ایکواڈور کا آخری ’آئس مین‘

ندیم سبحان  منگل 30 جون 2015
اس کی موت کے ساتھ ہی کئی صدی پرانا پیشہ قصۂ ماضی بن جائے گا۔ فوٹو: فائل

اس کی موت کے ساتھ ہی کئی صدی پرانا پیشہ قصۂ ماضی بن جائے گا۔ فوٹو: فائل

برف کی ضرورت ہو تو آپ گھر میں موجود فریزر یا پھر بازارمیں قائم برف ڈپو کا رُخ کرتے ہیں، مگر ایکواڈور کے شہر Riobamba کے باسی بالٹازر اوشا کے منتظر رہتے ہیں کہ کب وہ برف لائے اور کب وہ خریدیں۔

68 سالہ بالٹازر مضافاتی گاؤں کا رہائشی ہے۔ برف بیچنا اس کا آبائی پیشہ ہے۔ اس کا خاندان کئی صدیوں سے اس کاروبار سے منسلک ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا سیکڑوں سال پہلے پانی کو برف بنانے کی ٹیکنالوجی موجود تھی؟ جی نہیں، نہ تو اس دور میں پانی کو منجمد کرنے کی ٹیکنالوجی موجود تھی اور نہ اوشا کے آباء و اجداد مصنوعی برف بناتے تھے۔ وہ قدرتی برف فروخت کرتے تھے، اور اوشا آج بھی یہی کررہا ہے۔ وہ چمبورازو نامی پہاڑی چوٹی پر جمی برف توڑ کر لاتا ہے، اور اسے بازار میں فروخت کرتا ہے!

چمبورازو، ایکواڈور کی بلند ترین پہاڑی چوٹی ہے جسے مقامی اور اردگرد کی آبادی میں مقدس سمجھا جاتا ہے۔ اس کی اونچائی20564 فٹ ہے۔ پہاڑی پر کئی سو فٹ کی بلندی پر ایک گلیشیئر موجود ہے۔ اوشا اسی گلیشیئر سے برف کے ٹکڑے توڑ کر لے جاتا ہے ۔ برف فروشی کئی نسلوں سے اس کا خاندانی پیشہ چلا آرہا ہے، مگر اب بالٹازر اپنے قبیلے کا آخری آدمی بچا ہے جو ہنوز اس پیشے سے وابستہ ہے۔ اس کی موت کے ساتھ ہی یہ باب ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا۔ بالٹازر کے سیکڑوں عزیز و اقارب موجود ہیں مگر وہ سب کے سب دوسرے پیشے اختیار کرچکے ہیں۔ اسی لیے بالٹازر کو ملک بھر میں ’ لاسٹ آئس مین‘ کہا جاتا ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/06/Aqua.jpg

بالٹازر ہفتے میں ایک دن چمبورازو کا رُخ کرتا ہے۔ اس کا گاؤں اسی پہاڑی کے دامن میں ہے۔ اس سفر میں بالٹازر تنہا نہیں ہوتا۔ اس کا داماد، جوآن بھی اس کے ہمراہ ہوتا ہے۔ برف کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو لاد کر لانے کے لیے ایک خچّر بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ عمر کے پیش نظر پہاڑی ڈھلوانوں پر سیکڑوں فٹ کا فاصلہ طے کرنا، برف کے ٹکڑے توڑنا، اور پھر ان ٹکڑوں کو کندھے پر اٹھا کر خچر پر لادنا انتہائی پُرمشقت کام ہے۔ مگر بالٹازر کا کہنا ہے کہ وہ لڑکپن ہی میں اس مشقت کا عادی ہوچکا تھا۔

بالٹازر کا کہنا ہے کہ ایک دور میں اس کا پورا خاندان اسی پیشے سے منسلک تھا۔ وہ اپنے والدین، بہن بھائیوں اور عم زادوں کی ہمراہی میں پہاڑی پر جاتا تھا، اور قدرتی برف کے بڑے بڑے ٹکڑے توڑ کر لاتا تھا۔ یہ برف شہر میں فروخت کردی جاتی تھی، اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے خاندان کی ضروریات پوری کی جاتی تھیں۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/06/Aqua1.jpg

اوشا اور جو آن صبح سات بجے گھر سے نکلتے ہیں۔ خچر پر ایک گھنٹے کے سفر کے بعد وہ چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں سے گھرے ہوئے ایک مقام تک پہنچتے ہیں۔ یہاں سے برف کو ڈھانپنے کے لیے وہ سوکھی گھاس اور تنکے وغیرہ اکٹھے کرتے ہیں۔ گھاس پھوس خچر پر لاد دیا جاتا ہے اور اب وہ پیدل ہی اپنی منزل کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔ دوپہر کے وقت وہ گلیشیئر تک جا پہنچتے ہیں جو Los Hieleros کہلاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر وہ کچھ دیر سستاتے ہیں، اور پھر برف کے ٹکڑے توڑنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ وہ برف کو اوزاروں کی مدد سے مکعب نما ٹکڑوں کی شکل دیتے ہیں، اور پھر انھیں گھاس پھوس میں لپیٹ کر خچر پر لاد دیتے ہیں۔ پھر ان کا واپسی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ شام چار بجے تک وہ گھر پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ دیر سستانے کے بعد اوشا خچر کو لے کر نزدیکی شہر کی طرف روانہ ہوجاتا ہے، جہاں لگے بندھے گاہک اس کے منتظر ہوتے ہیں۔ وہ 80 پونڈ وزنی برف کا بلاک ڈھائی ڈالر میں فروخت کرتا ہے۔ اس طرح اسے اوسطاً 25 ڈالر کی آمدنی ہوجاتی ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ فریزر ہونے کے باوجود لوگ اوشا کی برف خریدتے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ مقدس پہاڑی کی برف شفا بخش ہے۔ وہ اسے روایتی مشروبات اور آئس کریم کی تیاری میں استعمال کرتے ہیں۔ تاہم اوشا کے بعد انھیں شفا بخش برف حاصل کرنے کے لیے خود مشقت اٹھانی ہوگی۔

اوشا علاقے میں بہت مقبول ہے۔ لوگ برف خریدنے کے علاوہ اس کے ساتھ تصویریں بھی بنواتے ہیں۔اس کے روز و شب پرکئی دستاویزی فلمیں بھی بنائی جاچکی ہیں۔ اوشا کے چرچے ہونے پر ملک کے صدر رافیل کوریا نے بھی اسے شرف ملاقات بخشا تھا۔ اس ملاقات کو وہ اپنی زندگی کا ناقابل فراموش لمحہ قرار دیتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔