قرآن کا موسم بہار، رمضان الکریم

آغا سید حامد علی شاہ موسوی  جمعـء 3 جولائی 2015
ماہ رمضان کا روزہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کاوہ عظیم ترین تحفہ ہے جو اس نے امت محمدی ؐ کو عنایت فرمایا ہے۔  فوٹو: فائل

ماہ رمضان کا روزہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کاوہ عظیم ترین تحفہ ہے جو اس نے امت محمدی ؐ کو عنایت فرمایا ہے۔ فوٹو: فائل

ماہ رمضان کا روزہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کاوہ عظیم ترین تحفہ ہے جو اس نے امت محمدی ؐ کو عنایت فرمایا ہے تاکہ اس کے ذریعے اپنے روح و بدن کو پلیدی اور ہر قسم کی نجاست و کثافت سے منزا کرے اور اپنے کو زیور تقویٰ سے آراستہ و پیراستہ کرے۔ بھوک و پیاس کے مزے کو چکھے جس سے فقیروں، غریبوں، مسکینوں کی بھوک و پیاس کا پورا احساس کرکے ان کی حاجت روائی اور فقر و فاقہ سے نجات دلانے کی جدوجہد کرے۔

روزہ ان عبادتوں میں سے ہے جس کا حکم تمام مذاہب و اقوام اور ملل و ادیان میں ملتا ہے۔ البتہ ماہ رمضان میں روزہ رکھنا اسلام سے مختص ہے اس لیے اسے شھر الاسلام گردانا گیا ہے۔

رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’اگر بندگان خدا کو ماہ رمضان کے روزوں کی فضیلت کا علم ہوتا تو آرزو کرتے کہ رمضان پورے سال کا ہو ‘‘

امت مسلمہ کی عظیم ہستیاں روزے کی شدت کو کس قدر محبوب جانتی تھیں اس کا اندازہ امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالبؓ کے اس فرمان سے لگایا جاسکتا ہے۔ ’’میں تین چیزوں کو محبوب رکھتا ہوں تلوار کے ساتھ جہاد، مہمان کی عزت اور گرمیوں کے روزے۔‘‘

خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓ ارشاد فرماتی ہیں ’’اﷲ تعالی نے روزے کو فرض کیا ہے تاکہ لوگوں میں اخلاص قائم رہ سکے ‘‘

امام زین العابدینؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہر شب ماہ رمضان میں اﷲ تعالی ستر ستر ہزار گنہگاروں کو آتش جہنم سے آزاد فرماتا ہے۔

امام جعفر صادقؓ سے سوال کیا گیا کہ روزے کیوں فرض کیے گئے ہیں ؟ آپ نے فرمایا تاکہ غنی اور فقیر مساوی ہو جائیں غنی بھوک کا احساس کرکے فقیر پر رحم کرے ۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا ’’ہر شے کی زکوٰۃ ہے اور روزہ بدن کی زکوٰۃ ہے ‘‘

اس مہینہ کو ماہ رمضان کے نام سے موسوم کرنے کے سلسلے میں مختلف روایات ہیں۔

1۔ رمضان رمض سے ماخوذ ہے رمض کے معنی دھوپ کی شدت سے پتھر ریت وغیرہ کے گرم ہونے کے ہیں۔ اسی لیے جلتی ہوئی زمین کو رمضا کہا جاتا ہے۔ چناںچہ جب پہلی مرتبہ روزے فرض قرار پائے تو ماہ رمضان سخت گرمی میں آیا تھا اور روزوں کی وجہ سے تپش کا احساس بڑھا تو مہینہ کا نام ماہ رمضان یعنی ماہ آتش فشاں پڑگیا۔ اس لیے کہ یہ ماہ مبارک گناہوں کو اس طرح جلا دیتا اور فنا و برباد کردیتا ہے جس طرح سورج کی گرمی زمین کی رطوبتوں کو جلاتی ہے اور فنا کردیتی ہے۔ چناںچہ رسالت مآب ؐ کا ارشاد ہے

’’ ماہ رمضان کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔‘‘ یہ رمضی سے ماخوذ ہے اور رمضی اس ابرباراں کو کہتے ہیں جو موسم گرما کے آخر میں آئے اس سے گرمی کی شدت دور ہوجاتی ہے اسی طرح یہ مہینہ گناہوں کو کم اور بدی اور برائیوں کو دھو ڈالتا ہے۔ یہ عربوں کے قول ’’رمضت النصل‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دو پتھروں کے درمیان چاقو تلوار اور نیزے کے پھل کو رکھ کر تیز کرنے کے ہیں کیوںکہ عرب اس ماہ مبارک میں ہتھیاروں کو تیز کیا کرتے تھے۔ یہ ارتماض سے ماخوذ ہے، جس کے معنی اضطراب و پریشانی کے ہیں۔ چوںکہ اس مہینے میں بھوک و پیاس کی وجہ سے بے چینی اور اضطراب کو محسوس کیا جاتا ہے اس لیے اسے رمضان سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ماہ رمضان اپنے فیوض و برکات کی بنا پر تمام مہینوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ چناںچہ پیغمبر ؐ کا ارشاد ہے تمہاری طرف اﷲ کا مہینہ برکت و رحمت و مغفرت کا پیغام لے کر آرہا ہے، یہ وہ ماہ مبارک ہے جو اﷲ کے نزدیک تمام مہینوں سے افضل ترین ہے، اس کے تمام ایام تما م دنوں سے، راتیں تمام راتوں سے اور لمحات تمام لمحات سے بہتر و برتر ہیں۔

اس مہینے کی راتوں میں شب قدر ہے، جسے ہزار مہینوں سے بہتر قراردیا گیا ہے۔ چناںچہ امام جعفر صادقؓ کا فرمان ہے اس رات میں اعمال ان ہزار مہینوں کے اعمال سے بہتر ہیں جن میں شب قدر نہ ہو۔ اسی مہینے میں تمام آسمانی و الہامی کتب کا نزول ہوا، اسی مہینے میں قرآن مجید نازل ہوا جو لوگوں کے لیے ہادی و راہ نما ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے۔

’’ رمضان کا مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل ہوا، جو لوگوں کا راہ نما ہے اور اس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور یہ حق و باطل کو الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو تو اسے چاہیے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزے رکھ کر ان کا شمار پورا کرلے۔ اﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔ اور (یہ آسانی کا حکم) اس لیے (دیا گیا ہے) کہ تم روزوں کا شمار پورا کر لو اور اس احسان کے بدلے کہ خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو اور اس کا شکر کرو۔‘‘
(سورہ البقرہ آیت 185)

امام محمد باقرؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ہر چیز کے لیے ایک بہار ہے اور قرآن کی بہار ماہ رمضان ہے۔ ‘‘

امام زین العابدینؓ کی 44 ویں دعا ’’ صحیفہ کاملہ‘‘ میں درج ہے جسے زبور آل محمد ؐ بھی کہا جاتا ہے، اس دعا میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ پروردگار ماہ رمضان کو ہماری عبادتوں سے سرشار فرما اور اس کے اوقات کو اپنی عبادت و بندگی کی توفیقات سے مزین فرما اور ہمیں اس مہینہ میں خشوع، خضوع، تضرع اور تواضع کے ساتھ روزہ رکھنے اور راتوں میں نماز پڑھنے میں ہماری نصرت فرما کہ ماہ رمضان کا کوئی دن ہماری غفلت و کوتاہی اور کوئی رات ہماری تقصیروں کی گواہ و شاہد نہ بن سکے‘‘

روزہ یہ ہے کہ ہر بالغ و عاقل انسان خداوند عالم کے فرمان کو انجام دینے کے لیے آذان فجر سے اذان مغرب تک روزہ باطل کرنے والی چیزوں سے اجتناب کرے۔ رمضان کی فضیلتوں، برکتوں اور سعادتوں کا شمار ممکن ہی نہیں لہذا اہل اسلام کو چاہیے کہ جس قدر ممکن ہو سکے اس ماہ مبارک سے رحمتیں برکتیں سمیٹ لیں۔ اگر امت مسلمہ اخروی مسائل کے ساتھ دنیا میں درپیش مسائل و مشکلات سے بھی نجات چاہتی ہے تو اسے ماہ رمضان کی برکتوں سے اور فیوض کو اس کی روح کے مطابق سمیٹنا ہوگا اور اگر ایسا ہوجائے تو عہد حاضر کا کوئی شیطان و استعمار مسلمانوں پر مسلط نہیں ہوسکتا۔ خداوند عالم امت محمدیؐ کو اس ماہ مقدس کے ثمرات سے بہرہ مند ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔