ہندوستانی مہمانوں کے فرمودات

ظہیر اختر بیدری  منگل 30 جون 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پچھلے دنوں ہندوستان سے دو عمائدین کراچی آئے تھے، ان میں سے ایک ادیب وبھوتی نارائن رائے تھے جن کے بارے میں بتایاگیا کہ موصوف گاندھی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے ہیں اور دوسری شخصیت شریمتی وندھنامشرا تھیں جو ایک معروف شاعرہ ہیں اور جن کا تعلق لکھنو سے ہے۔ ہمیں پیغام ملا کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیر انتظام ان بھارتی اکابرین کے ساتھ ارتقا آفس میں ایک نشست کا اہتمام کیا گیا ہے اور ہمیں اس نشست میں شرکت کرنا ہے اگرچہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ہم نے سیاسی اور ادبی تقریبات میں شرکت کرنا بہت کم کردیا ہے لیکن چونکہ مہمانوں کا تعلق ہندوستان سے تھا اور ہم ہمیشہ برصغیر کے حوالے سے ہندوستانی اکابرین کے خیالات جاننے کے خواہش مند رہے ہیں، سو ہم کسی نہ کسی طرح اس تقریب میں پہنچ گئے۔

جس وقت ہم ارتقا کے آفس میں پہنچے اس وقت برادرم ڈاکٹر جعفر احمد سید تعارفی تقریر کررہے تھے۔ ڈاکٹر جعفر ادب کے حوالے سے بڑی فعال شخصیت ہیں، شاید ہی کوئی ادبی تقریب ایسی ہو جس میں ڈاکٹر جعفر احمد کلیدی کردار ادا نہ کر رہے ہوں، ڈاکٹر جعفر برصغیر میں ادبی صورتحال کے ساتھ ساتھ مہمانوں کا تعارف بھی کرارہے تھے چونکہ روایت کے مطابق یہ تقریب بھی بہت لیٹ شروع ہوئی تھی ۔اس لیے کسی پاکستانی مقرر کو تقریر کرنے کا موقع نہ ملا، ڈاکٹر جعفر کے بعد لکھنو کے تاریخی شہر سے آنے والی شاعرہ شریمتی وندھنامشرا نے اپنی کئی متاثر کن نظمیں سنائیں اور حاضرین سے خوب داد حاصل کی چونکہ وندھنا فکری حوالے سے ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہیں سو ان کی شاعری کے موضوع بھی برصغیر کے غریب عوام اور ان کے مسائل تھے۔

وندھنا مشرا کے بعد ڈاکٹر جعفر نے معروف ادیب وبھوتی نارائن کو دعوت کلام دی، وبھوتی نارائن بھی فکری حوالے سے بہت فعال ہیں خاص طور پر ہندوستان کے نوجوان طبقے اور طلبا کی سماجی اور سیاسی بیداری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ وبھوتی نارائن نے ہندوستان میں ادبی محاذ پر ہونے والے سرگرمیوں سے حاضرین کو آگاہ کیا اور بتایاکہ وہاں مختلف زبانوں میں بہترین ادب لکھا جارہاہے اور منظم طور پر اچھے بین الاقوامی ادب کا ہندی زبانوں میں بڑے پیمانے پر ترجمہ کیا جارہاہے چونکہ نارائن جی ایک ترقی پسند ادیب ہیں اور کئی ادبی کتابوں کے مصنف بھی ہیں لہٰذا ادب پر انھیں پورا پورا عبور بھی حاصل ہے اور وہ ادب برائے زندگی کے اسرار اور اہمیت سے بھی واقف ہیں۔

ہندوستان کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی اور کامیابی کے بعد بی جے پی حکومت جس مذہبی انتہا پسند سیاست پر کاربند ہے اس کے مہلک اثرات سے پاکستان سمیت خطے کے دوسرے ممالک میں تشویش پیدا ہونا ایک فکری بات ہے۔ وبوتھی نارائن نے بھی اپنی تقریر کے دوران ادبی مسائل کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سیاست پر بھی تفصیلی گفتگو کی اور بی جے پی حکومت کی مذہبی انتہا پسند پالیسیوں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔

انھوں نے کہاکہ بی جے پی کی مذہبی انتہا پسندانہ سرگرمیوں کے باوجود ہندوستان میں سیکولرازم کو کوئی خطرہ نہیں کیوں کہ اس کی بنیادیں اتنی مضبوط ہیں کہ اسے بی جے پی کی غیر منطقی کوششیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتیں موصوف نے مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کے حوالے سے بی جے پی کی خطرناک سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ بی جے پی تین شعبوں پر خاص توجہ دے رہی ہے، جن میں ایک شعبہ تعلیم کا ہے، ایک میڈیا کا ایک بیوروکریسی کا مودی حکومت ان شعبوں پر گرفت حاصل کرنے اور ان شعبوں میں اپنی پالیسیوں کے مطابق بنیادی تبدیلیاں لانے کی بھرپورکوشش کررہی ہے اسکولوں اورکالجوں کے نصاب میں مذہبی انتہا پسندانہ مواد ٹھونسا جارہاہے۔

نئی نسل کے ذہنوں کو انتہا پسندی سے موسوم کیا جارہا ہے اور طلبا میں تعصب امتیازات کے فروغ کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اسی طرح بیوروکریسی میں اپنے بندوں کو بڑے پیمانے پر داخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بیوروکریسی ایک ایسا شعبہ ہے جو حکومتی پالیسیوں پر عمل در آمد کرانے کا ذمے دار ہوتا ہے بی جے پی کی حکومت بیوروکریسی پر اپنی گرفتار مضبوط کرنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ حکومتی پالیسیوں پر عمل درآمد میں آسانی ہو۔

میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا آج کے دورکی ایک بہت بڑی طاقت ہے جو رائے عامہ پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے نارائن جی نے انکشاف کیا کہ اس انڈسٹری میں صحافیوں کی حیثیت روبوٹ جیسی بنادی گئی ہے ۔ مالکان اخبارات کی پالیسیوں کا تعین کرتے ہیں اور اس تعین کے پیچھے ان کے مالی مفادات ہوتے ہیں آج تک کسی نہ کسی صحافی کا نام بحیثیت ایڈیٹر اخبار میں ڈالا جاتا تھا۔ اب مالکان نے یہ تکلف بھی چھوڑدیا ہے وہی پبلشر ہیں وہی ڈائریکٹر ہیں وہی ایڈیٹر بن رہے ہیں۔ اس رجحان کے خلاف سخت مزاحمت ہونی چاہیے، لیکن فی الوقت اس حوالے سے سناٹا ہی نظر آتا ہے۔

میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے ایک دور وہ تھا جب میڈیا تحقیقی خبریں شایع کرتا تھا، اب میڈیا کے مالکان تحقیقی خبروں کے بجائے اپنے طبقاتی اور پیشہ ورانہ مفادات کے مطابق تخلیقی خبریں شایع کرکے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وبھوتی نارائن نے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان محبت اور بھائی چارے کی فضا کے فروغ کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے اس ضرورت کی طرف توجہ دلائی کہ دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں خصوصاً ادیبوں، شاعروں، دانشوروں کے وفود کا بڑے پیمانے پر تبادلہ ہونا چاہیے۔

یہ خیال بہت اچھا ہے لیکن اس حوالے سے دونوں ملکوں کی حکومتوں کی پالیسیاں اس قدر غیر متوازن بلکہ منفی ہیں کہ ویزا کا حصول عملاً ناممکن بنادیا گیا ہے اور شدید ترین ضرورت کے موقعے پر بھی ویزا حاصل کرنا ممکن نہیں رہتا۔ 1947 میں ملک کے ساتھ لاکھوں خاندانوں کا جو بٹوارہ ہوا اس کا ایک المیہ یہ ہے کہ بھائی بہن، ماں باپ جیسے رشتے بٹوارے کی نذر ہوئے کوئی بیٹا باپ کو بستر مرگ پر پڑے جانتا تو ہے لیکن ان کے پاس پہنچ نہیں سکتا یہی حال دوسرے رشتے داروں کا ہے اس ظالمانہ پالیسیوں کو بدلنے کے لیے ہر سطح پر بھرپور کوشش ہونی چاہیے۔

میں نے عشروں سے ہندوستانی زعما کی اس نفسیات کا مطالعہ کیا ہے کہ ہندوستان سے آنے والا کوئی مہمان مسئلہ کشمیر پرکوئی واضح اور حقیقت پسندانہ رائے کا اظہار نہیں کرتا، کوئی ادیب، کوئی شاعر، کوئی دانشور یہ کہنے کی جرأت نہیں کرتا کہ کشمیر کے مسلم کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل ہونا چاہیے اور جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا جنوبی ایشیا کے ان دو بڑے ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں نہ عوام کے درمیان پائی جانے والی دوریاں ختم ہوسکتی ہیں۔

کشمیر کے مسئلے پر مبہم اور جانبدارانہ رویے ہندوستانی ادیبوں، شاعروں، صحافیوں، دانشوروں کا وہ جرم ہیں جس کی سزا اس خطے کے عوام 68 سالوں سے بھگت رہے ہیں اور یہی حال رہا تو آیندہ کئی نسلیں اس غیر منصفانہ غیر حقیقت پسندانہ رویوں کی سزا بھگتتے رہیںگے۔ وبھوتی نارائن اور وندھنا مشرا کا تعلق روشن خیال طبقات سے ہے یہ حضرات دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان محبت کے رشتوں کا فروغ چاہتے ہیں تو انھیں اس خواہش کی راہ میں حائل مسئلہ کشمیر پر ایک واضح حقیقت پسندانہ اور منصفانہ موقف اپنانا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔