ٹیکس نیٹ میں توسیع؛ ایف بی آر کے عالمی بینک سے ڈیٹا ویئر ہاؤس قائم کرنے پر مذاکرات

ارشاد انصاری  منگل 30 جون 2015
جن لوگوں کا ریکارڈ حاصل کیا گیا ہے ان کی چھان بین کے بعد انہیں نوٹس بھی جاری کیے جارہے ہیں جبکہ ڈیٹا ویئر ہاؤس ایف بی آرکے پاس ایک مستقل ریکارڈ ہو گا، ایف بی آرذرائع۔ فوٹو: فائل

جن لوگوں کا ریکارڈ حاصل کیا گیا ہے ان کی چھان بین کے بعد انہیں نوٹس بھی جاری کیے جارہے ہیں جبکہ ڈیٹا ویئر ہاؤس ایف بی آرکے پاس ایک مستقل ریکارڈ ہو گا، ایف بی آرذرائع۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: ملک میں ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے لیے عالمی بینک اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے درمیان جدید ڈیٹا ویئر ہاؤس قائم کرنے کے حوالے سے مذاکرات شروع ہوگئے ہیں۔

اس ضمن میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کے سینئر افسر نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ عالمی بینک کا اعلیٰ سطح کا مشن پاکستان کے دورے پر ہے جو 9جولائی تک پاکستان میں قیام کرے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ عالمی بینک کا جائزہ مشن مختلف ماتحت اداروں اور فیلڈ فارمشنز کے دورے کررہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ عالمی بینک کے تعان سے قائم کیے جانے والے اس ڈیٹا ویئر ہاؤس کے لیے تمام یوٹیلٹی کمپنیوں، اداروں، موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹیز، ایئرلائنز، بینکوں، نادرا، ایکسائز ڈپارٹمنٹ و دیگر وفاقی و صوبائی اداروں سے ڈیٹا حاصل کیا جائے گا۔

ذرائع نے بتایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کی طرف سے ورکنگ مکمل کر لی گئی ہے اور عالمی بینک کے ذریعے ڈی ایف آئی ڈی کی طرف سے پاکستان کو ملنے والی ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی امداد سے جدید نوعیت کا ڈیٹا ویئر ہاؤس قائم کیا جائے گا، اس کے علاوہ ایف بی آر اور اس کے فیلڈ فارمشنز میں جدید کمپیوٹر آلات و مشینری نصب کی جائے گی جس کا بنیادی مقصد آٹومیشن کو فروغ دینا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ صوبائی رجسٹرار سمیت پراپرٹی کی خریدوفروخت سے متعلقہ اداروں کو قانونی طور پر پابند کیا جائے گا کہ صوبوں میں جو بھی جائیداد کی خریدوفروخت ہو خواہ ان جائیدادوں کی رجسٹریاں ہوں یا انتقال ہو اس کی ایک کاپی لازمی طور پر ایف بی آر کو بھجوائی جائے۔

ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ اقدام کا بنیادی مقصد ملکی معیشت کو دستاویزی بنانا ہے۔ مذکورہ افسر نے بتایا کہ ایف بی آر ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح بڑھانے کے لیے جامع مضبوط ڈیٹا بینک قائم کرنے جارہا ہے اور اس ڈیٹا بینک کے لیے مختلف ذرائع سے ڈیٹا اکھٹا کر رہا ہے اور یہ اقدام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہوگا تاہم اس بارے میں چاروں صوبوں کو بھی آن بورڈ لیا جائے گا اور اس ڈیٹا بینک اور ڈیٹا ویئر ہاؤس کے قیام سے صوبوں کے وسائل بھی بڑھیں گے اور صوبے بھی اس ڈیٹا بینک سے فاہدہ اٹھا کر اپنے ریونیو کو بڑھا سکیں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ تمام صوبائی رجسٹرار اور دیگر متعلقہ ادارے اس بات کے پابند ہوں گے کہ جو بھی پراپرٹی کی خریدوفروخت ہوگی اس کی تفصیلات اور رجسٹری کی ایک کاپی ایف بی آر کو بھجوائی جائے گی اور اس ڈیٹا کی مدد سے ایف بی آر کو ٹیکس سے باہر لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور لوگوں کی آمدنی و اخراجات کی تفصیلات کے حصول میں مدد ملے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ تمام اداروں سے ڈیٹا حاصل کرکے ڈیٹا ویئر ہاؤس میں اپ ڈیٹ کیا جائے گا اور اس ڈیٹا ویئر ہاؤس کی بنیاد پر جدیدسافٹ ویئر تیار کیا جائے گا جس کی مدد سے قابل ٹیکس آمدنی رکھنے کے باوجود ٹیکس نہ دینے والے اور اپنی مطلوبہ صلاحیت و آمدنی کے مطابق ٹیکس نہ دینے والوں کا سراغ لگا کر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور ٹیکس و واجبات وصول کیے جائیں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ ڈیٹا ویئر ہاوس کی تیاری کے لیے ایف بی آر نے ابتدائی کام کرلیا ہے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ماتحت ادارے براڈننگ آف ٹیکس بیس ملک کے بڑے شہروں کی موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹیز سے 7لاکھ 48 ہزار 541 لوگوں کا نہ صرف ریکارڈ حاصل کر بھی چکا ہے بلکہ ان کے خلاف کارروائی بھی جاری ہے جنہوں نے1300 سی سی سے اوپر کی گاڑیاں خرید کر رجسٹرڈ کرائی ہیں مگر وہ ٹیکس نہیں دے رہے۔

ذرائع کے مطابق سب سے زیادہ نان ٹیکس پیئرزکی گاڑیاں موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹی لاہور میں رجسٹرڈ ہوئی ہیں جبکہ موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹی کراچی کی جانب سے 2لاکھ 97 ہزار 950گاڑیوں کا ریکارڈ فراہم کیا گیا ہے،اسلام آباد1لاکھ 27 ہزار 201، فیصل آباد13 ہزار 523، گوجرانوالہ 3ہزار 805 گاڑیوں کا، راولپنڈی 1490اور موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹی لاہورسے 3لاکھ 4ہزار472 گاڑیوں کا ڈیٹا فراہم کیا گیا ہے جبکہ کار مینوفیکچررز کی جانب سے 2لاکھ 71ہزار 746 نئی گاڑیاں خریدنے والوں کا ڈیٹا اور ریکارڈ فراہم کیا ہے، اس کے علاوہ بجلی کی صرف 3 بڑی تقسیم کار کمپنیوں نے 10لاکھ 3 ہزار 949کمرشل و صنعتی صارفین کا ریکارڈ فراہم کیا ہے،کے الیکٹرک نے 4لاکھ 41 ہزار،فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی نے3لاکھ 34 ہزار202اور گوجرانوالہ الیکٹرک سپلائی کمپنی نے 2لاکھ 28 ہزار747 صارفین کا ریکارڈ دیا، سوئی ناردرن گیس پائپ لائن نے 2ہزار323کمرشل و صنعتی کنکشن رکھنے والوں کا ڈیٹا فراہم کیا جبکہ جائیداد کی رجسٹری کرنے والی 2اتھارٹیز سے4 لاکھ84 ہزار لوگوں کا ڈیٹا حاصل کیا گیا ہے جس میں 4 لاکھ لوگوں کا ڈیٹا لاہور اتھارٹی سے جبکہ84ہزار کا ریکارڈ ڈی ایچ اے، بلدیہ کراچی و دیگر سے حاصل کیا گیا ہے، پلاٹس خریدنے والوں کا بھی ریکارڈ حاصل کیا گیاہے جس میں سے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی نے 5 ہزار 620افراد، کراچی کی نجی کمپنیوں نے 118 جبکہ گلبرگ گرینز اسلام آباد کے فارم ہاؤسز کے حوالے سے 595 افراد کا ریکارڈ فراہم کیا گیا ہے، اس کے علاوہ پاکستان میڈیکل ڈینٹل کونسل سے 1 لاکھ86 ہزار408 ڈاکٹرز اور پاکستان بار سے 3 ہزار 697 وکلا کا ریکارڈ حاصل کیا گیا ہے، یلو پیجز پاکستان سے ساڑھے 4 ہزارافراد کے بارے میں ڈیٹا حاصل کیا گیا ہے۔

اسی طرح انڈیپنڈنٹ کالج فیصل آباد سے 413لوگوں کا نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا)سے 6 لاکھ 8 ہزار801 تاجروں اور وائنڈرز کا ڈیٹا حاصل کیا جاچکا ہے۔ ایف بی آرذرائع کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کا ریکارڈ حاصل کیا گیا ہے ان کی چھان بین کے بعد انہیں نوٹس بھی جاری کیے جارہے ہیں جبکہ ڈیٹا ویئر ہاؤس ایف بی آرکے پاس ایک مستقل ریکارڈ ہو گا جسے تسلسل کے ساتھ اپ گریڈ اور اپ ڈیٹ کیا جائے گا، اس ڈیٹا ویئر ہاؤس کی مدد سے نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔