لاوارث شہر قائد

محمد سعید آرائیں  منگل 30 جون 2015

جس شہر میں ملک کے بانی کا بے بسی اور لاوارثی میں انتقال ہوا تھا، اسی شہر میں قائد کی وفات کے 67 سال بعد ایک ہزار سے زائد افراد بے بسی کی حالت میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور حکمران اس لاوارث شہر کے سیکڑوں لاوارثوں کی موت پر تماشائی بنے رہے۔ انھوں نے لاوارث شہریوں کی موت پر افسوس کا اظہار کر کے مرنے والوں پر احسان اور اپنی حکمرانی کا فرض ادا کر دیا۔

وزیر اعظم کے عزیز اور بجلی و پانی کے وزیر مملکت عابد شیر علی نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ گرمی سے اگر کوئی مر جائے تو اس کی ذمے دار حکومت نہیں ہے۔ بجلی کے اس منہ زور وزیر کو اگر کچھ اسلامی تاریخ سے شناسائی ہوتی تو انھیں خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کی یہ بات یاد ہوتی کہ دریائے فرات کے قریب اگر ایک کتا بھی بھوکا مر جائے تو اس کا ذمے دار بھی میں ہوں گا۔

اب سندھ حکومت کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ کراچی میں گرمی سے ہونے والی ہلاکتوں پر وفاقی حکومت اور کے الیکٹرک کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے۔ کے الیکٹرک کے خلاف مقدمہ تو دور کی بات ہے کے الیکٹرک کے خلاف بولنے کی تو کراچی کی ٹھیکیدار سیاسی پارٹیوں میں بھی جرأت نہیں تھی۔ کے الیکٹرک کی بے حسی سے کراچی میں جو سیکڑوں ہلاکتیں ہوئیں۔

اس سے قبل کراچی کی نمایندگی کرنے کے دعویداروں اور حکومتی پارٹی کے جیالوں کو کبھی کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج اور دھرنوں کا تو کیا کبھی مذمتی بیانات دینے کا بھی خیال نہیں آیا تھا کیونکہ ان پارٹیوں کے سیکڑوں افراد کو بھاری تنخواہوں پر ملازمتیں دے کر ان پارٹیوں کی کے الیکٹرک نے زبان بندی کر رکھی ہے۔ ان کے کارکنوں کی بھرتی کی وجہ بھی یہی تھی کہ کے الیکٹرک کراچی کے صارفین کے ساتھ جو لوٹ کھسوٹ کرے شہریوں کو غیر قانونی بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں مارے اضافی بلوں کے ذریعے 5 ارب روپے غیر قانونی طور پر ماہانہ کمائے مگر کوئی زبان نہیں کھولے گا وگرنہ ان کے رکھوائے گئے کارکنوں کو فارغ کر دیا جائے گا۔

کراچی میں سیاست کرنے والوں کو سیکڑوں افراد کی ہلاکت پر اب مجبوراً کچھ بولنا پڑا ہے مگر کچھ دنوں بعد جب معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا تو سب خاموش ہو جائیں گے اور پھر پہلے کی طرح کے الیکٹرک ہو گی اور شہر قائد کے بے بس صارفین بجلی اور لاوارث شہری۔

وزیر بجلی خواجہ آصف نے کہہ دیا ہے کہ کے الیکٹرک کو سرکاری تحویل میں نہیں لیا جائے گا جب کہ مملکتی وزیر بجلی عابد شیر علی نے کہا تھا کہ نا اہلی پر کے الیکٹرک کو سرکاری تحویل میں لیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی زیر صدارت اجلاس میں جس میں کے الیکٹرک کے با اثر بڑے بھی موجود تھے۔ وزیر اعلیٰ کی یہ ہمت نہیں تھی کہ کے الیکٹرک کو کوئی وارننگ ہی دے دیتے وہ صرف کے الیکٹرک سے درخواست کرتے رہے کہ وہ اپنا سسٹم بہتر بنائے۔

کے الیکٹرک کے سی ای او نے اپنی نااہلی تو کیا اپنی کوئی غلطی ماننے سے بھی انکار کر دیا ہے کیونکہ گرمی قدرت نے بڑھائی تھی گرمی بڑھی تو ذمے دار شہری تھے جنھوں نے بجلی زیادہ استعمال کی اور جب بجلی نہ ملی تو شدید گرمی برداشت نہ کر سکے اور اپنے حقیقی مالک کی طرف چلے گئے۔ ان کے مرنے میں واقعی کے الیکٹرک کا کیا قصور جان اسی نے لی جس نے دی تھی کے الیکٹرک کو شہریوں کی جانوں کی نہیں صارفین سے جبری وصول کیے جانے والے اضافی بلوں کی فکر رہتی ہے جن کی وصولی کے لیے اب دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔

وزیر مملکت کے بقول کے الیکٹرک کی نجکاری جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوئی، تحفظ پی پی نے کیا۔ وفاقی حکومت نے کہہ دیا کہ موجودہ حکومت کا قصور ہے ہی نہیں کے الیکٹرک کی نگراں سندھ حکومت ہے اب وہی نمٹے۔ کے الیکٹرک کو من مانیوں کی اجازت وفاقی حکومت نے دی ہو یا سندھ حکومت نے۔ کے الیکٹرک سے معاہدے پر عمل کرانے کی ذمے داری کس کی ہے یہ تو عوام نہیں جانتے یہ ضرور جانتے ہیں کہ ان کی کہیں شنوائی نہیں ہو رہی اور وہ اپنے پیٹ کاٹ کر بجلی کے اضافی بل بھی بھر رہے ہیں اور گرمی سے مر بھی خود رہے ہیں کیونکہ وہ لاوارث شہر کے شہری ہیں۔

وزیر اعظم نواز شریف نے رمضان سے قبل واضح طور پر کہا تھا کہ ملک بھر میں سحری و افطار کے وقت لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی مگر ہوا کیا وزیر اعظم کے احکامات ہوا میں اڑا دیے گئے اور ملک بھر میں وہ کچھ ہوا جس کا تصور نہیں تھا۔ مگر وزیر اعظم نے اظہار برہمی کے سوا کچھ نہ کیا۔ ملک بھر میں وزیر بجلی اور مملکتی وزیر بجلی کو ہٹانے کے مطالبے ہو رہے ہیں۔

سندھ حکومت نے بھی اپنے قائد کے حکم پر لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج اور دھرنا دے کر وفاقی حکومت سے احتجاج شروع کر دیا ہے جو عوامی نہیں سیاسی ہے۔ سندھ حکومت تو اے سی کمروں سے نکلنے کی عادی نہیں اس لیے مزار قائد کی گرمی کی بجائے سندھ اسمبلی ہی کو احتجاجی مرکز بنایا گیا تا کہ شدید گرمی میں کسی کو جانی نقصان نہ ہو اور اسمبلی کے ٹھنڈے کمرے وقت پر کام آ سکیں۔

وفاق ہو یا سندھ حکومتیں اے سی کمروں میں رہنے کی عادی ہیں۔ ارکان اسمبلی ہوں یا 17 گریڈ کا سرکاری افسر سب اے سی کے عادی ہو چکے ہیں انھیں کیا پتہ کہ بجلی نہ ہو، پنکھے ہی نہیں چل سکتے اور رمضان المبارک کی ابتدا شدید گرمی میں ہوئی جس کا حکومت کو اندازہ نہیں تھا۔

حکومتی لوگوں کو تو جنریٹر میسر ہیں انھیں کیا پتہ کہ بجلی کے بغیر وقت کیسے گزرتا ہے۔ قیامت کی گرمی میں بجلی نہ ہو تو پانی بھی نہیں ہوتا، روزے داروں نے تو وقت گزار لیا جس کا صلہ اللہ دے گا اور جو گرمی سے مر گئے انھیں غسل دینے کے لیے لاوارث شہر میں پانی میسر تھا نہ میتیں رکھنے کے لیے سرد خانے۔ ہلاکتیں اتنی بڑی تعداد میں ہوئیں کہ قبروں کا ملنا ناممکن ہو گیا۔ چند ہزار میں ملنے والی قبر کے چالیس ہزار مانگے گئے۔ شہری برف کے لیے مارے مارے پھریں۔ سرد خانوں میں صرف نجی ادارے آگے تھے جن کے سرد خانے چھوٹے پڑ گئے۔

لاوارث دو کروڑ آبادی کے شہر میں کوئی سرکاری سرد خانہ نہیں۔ میتوں کے لیے ایمبولینسیں بھی کم پڑ جائیں تو اس شہر میں کیسی قیامت برپا ہو گی اس کا احساس وزیر اعظم نواز شریف کو بھی نہ ہوا کیونکہ یہ قیامت کراچی میں آئی لاہور میں نہیں وگرنہ وزیر اعظم نواز شریف ضرور کراچی آتے۔ سندھ کے حکمرانوں نے جن کا کراچی آبائی شہر تو نہیں مسکن ضرور ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نوڈیرو جانے کے بعد پتہ نہیں کہاں چلے گئے انھیں بھی اپنے بچوں کی جائے پیدائش کراچی یاد نہ رہا۔ کوئی وزیر گرمی کے مریضوں کی عیادت کے لیے اسپتال نہیں گیا۔

سندھ کی حکمراں پارٹی کے نوجوان چیئرمین شہر میں کہیں نظر آئے نہ ضعیف العمر وزیر اعلیٰ ٹھنڈے کمروں اور ٹھنڈی کاروں سے باہر کہیں نظر آئے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت نے بھی اپنے شہریوں کا حال پوچھنا ضروری نہ سمجھا۔ شہر بھر میں بجلی سے محروم لوگ احتجاج میں ٹائر اور لکڑیاں جلا کر مزید گرمی بڑھاتے رہے۔

دن کی گرمی کے بعد لوگوں کو رات کو بھی بجلی سے محروم رہ کر راتیں جاگ کر گزارنا پڑیں ایسے میں کراچی کی بڑی مسجدوں نے روزے داروں کو بڑا سہارا دیا جہاں وضو کے لیے پانی بھی ملا اور جنریٹروں سے چلنے والے پنکھوں کی ہوا بھی میسر آئی۔ کسی کو کراچی کے لاوارث شہریوں کا خیال نہ آیا تو وہ عوامی حکومتیں تھیں پھر شہریوں نے یہ سمجھ کر صبر کر لیا کہ جہاں بانی پاکستان اور گورنر جنرل کو آخری وقت میں نہ پوچھا گیا تو لاوارث شہریوں کو کون پوچھے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔