نیکیاں اور ثواب کما رہے ہیں تو دوسری طرف منافع خور بس زیادہ سے زیادہ نوٹ کمانے کی فکرمیں خود کو بوڑھا کررہے ہیں۔

رمضان کی آمد کے ساتھ ہی جہاں نیکیوں اور نوٹوں کا سیزن شروع ہوجاتا ہے وہیں منی پاکستان یعنی شہر کراچی کی گلی گلی میں ایک سیزن شروع ہوجاتا ہے اور وہ ہے رات سے صبح سحر تک اسٹریٹ کرکٹ کا اور موسم بھلے سرد ہو یا گرم کرکٹ کے اِس میلے کی رانق کبھی ماند نہیں پڑتی۔

لوگ دن بھر اپنے کام دھندوں اوردیگرمعاملات میں مصروفیات کے بعد افطار کی رونقوں سے لطف اندوز ہوکر اور نماز تراویح پڑھ کے اور اپنے دیگر کام نپٹا کرلوگ جب پوری طرح فارغ ہوجاتے ہیں تو رات کو کراچی شہر کی گلیوں اورسڑکوں پرجگہ جگہ لوگ اپنی اپنی وکٹیں لگا لیتے ہیں۔ جو عموماً کولڈرنک کے دو خالی کریٹوں کو اوپر نیچے رکھ کر بنائی جاتی ہیں۔ صرف لیاقت آباد ڈاکخانے سے لیاقت آباد سندھی ہوٹل تک آپ کو ایسی کئی وکٹیں لگی مل جائیں گی۔ ٹینس بال پر ٹیپ چڑھا کرکھیلی جانے والی لیگ اور آف سائیڈ کی باؤنڈریز سے محروم کرکٹ کے اصول بھی گلیوں والے ہوتے ہیں۔

  • سامنے کی باؤنڈری وہ کھمبا پار ہے۔
  • پیچھے گیند اگر بلے سے لگے بنا جائے گی تو کوئی رن نہیں ہوگا
  • دیوار سے ٹکرا کر آنے والی گیند کا ایک ہاتھ سے کیچ تھام لیا تو آؤٹ
  • گیند اگر کسی کے گھر میں گئی تو آؤٹ
اس اسٹریٹ کرکٹ میں کھیل بھی مختلف نوعیت کے کھیلے جاتے ہیں۔ اگر لوگوں کی تعداد زیادہ ہو تو دو ٹیمیں بنالی جاتی ہیں، اگر تعداد طاق اعداد میں ہو تو ایک بندہ جو عموماً سب سے چھوٹا ہوتا ہے اس کو بیچ کا مچولی بنا دیا جاتا ہے، یعنی وہ دونوں ٹیموں کی جانب سے بلے بازی بھی کرسکتا ہے اور فیلڈنگ بھی (وہ الگ بات ہے کہ اس کے نصیب میں ہوتی صرف فیلڈنگ ہی ہے)۔ ایسے میچ عموماً 6 اوورز فی اننگز پرمشتمل ہوتے ہیں ۔
اکثر لوگ بس نمبرنگ کرکے کھیلتے ہیں۔ جس میں پہلا نمبرآنے والے کی بیٹنگ ہوتی ہے سب سے لاسٹ والے کی باؤلنگ۔ نمبرنگ کے طریقہ کار بہت ہی مختلف اور دلچسپ ہوتے ہیں۔ کہیں تو ایک بندہ ذرا دور جاکر زمین پر کھیلنے والوں کی تعداد کے مطابق نمبرلکھتا ہے وہ رینڈم لکھے جاتے ہیں اور بلے سے چھپا دیے جاتے ہیں اور ہر نمبرکے آگے ایک لکیر کھینچ دی جاتی ہے اور پھر وہ آواز لگاتا ہے اور ہر بندہ آکرایک لکیر پرانگلی رکھ لیتا ہے، بس آخر میں ایک لکیر کھینچ دی جاتی ہے جس پر اس نمبر لکھنے والے کا حق ہوتا ہے۔ اس طرح جس کی انگلی جس لکیر پر ہوتی ہے وہ بندہ اس کے آگے لکھے نمبر کا حقدار قرار پاتا ہے۔
فوٹو:فائل
اِس کے علاوہ بعض اوقات لوگ ڈبل وکٹ بھی کھیلتے ہیں۔ کہیں کہیں تو یہ میلہ کھمبوں پر نصب اسٹریٹ لائٹس کی روشنی میں سج جاتا ہے پر کہیں کہیں جہاں روشنی معقول نہ ہو اس کے لیے باقاعدہ تاروں کا جال سجا کر اس میں ہینگر لائٹز لگا کر روشنی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔رات گیارہ، بارہ سے یہ کرکٹ سحری کے وقت تک چلتی رہتی ہے۔

نائٹ میچز کی یہ رونقیں بجلی کی محتاج ہوتی ہیں مگر افسوس یہ کہ اِس رمضان تو بجلی ایسی روٹھی کہ رات تو کیا دن میں بھی مشکل سے ہی جھلک دکھلاتی ہے۔ اِس لیے اداروں کی نالائقی کے سبب جہاں لوگوں کی پریشانیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے وہیں برسوں پرانی روایت بھی ماند پڑتی جارہی ہے۔

کیا کبھی آپ بھی رمضان المبارک میں نائٹ کرکٹ سے لطف اندوز ہوئے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

فہیم اسلم

فہیم اسلم

لکھاری گرافکس ڈیزائنر ہیں اور پرنٹنگ کے شعبے سے وابسطہ ہیں اردو سے لگاؤ کے سبب لکھنے کا شوق رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔