میدان والی مسجد

مدثر بشیر  اتوار 28 جون 2015
لاہور کی تاریخ کے کئی معاشرتی اور ثقافتی رنگ اپنے اندر سموئے ہوئے ۔  فوٹو : فائل

لاہور کی تاریخ کے کئی معاشرتی اور ثقافتی رنگ اپنے اندر سموئے ہوئے ۔ فوٹو : فائل

اندرون شہر لاہور میں کئی گلیاں، کوچے اور محلے کسی نہ کسی وصف، ذات اور کام کے باعث جانے جاتے ہیں جیسا کہ پھلاں والی گلی، کوچہ کمانگراں‘ کوچہ تیربازاں‘ کوچہ چابک سواراں‘ کوچہ تیلیاں‘ کوچہ تکیۂ سادھواں‘ محلہ صدا کاراں‘ محلہ بیٹھاں‘ محلہ موہلیاں اور اسی طرح محلہ نمدگراں‘ تقسیم سے قبل اس محلے میں نمدے تیار ہوتے تھے۔ غوثیہ مسجد جو کہ اندرون شہر میں میدان والی مسجد کے نام سے معروف ہے، وہ اسی محلے میں پائی جاتی ہے ۔ اس محلے میںد و کھلے میدان تھے 1۔کھجور ویڑھا (کھجور والا صحن) 2۔جموں ویڑھا (جامن ولا صحن) ۔ یہ مسجد کھجور والے صحن میں ہے۔ ان دونوں جگہوں کی وجۂ تسمیہ بھی جامن اور کھجور کے درخت کی موجودگی تھی ۔

یہ مسجد ایک چھوٹی اور سادہ سے طرز تعمیر میں ہے۔ لیکن اس مسجد کے ساتھ لاہور کی تاریخ کے کئی معاشرتی اور ثقافتی رنگ جڑے ہوئے ہیں ۔ مسجد کی مغربی سیدھ کی دیواریں رنجیت سنگھ کے دربار کے ایک خاص درباری دینا ناتھ کی حویلی سے ملتی ہیں ۔ یہ وہی دینا ناتھ ہیں جن کے نام سے قصور کے علاقے میں ایک بڑا رقبہ ملتا ہے اور انہی کا تعمیر کردہ ایک کنواں آج بھی مسجد وزیر خان کی شمال مشرقی سیدھ میں دکھائی دیتا ہے ۔

جب عہد انگریز میں تعمیر کردہ دھلی دروازے سے مسجد وزیر خان کی جانب چلا جائے تو دروازے کے ساتھ ہی وزیر خان کے ہی تعمیر کردہ شاہی حمام کی عمارت دکھائی دیتی ہے ۔ شاہی حمام سے کچھ فاصلے پر بائیں جانب ایک تنگ سی گلی ہے جو کہ تنگ بازار کے نام سے معروف ہے اور اس کے دائیں جانب ایک پرانی مشہور گلی ’’سرجن والی گلی‘‘ کے نام سے ملتی ہے ۔

تنگ بازار میں داخل ہوں تو یہ بازار اکبری منڈی تک چلا جاتا ہے تنگ بازار میں گرم مصالحے اور دیگوں کی تیاری میں استعمال ہونے والی اشیاء ملتی ہیں ۔ تنگ بازار میں کچھ قدم کے فاصلے پر ایک قدیمی کوچہ ’’کوچہ بھون شاہ‘‘ کے نام سے ملتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی بائیں جانب مسیحی برادری کی ایک مشہور گلی ’’چوہڑیاں دی گلی‘‘ کے نام سے ملتی ہے۔ 1980ء تک اندرون لاہور میں سیوریج کا نظام موجود نہیں تھا اور ابھی تک کئی گلیاں اور محلے ایسے ہیں جہاں پر پرانا نالیوں والا نظام ہی موجود ہے۔

پرانے لاہور کی ہر طرح کی صفائی اور ستھرائی سالہاسال تک اسی مسیحی برادری کے ہاتھوں سے سرانجام پائی اور عہد حاضر تک زیادہ تر مسیحی بھائی اسی شعبے سے منسلک ہیں ۔ ضیاء الحق کے دور تک اسی گلی کے ایک شخص ’’چنی چوہڑا‘‘ کی خامی شہرت تھی۔ انہیں عیسائی مذہب کے علاوہ بڑی سیاسی شخصیات بھی ملنے کو آتی تھیں تاکہ وہ انتخابات کے دوران ووٹ حاصل کر سکیں ۔ اس گلی کے رہائشی حضرت عیسیٰؑ کے جنم دن 25دسمبر جس کو وہ بڑا دن کہہ کر پکارتے ہیں، اس روز اس گلی کو نہایت خوبصورت انداز میں سجاتے تھے اور اس گلی کی سجاوٹ کو دیکھنے کے لئے مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد آتی تھی ۔

اس گلی سے آگے دائیں جانب ایک گلی محلہ نمدگراں کو جاتی ہے ۔ اسی گلی کی نکڑ پر ایک انتہائی پرانی دکان ’’منور دی ہٹی‘‘ کے نام سے ملتی ہے ۔ اس گلی میں داخل ہوتے ہی چند قدم پر ’’مصطفی چاولوں والا‘‘ کی دکان ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اکبری منڈی میں چاولوں کے بڑے بیوپاریوں میںان کا شمار ہوتا تھا اور ان کی کوٹھی لارنس روڈ پر تھی ۔ مصطفٰی کو ان کی کوٹھی ہی میں ڈاکوؤں نے قتل کر دیا تھا ۔ اس دکان کے سامنے ہی ایک اور قدیمی دکان ’’حافظ دانے والا‘‘ کے نام سے ہے ۔

حافظ سمیع جو کہ پچھلے وقتوں کے ایک بڑے صوفی شاعر قاضی آلہ دین کشش کے فرزند ہیں، ان کے پرکھوں کا گھر بھی اسی گلی میں واقع ہے ۔ قاضی آلہٰ دین ‘ عہد رنجیت سنگھ کے ایک قاضی‘ قاضی اللہ دتہ کے پوتے تھے ۔ ان کے گھر کے ساتھ ہی ایک اور قدیم گھر ’’فضل منزل‘‘ کے نام سے ہے۔ فضل منزل کے نیچے ہی ایک دکان پر 1985ء تک لاہور ریڈیو کے ایک اے کلاس گوئیے عبدالوحید کی بجلی کی خراب اشیاء ٹھیک کرنے کی دکان تھی۔ 1985ء میں وہ بسلسلہ روزگار سعودی عرب چلے گئے اور یوں اہل لاہور ایک انتہائی رس بھری آواز سے محروم ہو گئے ۔ عبدالوحید کا ڈیڑھ برس قبل لاہور ہی میں انتقال ہوا اور انہیں قبرستان میانی صاحب میں دفنایا گیا ۔ فضل منزل سے آگے تک زیادہ تر مکانات چھوٹی اینٹوں (نانک شاہی اینٹوں) سے تعمیر کئے گئے نظر آتے تھے ۔

لیکن اب پنسار کے گودام بنانے کے باعث ان مکانات کو منہدم کر کے نئے مکانات تعمیر کئے جا رہے ہیں ۔ کچھ قدم پر ایک چھوٹا سا کھلا میدان ہے جس کے بائیں جانب ایک انتہائی قدیمی گلی ‘‘چھتی چوبارہ گلی‘‘ کے نام سے ملتی ہے ۔ اس گلی سے جڑی سات رانیوں کی کہانیاں کئی نسلوں تک چلتی آئیں لیکن اب شاید ہی کوئی ایسا بندہ موجود ہو جو کہ وہ کہانی پوری جانتا ہو ۔ آج بھی لوگ ان رانیوںکے احترام میں دیئے روشن کرتے ہیں اور اپنے گھروں کی چھتوں پر پنگوڑے کھلے چھوڑ رکھتے ہیں ۔

اسی میدان کو ’’کھجور ویڑھا‘‘ کہا جاتا ہے اور میدان کی مغربی سیدھ میں یہ مسجد واقع ہے۔ لیکن اب یہاں کوئی بھی کھجور اور جامن کا درخت موجود نہیں ۔ اسی میدان کی ایک نکڑ میں کئی برسوں تک پھلوں کاایک ٹھیلا ’’چاچاجاموں‘‘ لگاتے تھے۔ لیکن اب نہ یہاں کوئی پھل والا اور نہ ہی کوئی شخص چاچا جاموں کی مانند ۔ مسجد کی شمال سیدھ میں پچھلے وقتوں کے ایک بڑے کلاسیکل گویئے ’’استاد عزیز الدین‘‘ کا گھر تھا ۔گھر کی دیواریں بھی حویلی دینا ناتھ کی چوڑی دیواروں سے ملتی ہیں۔

یہ گھر ان کے پرکھوں کا گھر ہے۔ اسی گھر میں ’’کیرانہ گھرانہ‘‘ کے عظیم استاد جی اے فاروق بھی راگ راگنیاں الاپتے رہے۔ مسجد اپنے سادہ طرز تعمیر کے باعث کسی بھی پرانی تاریخ کی کتاب کا حصہ نہ بن سکی ۔ لیکن اس کاانتظام و انصرام استاد عزیز الدین ہی کے گھر میں رہا۔ اگر ان کی پچھلی پیڑیوں پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ سلسلہ کم از کم دو سو برس تک جاتا ہے۔ عزیز صاحب سے پہلے اس کا انتظام ان کے بہنوئی قاضی آلہ دین کشش کے ہاتھ میں تھا۔ ان سے پہلے عزیز صاحب کے والد بابو تاجدین کے ہاتھ میں تھا جو کہ انگریز عہد میںانڈین ریلوے کے ملازم تھے۔ ان سے پہلے ان کے والد اما م دین کے ہاتھ میں تھا ۔ عزیز صاحب کی وفات کے بعد اب تمام معاملات ان کے بھانجے حافظ سمیع دیکھتے ہیں ۔

مسجد کے آگے میدان کی ایک اپنی تاریخ ہے اس میدان میں گیارہویں شریف اور عیدمیلاد النبیﷺ کے موقوں پر قوالیوں کی خاص محافل کااہتمام ہوتا تھا ۔ جس میںاپنے وقت کے بڑے بڑے قوالوں نے اپنا فن پیش کیا ۔ اس کے علاوہ لوگ جادو کے اثرات ختم کرنے کے لئے قوالی کا ایک خاص رنگ ’’چوکی کھیلنا‘‘ کا بھی اہتمام کرتے تھے۔ تقسیم کے بعد ایک مولوی صاحب ہندوستان سے اس محلے میں آن بسے اور اس مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دیتے رہے ان کا اصلی نام محمد زاہد تھا لیکن وہ اندرون شہر میں ’’کالے مولوی‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے ۔ وہ اسلامی شریعت پرانتہائی سخت کاربند تھے۔ تصویر نہ اتارنے کے باعث پاسپورٹ نہ بنوا سکے۔

بیوی بچے ہندوستان ہی میں رہ گئے اور محمد زاہد نے اہل محلہ کے بچوں کو ہی اپنے بچے جانا اور یہیں پاکستان ہی میں فوت ہوئے ۔ ان کے بعد حاضر امام ’’قاری صبح صادق‘‘ ہیں ۔ کالے مولوی صاحب اور عزیز صاحب کی مانند بڑے بزرگ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اسی میدان میں دو اور گھر بھی پورے شہر میں اپنا شہرہ رکھتے تھے۔ ان گھروں کی وجہ شہرت اس زمانے میں کیبل اور انٹرنیٹ کی جدیدیت کا نہ ہونا بھی تھی۔ ایک گھر ’’آرائیوں کا گھر‘‘ تھا ان کے گھر میں جب بھی کوئی شادی ہوتی تھی تو اسی میدن میں وہ طوائف کا مجرا کرواتے تھے۔ اس وقت یوں جان پڑتا تھا کہ جیسے سارا شہر ہی محلے کی چھتوں پر اکٹھا ہو گیا ہو ۔

دوسرا گھر ’’بھائی دے منڈے‘‘ ان کا تھا۔ ان لڑکوں کا یہ کمال تھا کہ اس محلے میں کسی کے گھر میںبھی شادی ہوتی تھی تو وہ لڑکے ایک خاص قسم کاناچ ناچتے تھے وہ لڑکے یہ کام اہل محلہ کی خوشی کے لئے کرتے تھے اور ان کا کسی بھی قسم کے خواجہ سراؤں سے تعلق ہرگز نہ تھا۔ بڑے بزرگوں کے جانے کے بعد اب نہ ہی کوئی نعتیہ محفل‘ اور نہ ہی کوئی ناچ‘ بس اس چھوٹے سے میدان کے چاروں کونوں میں گند دکھائی دیتا ہے ۔ عزیز صاحب کا گھر ان کی زندگی ہی میں بک گیا تھا جس میں اب پنسار کی دکان والوں نے گودام بنا رکھا ہے۔ چوکی کھیلنے کی رسم بھی اب خواب خیال ہی دکھائی دیتی ہے مسجد کی عمارت کے ماتھے پر نظر ڈالیں تو یہ تختی دکھائی دیتی ہے ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
لا اللہ الا اللہ محمد رسول اللہ
غوثیہ مسجد محلہ نمدگراں
1328ہجری
یہ تختی مسجد کی تعمیر نو کی ہے 1909ء کا اس کی ابتدائی تعمیر سے کوئی تعلق نہیں ۔ مسجد کی تعمیر اپنی جگہ پر انتہائی انوکھی ہے۔ مسجد کی بنیادیں ایک پرانے کنوئیں پر ہیں۔ مسجد کی عمارت کی شمالی دیوار میں گرم پانی کی ایک ٹینکی تھی۔ مسجد کی عمارت کی اوپر والی منزل بھی مدور ہے۔ شمالی سیدھ میں کنوئیں کی چرخی اور اس کا ’’بوکا‘‘ آج بھی دکھائی دیتا ہے لیکن اب یہاں سے پانی نہیں نکالا جاتا ۔ 1990تک اس کنوئیں کا پانی اپنی خاص ٹھنڈک کے باعث تمام محلے والوں کے لئے گرمیوں میں ایک نعمت خاص تھا ۔

مسجد کی عمارت میں جنوب سیدھ کی دیوار میں امام صاحب کا قدیمی حجرہ آج بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔ مسجد کے داخلی دروازے کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا وضو خانہ ہے۔ اس وضو خانے کے ساتھ ہی سیڑھیاں گھومتی ہوئی دوسری منزل تک جاتی ہیں ۔ مسجد کے اکلوتے ہال میں خوش قسمتی سے وہ خاص سوراخ دکھائی دیتے ہیں جو کہ اسپیکر کے آنے سے پہلے مسجد وں کی تعمیر کا ایک لازمی جزو تھے ۔ ان سوراخوں کی مدد سے مؤذن حضرات کی اذان اہل محلہ تک جاتی تھی ۔ اکثر مساجد میں یہ سوراخ اب بند کر دیئے گئے ہیں ۔ مسجد کی دیواروں سے نانک شاہی اینٹیں دکھائی دیتی ہیں ۔ ان پر سفید اور سبز رنگ کی سفیدی کروا دی گئی ہے۔

مسجد کی چھت کے نیچے چھوٹے چھوٹے سے گنبد بطور نمونہ تعمیر کئے گئے ہیں۔ مسجد کا ایک پرانا جھروکہ (چھجا) آج بھی دکھائی دیتا ہے ۔ مسجد کا اپنا کوئی گنبد اور مینار نہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔