ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے

قادر خان  منگل 30 جون 2015
qakhs1@gmail.com

[email protected]

بین الاقوامی میڈیا کے ماہر استاد مالکم ایکس ایک ذمے دار میڈیا کے حوالے اہم بات کہتے ہیں کہ ’’اگر آپ محتاط نہیں ہیں تو میڈیا آپ کو اُن لوگوں سے نفرت کرنا سکھا دے گا جو ظلم و زیادتی کا شکار ہیں اور ان لوگوں سے محبت جو ظلم و زیادتی کر رہے ہیں۔

میڈیا کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کرنا چاہیے، لیکن اس میں منفی دقیانوسیت کی توثیق اور اسے مزید گہرا کر کے، جارحانہ جذبات کو ہوا دیتے ہوئے اور ہر وقت طبلِ جنگ بجا کر تنازعہ کی آگ پر تیل چھڑکنے کی صلاحیت بھی ہے اور لوگوں کے خیالات اور تصورات کو چیلنج اور تبدیل کر کے، باہمی تفہیم کو فروغ دیتے اور باہمی رنجشوں کو دور کرتے ہوئے امن قائم کرنے کی جد و جہد کو آگے بڑھانے کی قوت بھی۔17 اکتوبر 2006ء کو ’’نیو یارک سن‘‘ میں شایع مضمون ’اخباری کالم اب جنگوں کے لیے گولیوں سے زیادہ اہم ہیں‘ میں مشہور یہودی وار لارڈ دانشور ڈینیل پائپس رقم طراز ہیں۔ ’’بری، بحری اور فضائی فوج کے سپاہی کبھی جنگوں کے نتائج کا تعین کرتے تھے لیکن اب نہیں۔ آج ٹیلی وژن کے پروڈیوسرز، کالم نگار، مبلغ اور سیاست دان اس بات کا فیصلہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کہ مغرب کیا لڑ رہا ہے، اس تبدیلی کے گہرے اثرات ہیں۔

’’تبصرے اور کالم اس ضمن میں قابل قدر کردار ادا کرتے ہیں اور اثر انداز ہو سکتے ہیں، کالم نگاری کا تعلق رائے کے اظہار سے ہے اور رائے جانبدار ہوتی ہے یہی وہ فرق ہے کہ رائے کی جانبداری کو غیر جانبداری سے تجزیے کے لیے اسے متوازن بنایا جائے کہ وہ مددگار ثابت ہو، انسانیت کے دائرے میں رہنے، افعال کو پرکھتے وقت پائیدار اقدار کو ملحوظ خاطر رکھنا اور فکر کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ سوچ کی وسعت اور دشمنی کی حد کو پھلانگنے کی جرات کو لحاظ برادری پر مبنی برتائو ہی دونوں طرف کے لوگوں کی پیچیدہ انسانی، سماجی اور ثقافت ی حقیقت کو سمجھنے کے لیے بہتر انداز میں کام کیا جا سکتا ہے۔

لیکن اس کے برعکس جب مفادات اور ترجیحات میں فرق پیدا ہو جائے تو مارٹن لوتھر جونیئر نے امریکی حکمرانوں اور امریکی میڈیا کے حوالے سے کہا تھا کہ ’’امریکی حکومت دنیا میں فسادات کو ہوا دینے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔‘‘ اسی طرح امریکی ماہر تعلیم اور سماجی رہنما سولومن کمیشنگ اپنے تجزیے میں کہتے ہیں کہ امریکی حکومت نے دنیا بھر میں اپنی جنگوں کو پھیلا کر موت کے دائرے کو بہت وسیع کر دیا ہے۔ ان جنگوں میں بیک وقت کئی ممالک میں شہریوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں اور امریکی کارپوریٹ میڈیا سوچی سمجھی اسکیم کے تحت انسانیت کے خلاف امریکی حکومت کے جرائم کا شریک بن چکا ہے۔‘‘

ہمیں دیکھنا یہی ہے کہ ہم اور ہمارا میڈیا کیا کردار اور کیسا ادا کر رہا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کہیں بے لگام گھوڑا تو نہیں بن گیا جس کے جانے کے رخ کا کسی کو علم ہی نہیں ہے یا پھر اس کے باگیں (ڈوریں) ایسے ہاتھوں میں ہیں جو اپنی مرضی کے مطابق اسے ہلاتا رہتا ہے۔ عالم فانی میں جنگوں سے پہلے میڈیا نے جنگ کے لیے راہ ہموار کی، تو دوسری جانب ایسی مثالیں کم ملتی ہیں کہ امن کے لیے میڈیا نے اسی طرح کام کیا ہو جس طرح جنگ کے لیے کام کیا۔ باہمی نفرتوں، تشدد، جھڑپیں، قتال، دھماکے ہمارے میڈیا کی ہاٹ اسٹوریز میں شامل ہیں لیکن امن کے نام پر عالمی میڈیا جہاں اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے تو ہمارا میڈیا بھی اس سے دور نہیں ہے۔

میڈیا کے مثبت کردار کے لیے مثبت سوچ کا ہونا ضروری ہے۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارا میڈیا مکمل طور پر جانبداری کا مظاہرہ کر رہا ہے لیکن ہم یہ بھی بغور دیکھتے ہیں کہ کیا میڈیا کا کردار مغربی میڈیا کی حرکات کا جواب دینے کے لیے موثر قوت رکھتا ہے یا نہیں۔ مثال کے طور پر بی بی سی کے نیوز فیڈنگ شعبے کی سربراہ فران انزورتھ کا ماننا تھا کہ ’’میں یہی کہوں گی کہ ہمیں واضح طور پر یہ سمجھ نہیں آئی کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار واقعی نہیں۔ یہ بات ہمیں دیر میں سمجھ آئی، اس وقت کی وہ فائل جسے اب ’دوجی ڈوزئیر‘ کہا جاتا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی شہادتیں سامنے آئیں جن سے اشارے ملے کہ میڈیا اس معاملے میں حکومتی دعوئوں کے سامنے بیوقوف بن گیا۔‘‘

اور اس بے وقوفی کی سزا کے حوالے سے اس عراقی خاتون کا ذکر کیا جاتا ہے جو ان الفاظ کے ساتھ امریکی صدر جارج بش کو مخاطب کر رہی تھی کہ ’’میرے گھر میںخوش آمدید، مسٹر بش، اسے دیکھیں کیا آپ میں ذرا بھر انسانیت ہے؟ آپ ایک چھوٹی سی بچی کو اپنے ماں اور باپ کے لیے روتا کیسے دیکھ سکتے ہیں، کہاں ہے آپ کی انسانیت؟ کہاں ہے آپ کا ضمیر؟‘‘

وہ اپنے تجزیوں اور تبصروں میں مغربی میڈیا پر اس انداز میں بات نہیں کرتے جس طرح مغربی میڈیا اپنی حکومت کی پالیسیوں کا رخ تبدیل کرنے کے لیے یا پھر حکومتیں عوام کی سوچ کے دھارے اپنی پالیسیوں کے مطابق چلانے کے لیے میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔ امریکی ماہر تعلیم اور سماجی رہنما سولومن مزید آگے بڑھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’امریکی میڈیا امریکی حکومت کے جنگ کے نشے کے بارے میں بالکل فکر مند نہیں بلکہ اسے اس کی بھی پرواہ نہیں کہ ان جنگوں کے نتیجے میں کرہ ارض کس تباہی سے دوچار ہو رہی ہے، امریکی میڈیا کو اس سے غرض نہیں تھا کہ وہ کس کو پیغام دے رہے ہیں، جب کہ ان کا پیغام بردار بھی ایک ہی رہا ہے، ہماری افواج کی حمایت کرو … خواہ یہ افواج معصوم لوگوں اور شہریوں کا قتل عام کر رہی ہوں۔

سولومن نے میلکم ایکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’میڈیا طاقت ور ہے بے گناہ کو مجرم اور مجرم کو بے گناہ بنا دیتا ہے اور عوام کے ذہنوں کو کنٹرول کرتا ہے اگر آپ ہوشیار نہ رہے تو آپ کو معصوم اور مظلوم سے نفرت اور ظالم سے محبت کرنے پر مجبور کر دے گا۔‘‘ اب امریکا ہو یا برطانیہ یا پھر مغرب کا کوئی بھی معروف میڈیا جب پاکستان کے حوالے سے رپورٹنگ کرے گا تو اس کی پالیسی واضح ہو گی کہ اس سے ان کے ملک اور ان کے میڈیا کو کس قدر فائدہ ملے گا۔

اس کا پروپیگنڈا کس قدر منفی ہے یا مثبت ہے اس سے بھی ان کو سروکار نہیں ہوتا۔ بلکہ ہمارے ہاں یہ عادت سی بنتی جا رہی ہے کہ غیر ملکی ابلاغ کی رپورٹ کو ہم من و عن درست سمجھتے ہوئے ایسے مناسب جگہ فراہم ہی نہیں کرتے بلکہ اس پر اپنے تبصروں اور آرا سے وہ ماحول پیدا کر دیتے ہیں جیسے مغربی ابلاغ سے زیادہ خیرخواہ کوئی پاکستان کا ہے ہی نہیں، بلکہ مغرب ابلاغ پاکستان کا سب سے بڑا بہی خواہ ہے۔ جب غزہ پر اسرائیل کی جانب سے حملے ہوئے اور معصوم بچوں، خواتین بزرگوں اور اسپتالوں کو نشانہ بنایا جانے لگا تو مغربی میڈیا نے اسے دکھانے سے اغماض اس لیے برتا کیونکہ اُن کی حکومت کی پالیسی یہی تھی کہ حقیقت سے کوئی آشنا نہ ہو پائے ، یہاں تک کہ نیوز اینکر و کاسٹر تک رو پڑتے تھے لیکن اپنی حکومت کی میڈیا پالیسی کے ہاتھوں اس قدر مجبور تھے لیکن اپنے انسانی جذبات پر قابو پانے میں ناکام رہے۔

لیکن اس کے مقابلے میں جب ہم مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کا مقابلہ دیکھتے ہیں تو ان کے عشر عشیر بھی ہماری رپورٹس میں نہیں ہوتا، مظاہروں اور تقاریر کی تھوڑی سی جھلک دکھا کر اپنے ذمے داری پوری کرنے کا جھوٹا احساس پیدا کر لیا جاتا ہے۔ صحافت میں ایک اصطلاح ’’غیر جانبدار‘‘ کی استعمال ہوتی ہے جسے پاکستانی اور مسلمان صحافی ’’پروفیشنل ازم‘‘ کے نام پر استعمال کرتے ہوئے اسلام اور پاکستان کے خلاف استعمال ہو جاتے ہیں، جب کہ مغربی میڈیا ہمیشہ اسلام کے خلا ف جانبدار ہوتا ہے۔ قابل ذکر اور دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ایسے مغربی ابلاغ کے بیشتر نمایندے مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ اقلتیوں کے نام پر حقوق، پاکستان کے قبائلی علاقوں میں برپا شورش، بلوچستان، کراچی، خیبر پختونخوا کے غیر مستحکم حالات، مسلم دنیا میں مسلم امہ پر ہونے والے مظالم کی درست رپورٹنگ سے گریز، فرقہ واریت میں پیش پیش، مختلف طبقات کے برسر پیکار ہونے کی بات اور اداروں میں اقربا پروری، کرپشن اور بے قاعدگیوں کو منظر عام پر لانے میں تفریق پیدا کر دیتے ہیں۔

ہمیں بین الااقوامی ابلاغ کی جانب سے رائے، تبصروں اور خبروں پر یک طرفہ موقف اپنا کر اپنے اداروں پر حقیقت کی افشانی تک رائے زنی سے گریز کرنا چاہیے۔ معصوم عوام میں بد امنی اور اضطراب کو سنسنی سے جنم دیکر ختم کرنے سے گریز اور کھوکھلی شہرت کے عوض اپنا ایمان اور وفاداریوں کی فروخت کرنے میں نام نہاد پاکستانیوں اور مسلمانوں کے بارے میں ہی کہا گیا ہے کہ

تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔