ترکی کے کُرد

رضوان طاہر مبین  اتوار 5 جولائی 2015
مسلح جدوجہد سے انتخابی فتح تک ترکی کے کردوں کے پُرپیچ سیاسی سفر کی کہانی ۔  فوٹو : فائل

مسلح جدوجہد سے انتخابی فتح تک ترکی کے کردوں کے پُرپیچ سیاسی سفر کی کہانی ۔ فوٹو : فائل

مسلسل 13 برس سے برسراقتدار ترکی کی حکم راں جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی AKP نے 7 جون کو ہونے والے چناؤ میں سب سے بڑی پارلیمانی جماعت کی حیثیت تو برقرار رہی، لیکن اس کی انتخابی ’’شکست‘‘ کے چرچے زبانِ زد عام ہیں۔

ترکی کے 25 ویں عام انتخابات کے موقع پر 2002ء سے برسراقتدار جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے ایسے موڑ پر اپنی اکثریت گنوائی ہے کہ جب وہ پارلیمانی جمہوریت کے حامل ترکی کو صدارتی نظام کی طرف لانے کے لیے دستور میں ترامیم چاہتی تھی، جسے عملی جامہ پہنانے کے لیے اسے پارلیمان میں بھاری اکثریت درکار تھی، لیکن اسے اس سے پہلے کی حاصل شدہ سادہ اکثریت (276نشستیں) بھی نہ ملیں، محض 258 نشستیں حاصل ہو سکیں، جب کہ پچھلے چناؤ میں اسے 312 نشستوں پر کام یابی ملی تھی۔ تنہا حکومت سازی کے لیے حکم راں جماعت 18 نشستیں دور رہ گئی ہے۔

ترکی میں حکومتی ڈھانچا تبدیل کرنے کے لیے 366 نشستیں درکار ہوتی ہیں، یا پھر کم سے کم 330 نشستیں حاصل کر کے آئینی ترامیم پر ریفرنڈم کا اختیار حاصل کیا جا سکتا ہے، لیکن AKP کے ساتھ ایسا نہ ہو سکا۔

ترکی میں پارلیمانی نمائندگی کے لیے ڈالے گئے کُل ووٹوں کا 10 فی صد حاصل کرنا ضروری ہے، اگر ایسا نہ ہو تو باقی ماندہ نشستیں دوسری بڑی جماعتوں میں تقسیم کر دی جاتی ہیں۔ اس طرح انتخابی نتائج کے مطابق کُل چار جماعتیں پارلیمانی نمائندگی کی حق دار قرار پائی ہیں، جن میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (AKP) 258 نشستوں، ری پبلیکن پیپلزپارٹی (CHP) 132 ، نیشنلسٹ پیپلزپارٹی (MHP) 80 اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) 80 نشستوں کے ساتھ شامل ہیں۔

حالیہ انتخابات میں چاروں بڑی جماعتوں میں صرف AKP کی 53 نشستیں گھٹی ہیں، جب کہ CHP کی سات نشستیں بڑھیں، MHP کی52 اور HDP کی 51 نشستوں میں اضافہ ہوا ہے۔

حالیہ انتخابات 2013ء کے حکومت مخالف مظاہروں کے بعد ایک ایسے وقت میں ہوئے، جب حکم راں جماعت بدعنوانی کے الزامات کی زد میں ہے، یہی نہیں صدارتی نظام کا معاملہ اور شام میں جاری خانہ جنگی میں کردوں کے خلاف کردار نے انتخابی نتائج کے خدوخال واضح کرنے میں اہم کردار ادا کیا، کیوں کہ ترکی، شام میں دولت اسلامیہ (ISIS) کے جنگ جوؤں سے مزاحمت کرنے والے کردوں کے خلاف مدد فراہم کر رہا ہے۔

اس امر نے بھی کُردوں کو حکم راں جماعت سے مزید بدظن کیا۔ کُردوں سے مذاکرات کا سلسلہ تو جاری رہا، لیکن ان کے مادری زبان میں تعلیم اور علاقائی خودمختاری جیسے مطالبات کو بدستور پس پشت ڈالا جاتا رہا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکم راں جماعت کو یہ نتائج صرف کُردوں کی مخالفت کی وجہ سے بھگتنے پڑ رہے ہیں۔

کُردوں کی حمایت یافتہ جماعت HDP پہلی بار پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں کام یاب ہوئی ہے۔ بائیں بازو کی اس جماعت کا پارلیمان کی نمائندگی کے لیے 10 فی صد سے زاید ووٹ لینا اہم تھا۔ یہ وہ رکاوٹ تھی جو کُردوں کو پارلیمان سے پرے رکھنے کے لیے 1980ء میں فوجی حکم رانوں نے عاید کی تھی۔ اس کے بعد پہلی بار اب کُردوں کی حمایت یافتہ جماعت پارلیمان پہنچنے میں کام یاب ہوئی ہے۔ HDPکے 82میں سے 32 اراکین خواتین ہیں، جو ترکی کے سیاسی رواج میں ایک واضح تبدیلی کا اشارہ ہے۔

یہ HDP جماعت کا پہلا چناؤ تھا، جس میں اس نے توقعات سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے سب کو حیران کر دیا۔ HDP کے لیے پارلیمان تک رسائی کے لیے 10 فی صد ووٹوں ہی کی توقع کی جا رہی تھی، لیکن نتائج آئے تو تناسب 13 فی صد تھا، جس سے اس نئی جماعت کی مستحکم حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ووٹ اس سے قبل حکم راں جماعت کو حاصل تھے۔

ترکی کی حالیہ انتخابی مہم کے دوران کُرد علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں بھی کی گئیں اور Diyarbakir میں HDP کی ریلی پر بم سے حملے کے نتیجے میں تین افراد جان سے گئے، جب کہ سیکڑوں زخمی ہوئے۔ یہ شاید اسی کشمکش کی خبر تھی کہ انتخابی نتائج آئے، تو رجب طیب اردگان 2002ء سے جاری مسلسل اقتدار کو جاری رکھنے کی اکثریت سے محروم ہو چکے تھے۔

بالآخر اب حقوق نسواں اور کُردوں کے حقوق کی آواز پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں کام یاب ہو چکی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس ضمن میں وہ اپنا کردار کس طرح ادا کرتے ہیں۔ پیپلز ڈیموکریٹک کانگریس(HDP) HDK کی بنیاد کے ساتھ بائیں بازو کی تنظیموں، ٹریڈ یونینوں، حقوق نسواں، دیگر اقلیتی نسلی گروہوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ HDP کا مقصد ترکی کا ایسا جمہوری مزاج بنانا ہے، جہاں صنف، نسل یا مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہ برتی جائے۔

پہلی بار ترک پارلیمان کا حصہ بننے والی HDP سے امید کی جا رہی ہے کہ وہ ترکی میں سماجی بدلاؤ کا باعث بنے گی۔ اگر ہم ترکی کے قرب وجوار میں بائیں بازو کی سیاست کا جائزہ لیں، تو خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے معاملے میں HDPیورپ کی کسی بھی جماعت سے زیادہ ترقی پسند نظر آتی ہے۔

HDP کی کئی منتخب کُرد خواتین حقوق نسواں کی جدوجہد کی پاداش میں قیدوبند کی صعوبتیں جھیل چکی ہیں۔ لیلیٰ زانا (Leyla Zana) ایک نومنتخب رکن ہیں، جو سیاسی بنیادوں پر 10 برس پابند سلاسل رہیں۔ انہیں 1991ء میں پارلیمان پہنچنے والی پہلی کرد خاتون ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انہوں نے حلف اٹھانے کے بعد جب کُرد زبان میں بات کی تو بڑا تنازعہ پیدا ہو گیا، کیوں کہ اس وقت ایسا کرنا غیرقانونی تھا۔

1994ء میں انہیں غداری کے مقدمے میں گرفتار کرلیا اور کہا گیا کہ وہ کردش ورکرز پارٹی PKK کی رکن ہیں۔ ان کی پارٹی کے ایک اور شریک چیئرمین Sebahat Tuncel کو بھی 2006ء میں PKK کے گوریلا جنگ جو گروہوں سے رابطوں کے الزامات کا سامنا رہا۔ 2007ء میں جب وہ رکن پارلیمان منتخب ہوئیں، تو انہیں رہا کیا گیا۔ وہ ترک تاریخ کی پہلی رکن پارلیمان ہیں، جو دوران قید منتخب ہوئیں۔ ساتھ ہی وہ ترک پارلیمان کی کم عمر ترین رکن کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔ ان خواتین کی شمولیت اس لیے بھی اہم ہے کہ عام کُرد عوام کے استحصال کے ساتھ کُرد خواتین کو بھی اس وقت گھریلو تشدد سمیت بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔

اسیر کُرد راہ نما عبداﷲ اوجلان کی بھتیجی Dilek Öcalan بھی HDP کی جانب سے رکن پارلیمان منتخب ہونے والوں میں ایک نمایاں نام ہیں۔ عبداللہ اوجلان سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام اور ریاستی جبر سے نجات خواتین کی آزادی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ قومی ریاست اور سرمایہ داری مرد کی اجارہ داری پر دلالت کرتی ہے۔ عورت کی غلامی دراصل عوام الناس کی غلامی ہے۔ صنفی مساوات جمہوریت کی اصل روح ہے۔

HDPکے انتخابی منشور میں واضح طور پر خواتین، نوجوان، بچوں کا تذکرہ ہے۔ جمہوریت اور آزاد دنیا کی حفاظت کا عزم ہے۔ پارٹی کی رنگا رنگی کو قوس قزح سے تعبیر کیا گیا ہے اور ہر ایک شناخت کی نمائندگی کی بات کی گئی ہے۔ ساتھ ہی فطرت کی حفاظت اور ایک فلاحی معیشت کو پروان چڑھانے والے محنت کش اور سماجی حقوق کی ضمانت کا عزم بھی کیا گیا ہے، کیوں کہ HDPصرف کُردوں ہی کی نہیں، آرمینین، رومی آرمینین، یزدی اور علوی جیسی نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے لیے بھی آواز بلند کر رہی ہے۔

اس کے لیے وہ نئے دستور کا مطالبہ کرتی ہے، جس میں ان سب اقلیتوں کے تمام حقوق کا احاطہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ وہ ترکی میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھاتی ہے۔ HDPکی خواتین براہ راست تلخ تجربوں سے شعور حاصل کرچکی ہیں اور یقیناً سیاسی فیصلوںمیں وہ اسے ضرور بروئے کار لائیں گی۔

اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ HDPکی فتح کی وجوہات ایک سے زاید ہیں۔ مئی 2013ء میں تین ماہ تک جاری رہنے والے Gezi Park protests کو بھی حالیہ انتخابی نتائج کے اہم وجوہات میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ حکم راں جماعت AKP ان معاملات پر اپنی پوزیشن بہتر نہیں کرسکی، جس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑا۔

حالیہ ترک انتخابات بعض حلقوں کی جانب سے ترکی کے آخری انتخابات بھی قرار دیے جا رہے تھے، کیوں کہ اگر اس چناؤ میں حکم راں جماعت واضح اور فیصلہ کن برتری ثابت کر دیتی، تو ان حلقوں کے نزدیک ترکی کی پارلیمانی جمہوریت بھی ختم ہو جاتی۔ ترک قوانین کے مطابق اگر 45 دن تک حکومت سازی نہ کی جا سکی، تو پھر نئے انتخابات کرانا پڑیں گے۔ حکومت سازی کے لیے پر امید AKPاپنی کوششوں میں کام یاب ہوتی ہے یا پھر نئے انتخابات کا بگل بجتا ہے، اس کے لیے 22جولائی تک انتظار کرنا ہوگا۔

٭پیپلزڈیموکریٹک پارٹی (HDP)
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا (HDP) 12 اگست 2012ء کو پیپلز ڈیموکریٹک کانگریس کے ایک سیاسی دھڑے کے طور پر قائم کی گئی۔ پیپلز ڈیموکریٹک کانگریس ماضی میں بائیں بازو کے کئی دھڑوں کے مشترکہ امیدوار میدان میں لاتا رہا ہے، تاکہ پارلیمان تک رسائی کی 10 فی صد نمائندگی کی شرط پوری کی جا سکے۔ HDPمیں بہ یک وقت ایک مرد اور ایک خاتون مسند نشین ہوتے ہیں۔ 22 جون 2014ء سے Selahattin Demirtas چیئروومن، جب کہ Figen Yüksekdag چیئرمین کے عہدے پرفائز ہیں۔

اس کا کُردوں کی جماعت DBP سے اتحاد ہے۔ یہاں تک کہ اکثر لوگ اسے HDP کی برادر جماعت کہتے ہیں۔ جمہوری اور اشتراکی مزاج کی حامل اور سرمایہ داری کی مخالف جماعت کے HDP چاہتی ہے کہ تُرک سیاست سے کرد تُرک سمیت دیگر تقسیم کا خاتمہ ہو۔ ملازمتوں کے لیے کوٹے میں 50 فی صد حصہ خواتین، جب کہ10 فی صد ہم جنس پرستوں کے لیے مختص کیا جائے۔

HDPخود کو یوں تو پوری ترکی کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن ناقدین اسے فقط کُرد قوم اور جنوب مشرقی ترکی کا نمائندہ قرار دیتے ہیں، جہاں سے اس نے سب سے زیادہ ووٹ بھی حاصل کیے۔ اس کے علاوہ اس پر کُرد علیحدگی پسند تنظیم PKK سے بھی روابط کا الزم ہے۔ اسیر کرد راہ نما عبداﷲ اوجلان سے جیل میں روابط اور ان کی ترجمانی کا الزام بھی ہے۔ HDP حکومت اور علیحدگی پسند کرد جنگ جوؤں کے درمیان 40 برس سے جاری نزاعی صورت حال میں مصالحانہ کردار ادا کرنے کے لیے بھی کوشاں رہی ہے۔

٭خواتین کی سب سے بڑی تعداد
HDPنے نچلی سطح پر حقوق نسواں کی ایک مقبول تحریک کو جنم دیا، جس نے خصوصی طور پر خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا۔ HDP میں منتخب ہونے والی نئے اراکین کا 40 فی صد خواتین پر مشتمل ہے، جو ترکی کی دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں خاصی نمایاں ہے، جہاں خواتین کے پاس صرف 17 فی صد نشستیں ہیں۔ اس کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی نے تمام حلقوں سے صرف خواتین کو ہی نام زَد کیا تھا، لیکن اس کے حصے میں اعشاریہ صفر تین ووٹ آسکے، تاہم اس کے باوجود ترکی کی تاریخ میں سب سے زیادہ 97 خواتین پارلیمان تک پہنچنے میں کام یاب ہوئی ہیں، جو کاروبار اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے منسلک ہیں۔

٭68 فی صد کُرد چار ممالک میں منقسم
کُرد مشرق وسطیٰ کا ایک اہم نسلی گروہ ہے، جو زیادہ تر چار بڑے ممالک میں تقسیم ہے۔ جنوب مشرقی ترکی (شمالی کردستان)، مغربی ایران (مشرقی کردستان) شمالی عراق (جنوبی کردستان) اور شمالی شام (مغربی کردستان) میں موجود ہے۔ دنیا بھر میں کُردوں کی آبادی 40 ملین ہے، جن کی اکثریت مغربی ایشیا میں رہتی ہے۔ سب سے زیادہ کُرد عراقی حدود میں موجود خودمختار کُردستان میں رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ شمالی مشرقی شام میں خود مختار علاقے Rojava میں بھی اس گروہ کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔کُرد آبادی کا 68 فی صد ان چار ممالک میں کچھ اس طرح منقسم ہے، عراق میں 23 فی صد، ترکی میں 20 فی صد، شام میں 15 اور ایران میں کُرد آبادی کا 10 فی صد آباد ہے۔

آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے، تو عراق میں یہ کُل آبادی کا 17 فی صد بنتا ہے اور ترکی میں یہ ریاست کی کل آبادی کا 16 فی صد بنتے ہیں، شام اور ایران میں یہ تناسب نو فی صد کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ کرد آرمینیا، جارجیا اور آذربائیجان اور مشرق وسطیٰ سے امریکا یورپ اور آسٹریلیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کُردوں کے علاقے کو ان کے نام کی مناسبت سے ’’کردستان‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے ’کردستان‘ کا سب سے وسیع علاقہ ترکی میں ہے، جس کے بعد ایران، پھر عراق اور شام کے بعد معمولی حصہ آرمینیا کی جغرافیائی حدود میں آتا ہے۔

٭کُرد تُرک کشمکش
جدید ترکی میں کُرد شناخت، کُرد نام، لباس اور کرد زبان پر پابندی عاید رہی۔ ترکی کا دستور بھی اس کشمکش کی خبر دیتا ہے۔ ترک ضابطۂ فوج داری کی دفعہ 301 کے تحت ترک شناخت کی ’’توہین‘‘ پر پابندی ہے۔ یہ دفعہ قومی شناخت سے متعلق معاملات پر کھلے مباحثے کو انتہائی دشوار بنا دیتی ہے۔ یہ قانون ابھی بھی موجود ہے اور اس کا آمرانہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اور یہ ہر اس شخص کے لیے خطرہ ہے جو کسی سیاسی یا نسلی اقلیت سے تعلق رکھتا ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ آئین میں ’’ترک‘‘ کی تعریف تبدیل کر کے اسے ایک عمومی تصور کی شکل دینی چاہیے، بہ جائے اس کے کہ اسے کسی مخصوص نسلی گروہ کے ساتھ منسلک رکھا جائے۔

اکثریتی ترکوں سے نسلی طور پر مختلف کردوں نے اپنے حقوق کے لیے ایک ایسی سیاسی تحریک کی حمایت کی، جس کا مقصد، دیگر چیزوں کے علاوہ، کرد زبان کے استعمال کو سرکاری حیثیت دینا اور عوامی سطح پر کردوں کے حقوق میں اضافہ کرنا ہے۔ کرد محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ اس معاملے میں بھی امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے کہ وہ کہاں رہیں اور ان کے بچے کن اسکولوں میں جائیں۔ ایک شدت پسند گروپ، کردستان ورکرز پارٹی (PKK) نے 1984ء میں ترک سیکیوریٹی فورسز اور شہریوں کے خلاف تشدد کا رستہ اپنالیا۔ ان کی مسلح بغاوت اور ترک سیکیوریٹی فورسز کے ساتھ لڑائی میں اب تک 45 ہزار سے زاید افراد مارے جا چکے ہیں۔ گذشتہ تین دہائیوں سے ترک حکومت اور PKK کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔

٭عبداللہ اوجلان،16برس سے اسیر کُرد قائد
کرد راہ نما عبداﷲ اوجلان ترکی کے مشرقی صوبے سینیورفہ (SANHURFA) کے ایک گاؤں عمرلی (OMERLI) میں 4اپریل 1948ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے ایک بھائی اسامہ PKK کے ایک کمانڈر جب کہ دوسرے بھائی مہمت اوجلان کرد سیاسی جماعت (BDP) PEACE AND DEMOCRACY PARTY کے ایک سرگرم رکن تھے۔انقرہ سے گریجویشن کرنے کے بعد عبداﷲ اوجلان کو ملازمت کے سلسلے میں استنبول جانا پڑا، جہاں انہوں نے ملازمت کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ قانون پڑھنے کے لیے ایک لا کالج میں داخلہ لیا، مگر پڑھائی کے پہلے سال ہی وہ اکتا گئے اور دوبارہ انقرہ یونیورسٹی میں سیاسیات کے شعبے میں داخلہ لینے واپس لوٹے۔

1978ء میں جب کردوں کی سیاست میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست دانوں کے درمیان سخت کشیدگی پیدا ہوئی، تو عبداﷲ اوجلان نے سیاسی خلا کو پر کرنے کی خاطر 1978ء میں PKK نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ ابتدا میں اس تنظیم نے محض مارکسسٹ نظریات کے تحت خود کو عالمی سرخ انقلاب کا آئینہ قرار دیا، مگر گزرتے وقت کے ساتھ اس نے نہ صرف کرد قوم پرستی کے تحت کرد ثقافت کے لیے اپنی سرگرمیاں شروع کردیں۔

بلکہ قوم پرستی کی جامع تعریف کے تحت ایک علیحدہ اور آزاد کُرد ریاست کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز بھی کر دیا۔مسلح مزاحمت کو پر اثر و منظّم انداز میں چلانے کے لیے عبداﷲ اوجلان شام میں سکونت اختیار کرکے کرد قوم کو اپنی تنظیم میں شمولیت کی دعوت دینے میں مصروف ہوگئے۔ ترکی پڑوسی ترک صوبے ہاتے اور دجلہ اور فرات کے پانی کے معاملے پر شام اور عراق سے تنازعات رکھتا تھا، جس کے باعث شام اور عراق نے ترکی میں جاری کُرد علیحدگی پسند تحریک کی حوصلہ افزائی کی۔

کُرد علیحدگی پسند شمالی عراق میں پناہ لیتے رہے، جب کہ ان کے راہ نما عبداﷲ اوجلان شام میں رہے۔1998ء میں جب کرد مزاحمت کے سبب ترکی کی مشکلات میں اضافہ ہوا، تو ترک حکومت نے شام کو PKK کی حمایت پر جنگ کی دھمکی دی، جس کے سبب شام کی حکومت نے عبداﷲ اوجلان کو ملک بدر کردیا۔ جس کے بعد عبداﷲ اوجلان روس اٹلی اور یونان سمیت کئی ممالک میں رہے۔ اٹلی میں موجودگی کے دوران ترک حکومت نے عبداﷲ اوجلان کی باضابطہ حوالگی کی درخواست کی، جس پروہ جرمنی چلے گئے مگر ترک سرکار نے ان کا تعاقب جاری رکھا۔

جرمنی کے ایک قانون داں بریتا بوہلیر ( BRITTA BOHLER) نے عبداﷲ اوجلان کی جدوجہد کو کرد قوم کے لیے ایک دفاعی فعل قرار دیتے ہوئے، ان کے تحفظ کی کوششیں کیں۔ اس دوران عبداﷲ اوجلان جرمنی سے نکل کر مکمل طور پر روپوش ہوگئے، بالآخر 5 فروری 1999ء کو انہیں نیروبی (کینیا) سے گرفتار کرلیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ افریقا میں ان کی گرفتاری کے لیے CIA نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کی گرفتاری پر یورپ بھر میں موجود تمام کُردوں نے بھرپور احتجاج کیا اور خصوصی طور پر یونان اور اسرائیل کے سفارت خانوں کا گھیراؤ کیا۔

کُرد سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ گرفتاری سے قبل عبداﷲ اوجلان نیروبی میں قائم یونانی سفارت خانے میں پناہ لیے ہوتے تھے، جب کہ اسرائیل پر وہ مبینہ طور پر PKK کے خلاف خفیہ معلومات دینے پر برہم تھے۔ اسی احتجاجی لہر کے دوران برلن (جرمنی) میں قائم اسرائیلی سفارت خانے پر مشتعل مظاہرین کی پولیس سے جھڑپ کے دوران تین کرد نوجوانوں ہلاک ہوگئے۔نیروبی میں اس عرصے میں ہونے والے امریکی سفارت خانے پر حملے کے باعث اس پر دہشت گردی کے خلاف سخت اقدام کے لیے ویسے ہی دباؤ بڑھ رہا تھا، لہٰذا ایسے حالات میں کینیا کو مجبور کیا گیا کہ وہ عبداﷲ اوجلان کی گرفتاری میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ بننے سے گریز کرے۔ کینیا پر دباؤ ڈالنے میں خصوصی طور سے ترکی سمیت امریکا و اسرائیل کا کردار شامل تھا۔عبداللہ اوجلان کو ترکی کے ایک جزیرے (IMRALI ISLAND ) میں قید تنہائی میں رکھا گیا۔ یہ جزیرہ دریائے مرمارا ( SEA OF MARMARA) میں واقع ہے۔

عبداﷲ اوجلان کو ملنے والی یہ سزا بھی کرد قوم کے لیے ان کی تمام جدوجہد میں ایک اہم قربانی سمجھی جاتی ہے۔ وہ اس جزیرے کے واحد قیدی تھے جس کی پہرے داری کے لیے ایک ہزار سے بھی زاید ترک فوجی تعینات تھے۔ پورے جیل میں تنہا مقید کُرد قائد کو بنا کسی قانونی چارہ جوئی کے سزائے موت سنائی گئی، مگر اگست 2002ء میں اس سزا کو سزائے عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔

کُرد سیاسی حلقوں کے مطابق اوجلان کی سزا میں تبدیلی کا مقصد قطعاً کرد قوم کے جذبات کا خیال رکھنا نہیں، بلکہ یہ ترکی کی یورپین یونین میں شامل ہونے کی کوششوں کے سبب پیدا ہونے والی ایک مجبوری ہے۔ اسی وجہ سے 1984ء سے اب تک ترکی میں کسی بھی قیدی کو سزائے موت نہیں سنائی گئی۔ اسی بنا پر نومبر 2009ء میں اوجلان کے قید تنہائی کو ختم کر کے انہیں دوسری جیل میں منتقل کیا گیا اور ہفتے کے 10گھنٹے دوسرے قیدیوں کے ساتھ رکھنے جیسے اقدام کیے گئے۔

٭ترک، کُرد مفاہمتی کوششیں
گذشتہ سالوں میں ترک حکومت کی جانب سے کُرد تنازعہ کو رفع کرنے کی بہتیری کوششیں کی گئیں۔ طیب اردگان کی موجودہ حکومت نے اپنے ابتدائی دنوں میں 2002ء میں مشرقی ترکی میں کُرد علاقوں سے ہنگامی حالت ختم کردی۔ 2003ء میں عام کرد شدت پسندوں کو معافی دی گئی، بشرطے کہ وہ آئندہ کوئی کارروائی نہ کریں، لیکن بڑے راہ نماؤں کو معافی نہیں دی گئی۔ 2009 میں ترک حکومت اور کرد آبادی کے درمیان تنازعے کے حل کے لیے مزید کوششیں کی گئیں۔

ترکی کے سرکاری ٹیلی ویژن نے کُرد زبان میں نشریات کا آغاز کردیا اور عراق میں کُردستان علاقائی حکومت کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات نے ایک زیادہ جمہوری اور پرامن ماحول فراہم کر دیا، جسے عوامی سطح پر ترک اور کُرد دانش وَروں کی حمایت حاصل تھی۔ تاہم 2009ء سے چیزیں ایک بار پھر خطرناک حد تک غلط رخ پر جانے لگیں، جس کا نتیجہ ترک اور کرد سیاست دانوں کے درمیان عوامی سطح پر جھگڑوں کی صورت میں نکلا۔ اردگان کے بعض سیاسی اقدام کو کرد سیاست دانوں کی طرف سے فاشسٹ قرار دیا گیا، جب کہ کُردوں پر غیرمفاہمتی ایجنڈے کی پیروی کا الزام لگایا گیا اور پھر دوبارہ دونوں فریقوں نے ہتھیار اٹھالیے۔ 2011ء میں نسلی بنیادوں پر نفرت عروج پر پہنچ چکی تھی۔

استنبول کی دیواروں پر کُردوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے نعرے درج ہونے لگے تھے۔ تاہم 2012ء میں شروع کیے جانے والے مذاکرات میں انقرہ حکومت تین دہائیوں سے جاری مسلح و خونیں تنازعے کے پرامن حل کے لیے کوشاں رہی۔

٭کُرد جنگ بندی کے اعلانات
دسمبر 2002ء میں ترک حکام نے دعویٰ کیا کہ وہ جنگ بندی سے متعلق عبداﷲ اوجالان سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ 21 مارچ 2013ء کو کردوں کے نئے سال کے آغاز کے موقع پر جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ اس منصوبے کے مطابق کرد جنگ جوؤں کو اگست 2013ء تک ترکی چھوڑ کر چلے جانا تھا۔ عبداﷲ اوجلان کو توقع تھی کہ جواب میں ترک حکام ملک کے نئے آئین میں کرد اقلیت کو قانونی حقوق دیں گے، کُرد اکثریتی آبادی والے علاقوں کے حکام کے دائرہ اختیار میں اضافہ کر دیں گے اور نیشنل کمیٹی برائے امن و اتفاق تشکیل دیں گے۔

عبداﷲ اوجلان کے جنگ بندی کے تاریخی اعلان کے بعد کُرد جنگ جوؤں نے ترکی کے جنوب مشرق میں مزاحمتی علاقوں سے لوٹنا بھی شروع کر دیا تھا۔ کردستان ورکرز پارٹی نے جنگ جوؤں کی واپسی کو یہ کہہ کر روک دیا کہ ترکی اپنے وعدوں پر عمل نہیں کر رہا۔ دو سال بعد 21 مارچ 2015ء میں ایک بار پھر جشن نو روز کے موقع پر انہوں نے مسلح جدوجہد ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اوجلان کے حامی اور ترک حکومت 2012ء سے باقاعدہ مذاکراتی عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسیر راہ نما نے 2013ء میں جنگ بندی کا تاریخی اعلان ’نوروز‘ ہی کے موقع پر کیا تھا۔

اْس بیان میں اوجلان نے اپنے ہاتھوں سے لکھ کر پیغام دیا تھا کہ اب بندوق رکھ کر سیاست کی زبان استعمال کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ جنوب مشرقی ترکی میں نوروز کی تقریب میں ہزاروں کردوں نے اپنے مقید قائد کا بیان سنا۔ نوجوان کرد اپنی سبز گوریلا وردیوں میں ملبوس ہو کر ریلی میں شریک ہوئے اور خواتین زرق برق روایتی لباس پہنے ہوئے تھیں۔

تقریب میں ترک پارلیمان کے کُرد اراکین نے بھی شرکت کی۔ اوجلان نے ورکرز پارٹی کو مشورہ دیا کہ ترک جمہوریہ کے خلاف مسلح مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے پارٹی کی کانگریس کو طلب کر کے اب ہتھیار پھینکنے کا حتمی فیصلہ کر لیا جائے۔ اوجلان نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پرامن مذاکرات کو اہم قرار دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔