متاثرینِ مغرب

ضیاء اللہ ہمدرد  منگل 30 جون 2015
ہمارے معاشرے میں بھی بڑی برائیاں موجود ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ان برائیوں کو قانونی حیثیت دیں۔ فوٹو:فائل

ہمارے معاشرے میں بھی بڑی برائیاں موجود ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ان برائیوں کو قانونی حیثیت دیں۔ فوٹو:فائل

26 جون 2015 کو امریکی سپریم کورٹ کا ہم جنس پرستی کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد قوس وقزح کے سات رنگوں کا جھنڈا ہاتھوں میں تھامے نیویارک کے رہائشی 50 سالہ ٹام نے اپنی 70 سالہ بوڑھی والدہ ہیلن کو فون کرکے بتایا کہ امی جان مبارک ہو۔ آج تمہارے بیٹے کی زندگی کا سب سے اہم دن ہے۔ بوڑھی ماں نے اپنے بیٹے کو اس قدر خوش دیکھ کر کہا کہ صدقے جاواں لیکن پتر یہ بتا کہ ہوا کیا ہے؟ ٹام نے کہا امی جان وہ میرا 60 سالہ دوست پیٹر جو اکثر ہمارے گھر میں راتیں گزارتا تھا۔ وہ نہ صرف میرا دوست ہے بلکہ اب میرا خاوند بھی ہے اور میں آئندہ ہفتے اس کے ساتھ چرچ میں باقاعدہ شادی کروں گا کیونکہ سپریم کورٹ نے سارے ہم جنس پرستوں کو کھلے عام شادی کی اجازت دے دی ہے۔ یہ سن کر اس کی بوڑھی ماں جو عقیدے کے لحاظ سے قدامت پسند رومن کیتھولک ہے، نے جواب میں صرف اتنا کہا کہ ’’لکھ دی لعنت‘‘! اور فون بند کردیا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد امریکہ کے مختلف شہروں میں سارے ہم جنس پرست سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور آزادی اور غرور کا جشن منانے میں مصروف ہیں۔ سارے یورپی میڈیا میں قوس و قزح کے سات رنگوں والے جھنڈے کی تصویریں ہیں اور نوجوان لڑکے لڑکیوں، انٹی انکلز سمیت عمر رسیدہ ہم جنس پرست مرد اور عورتیں ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ امریکی اور یورپی اقوام کی ایک دوسرے کو مبارکباد اورخوشیاں منانے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے۔ جیسے ٹام کو پیٹر جیسا خاوند ملا۔ وہ اب اپنی آخری عمر میں بغیر کسی خوف کے الماری سے نکل کر اپنا گھر بساسکے گا۔ لیکن مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ پرائی شادی میں دیوانے پاکستانی کیوں اتنا خوش ہیں؟

میرا ایک دوست جس نے اپنے فیس بک ڈسپلے پیکچر کو قوس و قزح کے سات رنگوں سے کلرفل کردیا ہے، سے جب میں نے صرف اتنا پوچھا کہ تم بھی؟ اس نے غصہ ہوکر کہا بکواس بند کرو، میں وہ نہیں ہوں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ میرا پختہ یقین ہوگیا کہ متاثرین سیلاب، متاثرین زلزلہ، متاثرین آپریشن، متاثرین جنگ کی طرح میرے ملک میں متاثرین مغرب کی بھی کافی تعداد موجود ہے جو توجہ کے لائق ہیں ورنہ حالات بگڑ سکتے ہیں۔

میں نے کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر امریکہ کی خارجہ پالیسی کو ہدف تنقید بنایا توخود کو روشن خیال سمجھنے والے اُس دوست نے اُسے میرا تعصب، تنگ نظری اور میری ذہنی تاریکی قرار دیا۔ میں نےعراق کی مثال دی کہ پوری قوم سے جھوٹ بول کر انہوں نے ایک ملک کو تہس نہس کردیا۔ اس کے مطابق اس میں بھی عراق کا اپنا قصور تھا۔ وہ امریکہ کی طرح طاقتور کیوں نہیں تھا اور اس نے امریکہ کی طرح اسلحہ اور ایٹم بم کیوں نہیں بنائے۔

مجھے امریکہ میں دنیا کے خوبصورت ترین اور عیاش ترین شہر میں رہنے کا موقع ملا لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں بھی ان کے نقل اتارنے کی کوشش کروں۔ میں وہاں کی نیشنلٹی بھی حاصل کرتا تب بھی میری زیادہ ترعادات پختونوں اور پاکستانیوں سے ہی ملتیں کیونکہ امریکہ میں آج بھی مختلف قومیتوں کے لوگ اپنی قومیتوں پر فخر کرتے ہیں۔ میں اس قوم کی انسانیت کے لئے گراں قدر خدمات کا معترف ہوں۔ میں نہ صرف ان کی سائنس و ٹیکنالوجی میں نت نئے ایجادات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں میں ان کی خدمات کی گواہی دیتا ہوں۔ میں اُس قوم کی ڈسپلن سے متاثر ہوں۔ میں نے انہیں تفریحی پارکوں میں ٹوائلٹ کے لئے لمبی لمبی قطاریں بناتے دیکھا ہے۔ اُس قوم میں بہت ساری خوبیاں ایسی ہیں جو دنیا کی کسی قوم کے پاس نہیں لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں ان کے ان ناجائز کاموں کی بھی حمایت کرنا شروع کردوں جو بہرحال میری سوچ کے مطابق غلط ہیں۔

جس طرح انہوں نے انسانیت کی فلاح وبہبود کے لئے کارنامے سرانجام دیے اُسی طرح انہوں نے انسانیت کی تذلیل اور بربادی کے لئے بہت کچھ کیا ہے۔ میں نے اُسے کہا کہ امریکہ معاشرہ جس زوال کا شکار ہے، اِن تمام تر خوبیوں کے باوجود بھی یہ دھڑام سے گرجائے گا۔ جب سے یورپ میں مذہب کو ریاست کے ہاتھوں شکست ہوئی ہے تب سے لے کر آج تک ان کا آزاد خیال اور روشن خیال طبقہ ان کے ساتھ مذاق کرنے میں مصروف ہیں۔ سیکولرازم کے نام پر انہیں دنیا میں جو چاہو کرتے پھرو کے فارمولے پر گامزن کرکے دنیا کو جنت بنانے کے مشن پر تلے ہوئے ہیں۔ مذہب کے بیوپاریوں سے فراغت حاصل کرنے کے لئے انہوں نے مذہب کو بھی خیرباد کہہ دیا۔ اگر چہ اب بھی امریکہ و برطانیہ خود کو عیسائی ریاستیں کہتی ہیں لیکن ان کا مذہب سے رشتہ ایک فارملٹی کے سوا کچھ نہیں۔ آج بھی امریکہ میں صدر کے لئے عیسائی ہونا لازمی ہے۔ آج بھی ان کے ڈالر پر یہ جملہ لکھا ہوا ہے کہ ’’ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔ آج بھی صدر بش افغانستان پر چڑھائی کرنے سے پہلے ویٹی کن جاکر پوپ سے آخری کروسیڈ کے لئے آشیرباد لیتا ہے۔ آج بھی یورپ و امریکہ میں کرسمس اور ایسٹر جیسی مذہبی تہواریں جوش وجذبے سے منائی جاتی ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ اس لئے معانی نہیں رکھتی کہ انہوں نے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دے رکھا ہے اور ان کے پارلیمان کے فیصلے انہیں انجیل سے زیادہ مقدم ہوتے ہیں اس لئے اگر وہ ان کی مذہبی تعلیمات کے خلاف بھی ہوں، تب بھی وہ مذہب کو بالائے طاق رکھ کر وہی کرتے ہیں جو انہیں پسند ہوتا ہے اور یہی وہ بنیادی المیہ ہے جس نے پورے یورپ کو کنفیوز کر رکھا ہے۔

یورپ و امریکہ کے باشندوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے عیسائی مولوی انہیں پیسوں کے بدلے جنت بیچتے تھے۔ چرچ سے جان چھڑانے کے بعد یہ بیچارے آسمان سے گرے، کھجور میں اٹکے کی مانند کارپوریشن مافیا کے جال میں پھنس گئے۔ جنہوں نے ان کی طرز معاشرت کو کاروبار بنادیا۔ دین کو ریاست سے الگ کرکے انہوں نے چنگیزی شروع کی اور اسے قومی مفاد کا نام دیا۔ پوری دنیا کے وسائل لوٹے اور اس بڑی چوری اور خیانت کو کالونائزیشن کا نام دیا۔ انہوں نے نئی نئی اختراعات ایجاد کرلیں۔ الفاظ کے معانی تک بدل ڈالے۔ شادی کے بجائے ناجائز مراسم بنائے اور اسے بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کہا۔ شراب و شباب کو آزادی کا نام دیا۔ پراسٹیٹوٹس کو سیکس ورکرز کا خطاب دیا تاکہ دھندا کرتے وقت ان کا عزت نفس مجروح نہ ہو۔ اُنہوں نے ایسے لوگوں کو ہومو سیکشول یعنی ہم جنس پرست کے لقب سے نوازا اور آج اس پر فخر کرنے کے لئے پریڈز کا انعقاد کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس کے لئے جواز ڈھونڈنے شروع کئے لیکن جب کہیں سے کوئی جواز نہیں ملا تو انہوں نے یہ بہانے بنانے شروع کئے کہ بعض لوگ ہم جنس پرستی کی خصوصیات لے کر ہی پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے کچھ ریاستوں میں جوئے کو قانونی حیثیت دی تاکہ وہ ٹیکس لے کر حکومت بھی چلا سکیں اور جوابازوں کو اپنی زندگی برباد کرنے کی کھلی چھوٹ بھی دے دی۔ معیشت کی سب سے بڑی لعنت یعنی سود کو، جسے سارے مذاہب نے حرام قرار دیا تھا، نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ اس کے لئے بنکوں کے جال بھی بچھادئے۔ الغرض زندگی کے ہر شعبے میں انہوں نے مذہبی تعلمیات کے بالکل برعکس تمام حرام کاموں کو جائز قرار دیا۔ اچھائی اور بُرائی کے درمیان جو لکیر مذہب نے کھینچی تھی، اسے مٹادیا۔ طاقت کے نشے میں مست اس قوم نے پوری دنیا میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے نہ صرف اچھے اور بُرے کی تعریف شروع کردی بلکہ جسے انہوں نے اچھا کہا، پوری دنیا نے مان لیا۔

میں نے جس قران مجید کو پڑھا ہے اس میں ایک باب ہم جنس پرستی کے حوالے سے ہے۔ اگر لڑکے کا لڑکے کے ساتھ شادی کرنا ہی ترقی ہے تو پھر اس لحاظ سے لوط علیہ السلام کی قوم آج سے 7 ہزار سال پہلے ترقی یافتہ بنی تھی۔ جس کا حشر یہ ہوا کہ وہ قوم ہی صفحہ ہستی سے برباد ہوگئی۔ میرے دوست نے کہا تمہارا کیا خیال ہے یہ قوم بھی اس طرح برباد ہوگی؟ میں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ کس کو کتنی مہلت دیتا ہے لیکن ایک بات کا میں دل سے قائل ہوں کہ دنیا میں حکومت کرنے کے جتنے اُصول وضع ہیں ان میں ہم جنس پرستی کا عنصر شامل نہیں۔

میں اپنے دوست سے کہ ذرا سوچو کہ کل کو جب اوباما کے بجائے کوئی 60 سال کا امریکی صدر اپنے شوہر کو بھی اپنے ساتھ کسی دورے پر لائے گا تو پاکستانی حکمرانوں کو تو یہ مشکل ضرور درپیش ہوگی کہ ڈکٹیشن کس سے لی جائے۔ اُس نے کہا کہ اِس کے باوجود بھی یہ دنیا پر حکومت کریں گے۔ میں نے اُسے بتایا کہ نہیں اب تم صرف تماشا دیکھنا۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ اب تک ان کا یہ چہرہ دنیا والوں سے پوشیدہ رہا تھا۔ لوگ آج تک انہیں سیدھے لوگ سمجھتے رہے، یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں آج تک انہی کا سکہ چلتا ہے۔ ان کی 821 ملٹی نیشنل کمپنیوں نے پوری دنیا کو اپنی زنجیروں میں جکڑ کر رکھا ہے۔ ہم جنس پرست تو ہمارے معاشرے میں بھی ہیں، دوست نے جواب دیا، میں نے اسے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں ہم جنس پرستی کے علاوہ بھی تمام بڑی برائیاں موجود ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ان برائیوں کو قانونی حیثیت دیں اور جب تک پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ ان برائیوں کو قانونی حیثیت نہیں دیتی تب تک وہ برائی ہی رہے گی۔ میں نے اسے کہا کہ میرے مذہب نے بھی ہر قسم کے گناہ کے امکانات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے اور تبھی تو اس کے لئے سزائیں مقرر کی ہیں۔ لیکن جب ایک شخص اس گناہ کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتا ہے تو پھر مذہب میں اس کی کوئی جگہ نہیں رہتی۔ میرے مذہب کا ایک بہترین اصول یہی ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو کہتا ہے کہ جتنے چاہو گناہ کرلو لیکن دو کام بالکل مت کرنا۔ ایک اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا اور دوسری بات یہ کہ گناہ کو ثواب اور ثواب کو گناہ مت کہنا! بس یہی وہ غلطی ہے جو یورپ کے لبرلز اور سیکولرز کر بیٹھے اور یہی وہ بنیادی غلطی ہے جو ان کے معاشرے کو لے ڈوبے گا۔

جہاں تک پاکستان میں موجود متاثرین مغرب اور اپنی ملت پر اقوام مغرب کا قیاس کرنے والے دیسی لبرلز اور خود کو روشن خیال، ترقی پسند اور جدیدیت کے نام پر اچھل کود کرنے والوں کا تعلق ہے تو مجھے اِس بات پر اس لئے حیرت نہیں ہوتی کیونکہ غلام ابن غلام ابن غلام کے پاس نہ اپنے نظریات ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنی سوچ۔ اُنہیں کسی نہ کسی آقا کو فالو کرنا پڑتا ہے اور وہ نہ اس میں فخر محسوس کرتے ہیں بلکہ خود کو ماڈرن بھی سمجھتے ہیں۔ یہ وہ المیہ ہے جواس قوم کو پچھلے 70 سال سے درپیش ہے۔ اسلامی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والے ملک کے پالیسی ساز ابھی تک یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ وہ اس ملک کو کس طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ کوئی روس سے متاثر ہے تو کوئی برطانیہ سے۔ کوئی امریکہ سے متاثر ہے تو کوئی امریکہ کے چاپلوس سعودی عرب سے۔ کوئی اس ملک میں سوشلزم کا حامی ہے تو کوئی جمہوریت کے راگ الاپ رہے ہیں۔ لیکن پچھلے 70 سال سے اس ملک پر مغرب کے متاثرین کا پلڑا بھاری ہے اور ان کی پالیسیاں اور ان کا نظام مضبوط کرنے کے لئے دن رات محنت کررہے ہیں۔ روس کوافغانستان میں شکست ہونے کے بعد اب سوشلسٹ بھی امریکی صف میں نظر آتے ہیں اور مغربی اقوام کی ان غلطیوں اور کمزوریوں کے لئے بھی حیلے بہانے تراشتے ہیں جن کو وہ قومیں خود غلطیاں تسلیم کرچکی ہیں۔ لیکن شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار یہ لوگ اس قدر اندھی تقلید میں لگے ہیں کہ انہیں علامہ اقبال بھی آئی ایس آئی اور سعودی عرب کا ایجنٹ نظر آتا ہے جس نے سو سال پہلے کہا تھا:

میخانہ یورپ کے، دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول، دیتے ہیں شراب آخر

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دینے کے بعد امریکا کا زوال شروع ہوگیا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

ضیاء اللہ ہمدرد

ضیاء اللہ ہمدرد

فری لانس کالمسٹ ہیں اورولی خان یونیورسٹی مردان میں جرنلزم پڑھاتے ہیں۔ میڈیا ریسرچر ہیں اورصحافت، سیاست، مذہب ، سماجی اموراور انسانی حقوق کے موضوعات پرمختلف اخبارات اور میگزین کے لئے بلاگ اور آرٹیکل لکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔