سید مبارک شاہ

امجد اسلام امجد  جمعرات 2 جولائی 2015
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

یہ بات لاکھوں بار بلکہ شائد اس سے بھی زیادہ مرتبہ دہرائی جاچکی ہو کہ مرنے والے اپنی زندگی میں ہی مختلف حوالوں سے اپنی موت کا ذکر اس طرح سے کرجاتے ہیں کہ ان کے جانے کے فوراً بعد ہی کئی باتوں کے مفاہیم بدلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ شاعروں کے ضمن میں یہ بات اور بھی زیادہ تکرار سے کی جاتی ہے کہ کم و بیش ہر شاعر کے یہاں ایسے اشعار مل جاتے ہیں جن میں اس کی موت سے متعلق بہت سی باتیں پیش گوئیوں کے انداز میں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں رخصت ہونے والے عزیز دوست اور اپنی نسل کے ایک نمایندہ اورمنفرد شاعر سید مبارک شاہ کے ان اشعار کو آپ کس خانے میں رکھیں گے؟

یہ ہر دن تھوڑا تھوڑا کرکے مرنے کا تکلف کیا
یہ کام اک روز بہتر ہے کہ سارا کرلیا جائے
جاگیے، دیوار جاں کو چاٹیے، سو جائیے
عمر کی یکسانیت سے زندگی اکتاگئی
قریۂ ہجر میں ملتے ہوئے لوگو، سوچو
جانے کب، کون، کہاں، کس سے جدا ہوجائے
ہمارے اپنے حصے کا ابھی جو وقت باقی ہے، خدائی میں
وہ کتنا ہے خدا جانے!
لبالب روغن جاں سے چراغوں نے
ابھی طاق ہوا پر اور کتنی دیر جلنا ہے، ہوا جانے!

سید مبارک شاہ مرحوم سے میری ملاقات کم از کم 30 برس پرانی ہے مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہ اور ڈاکٹر وحید ان دنوں نئے نئے سول سروسز اکاؤنٹس گروپس میں آئے تھے اور دونوں ہی ایسے کمال کے شاعر تھے کہ پہلی ملاقات میں ہی ان سے ایک ایسا تعلق پیدا ہوگیا جس کی شدت ملاقاتوں میں حائل طویل وقتوں کے باوجود ہمیشہ بڑھتی رہی اور دونوں دوستوں کا ادبی قد بھی برابر مستحکم ہوتا رہا۔

مابعد الطبیعات کے مسائل یوں تو مبارک شاہ کی ابتدائی شاعری میں بھی نمایاں تھے مگر گزشتہ کچھ عرصے سے تو یہ رنگ اس پر اس قدر غالب آگیا کہ اس کی عملی زندگی بھی اس سے واضح طور پر متاثر نظرآنے لگی تھی۔ بسیار گو تو وہ کبھی بھی نہیں تھا لیکن اب کم گوئی اور دروں بینی نے اس کے گرد ایک ایسا حصار کھینچ دیا تھا کہ وہ دنیا، اہل دنیا اور علائق دنیا سے بتدریج دور ہوتے ہوتے ایک ایسے عالم جذب و مستی میں رہنے لگا تھا جو روحانیت اور تصوف کے معروف انداز سے بالکل الگ ایک ایسے فلسفیانہ تفکر سے رشتہ آرا تھا۔

جہاں ’’یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک‘‘ ’’یزداں بہ کمند آور اے ہمت مردانہ‘‘ اور ’’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘ جیسے رویے اور سوالات اپنی گونج میں سب کچھ بہالے جاتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ اس کی وفات سے قبل گزشتہ ایک ماہ میں کسی نہ کسی حوالے سے اس کا ذکر بار بار آیا اور یوں اس عرصے میں اس کے فکر وفن، شخصیت، شعری رویوں اور خدا کی ذات اور کائنات کے بارے میں اٹھائے گئے اس کے سوالات پر اتنی گفتگو ہوئی جو شاید پچھلے دس برسوں میں ملا کر بھی نہیں ہوئی تھی۔ آغاز اس کا رحیم یار خان کے ایک مشاعرے کی رعایت سے ملتان سے رحیم یار خان تک عزیزی سلطان ناصر کی ہم سفری سے ہوا جس کا تعلق حضرت سلطان باہو کے خانوادے سے ہے وہ خود بھی ایک نوجوان بیورو کریٹ ہے اور اسی گروپ میں ہے جہاں سید مبارک شاہ اس کا سینئر تھا۔

یہ نوجوان ایک اچھا شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ادب کا بہت سنجیدہ، باقاعدہ اور پڑھا لکھا قاری بھی ہے اور اردو کے علاوہ عربی فارسی اور انگریزی ادب پر بھی گہری نگاہ رکھتا ہے لیکن میرے خیال میں جو چیز اسے سب سے زیادہ سید مبارک شاہ کے قریب لے گئے وہ اس کا تصوف سے خصوصی شغف ہے جس کی بنیاد جینیاتی بھی ہوسکتی ہے۔ اس سے سید مبارک شاہ کی شاعری پر سقراط کی آزاد فکری اور حسین حلاج کی ’’ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا‘‘ کی اس شدت کے اثرات پر بھی گفتگو ہوئی جس کی وجہ سے سید مبارک شاہ کی زبان میں دونوں آپ اپنی آگ میں جل کر کندن ہوگئے تھے۔

ملاقات کے چند دن بعد عزیزی سلطان ناصر نے مجھے سید مبارک شاہ کی ایک کتاب ’’ہم اپنی ذات کے کافر‘‘ بھجوائی جس کے آغاز میں اس کا ایک مضمون ’’تیسرے جہان کی تلاش‘‘ بھی شامل ہے۔ خدا کی ذات، تخلیق کائنات، خالق اور مخلوق کے تعلق، فلسفۂ جبر اور ازل اور ابد سے ماورا زمانوں کا تصور اور ان کی تلاش وہ موضوعات ہیں جن سے اس کتاب کا شائد ہی کوئی صفحہ خالی ہو۔ یہ عمیق دریا کے اوپر تنے ہوئے رسے پر چلنے کا سا کام ہے جو اپنی تشریح اور وضاحت کے لیے ایک پورے مضمون بلکہ کتاب کا موضوع ہے جب کہ یہ چند سطریں محض اس مرحوم کی قبر پر لفظوں کے کچھ پھول چڑھانے کے مترادف ہیں۔ سو میں فی الوقت اس کی ایک بہت مختصر نظم پر اکتفا کرتا ہوں جس کو آپ اس کے طرز فکر کا ایک استعارہ بھی کہہ سکتے ہیں۔

گنتی
یہ آٹھ پہروں شمار کرنا
کہ سات رنگوں کے اس نگر میں
جہات چھ ہیں
حواس، خمسہ، چہار، موسم
زماں، ثلاثہ، جہان دو ہیں
خدائے واحد!
یہ تیرے بے انت وسعتوں کے
سفر پر نکلے ہوئے مسافر
عجیب گنتی میں کھوگئے ہیں۔

اس کی وفات کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میرا چھوٹا داماد ناصر حنیف قریشی اور اس کا دوست جواد اکرم بھی سید مبارک شاہ کے قریبی لوگوں میں سے تھے اور یہ سب بہت پڑھے لکھٗے لوگ مل کر بقول اکبر الٰہ آبادی ’’فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں‘‘ کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کیا کرتے تھے جہاں تک سید مبارک شاہ کی شاعری کا تعلق ہے تو یہ بات اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ وہ ایک صاحب دل، صاحب نظر، صاحب فکر آدمی تھا اور اس کے اس طرح کے بے شمار اشعار بلاشبہ اپنے اندر ایک گہری بصیرت رکھتے ہیں جس سے آپ اختلاف تو کرسکتے ہیں مگر انکار شاید ممکن نہ ہو۔

دیکھوں تو ہے نگاہ میں دنیا کے ہفت رنگ
سوچوں تو کوئی سامنے تیرے سوا نہیں
واعظ! تری حکائت قہر خدا، بجا
لیکن خداگواہ کہ دل مانتا نہیں
اٹھا کر حبس لے جائے جو سارا میرے سینے سے
کوئی جھونکا محمد مصطفیٰؐ تیرے مدینے سے
شہر غزل کو شہر خموشاں نہ جانیے
آواز اس میں گھومتی پھرتی ہے میر کی
یقینا ایک دن ہم کو گماں خود اپنے ہونے کا
جسے اب تک نہیں دیکھا اسی کو دیکھ کر ہوگا
تمہارے ساتھ دیکھی تھی وگرنہ زندگی ہم کو
نہ تب محسوس ہوتی تھی نہ اب محسوس ہوتی ہے
تمہیں مار ڈالا ہے جن کے طرز حیات نے
انھیں جاکے شہر قبور میں بھی تودیکھیے،
دم دید واسطہ آنکھ کا نہیں چاہیے
ترے ربط میں ہمیں رابطہ نہیں چاہیے
نظروں کا یہ دھوکا بھی غنیمت ہے وگرنہ
افلاک کے اس پار بھی ایسا ہی خلا ہے

ایسے بانکے، تیکھے، خیال افروز، فکر انگیز اور غیر معمولی جرأت اظہار کے حامل اشعار کہہ سکنے والا سید مبارک شاہ اب ایک ایسے دربار میں پہنچ گیا ہے جس کا مالک خود اپنے بندوں کو بار بار غور اور فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ سو مجھے یقین ہے کہ وہاں اس کا استقبال ایک پسندیدہ مہمان کے طور پر ہوگا۔ البتہ جو بات اس نے وہاں پہنچ کر کرنی ہے اس سے ایک شعر کی شکل میں وہ کچھ اس طرح سے کہہ بھی گیا ہے کہ ؎

قیامت میں ذرا سا تخلیہ بھی
کہ تم سے بھی ہمیں کچھ پوچھنا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔