ایک اور فلوٹیلا کی واپسی

سالار سلیمان  ہفتہ 4 جولائی 2015
اسرائیل یہ بتانے سے  قاصر ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنے والی یہ پابندیاں کیسے اور کیوں لگائی گئی ہیں۔

اسرائیل یہ بتانے سے قاصر ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنے والی یہ پابندیاں کیسے اور کیوں لگائی گئی ہیں۔

غزہ کو سب سے بڑی انسانی جیل کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ یہ فلسطین کا ساحلی علاقہ ہے۔ اس کے جنوب مغرب میں 11 کلومیٹر طویل مصر کی سرحد ہے جو مکمل طور پر سیل ہے۔ تقریباً سات میل طویل مصر کی سرحد پر بیک وقت سینکڑوں فلسطینی ہاتھوں میں پاسپورٹ اٹھائے منتظر ہوتے ہیں کہ اُن کو مصر میں جانے کی اجازت مل جائے۔

معاملہ یہ ہے کہ مصر میں جب محمد مرسی کی حکومت تھی تو انہوں نے غزہ کی سرحد فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے کھول دی تھی۔ انہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار بھی کیا تھا اور اُنہیں اپنی حمایت کا یقین بھی دلایا تھا۔ غزہ کے شمال اور مشرق میں امریکہ کی ناجائز اولاد، اسرائیل کی ریاست ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل کے بارے میں یہ الفاظ ’امریکہ کی ناجائز اولاد‘ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے استعمال کئے تھے۔

غزہ میں ہونے والے اسرائیلی مظالم اقوام عالم سے ہرگز چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ غزہ میں پوری دنیا سے امدادی سامان آتا تھا تاہم چند سالوں سے اسرائیلیوں نے مظلوموں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کیلئے اس سامان پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ چند سال قبل فریڈم فلوٹیلا کے نام سے ایک بحری جہاز امدادی سامان لیکر غزہ کی جانب ترکی سے روانہ ہوا تھا، جس میں پاکستانی صحافی بھی سوار تھے۔ بحری جہاز کو بین الاقوامی حدود میں نہ صرف روکا گیا  بلکہ اُس پر حملہ بھی کیا گیا اور عملے سمیت دیگر افراد کوگرفتار کرلیا گیا تھا۔ بعد ازاں ترکی کے سخت موقف کے بعد پاکستانی صحافیوں سمیت دیگر عملے کی رہائی عمل میں آئی۔ اس واقع کے بعد سے مختلف اوقات میں غزہ میں مختلف طریقوں سے سامان جانے لگا لیکن شاید اسرائیل کو یہ ہرگز قبول ہی نہیں کہ غزہ کے لوگ آسان زندگی بسر کرسکیں۔ اِن بڑھتے ہوئے مظالم کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ قبضے کی راہ مزید ہموار کی جاسکے اور کوئی بھی دوسرا ملک فلسطینیوں کی مدد کرنے کے بارے میں سوچے بھی نہیں اور غزہ میں بحری پابندی بھی اِس سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے جس کو حماس نے ماننے سے انکار کر دیا۔

چند دن قبل ایک اور بحری جہاز امدادی سامان لیکر غزہ کی جانب گامزن تھا کہ ایک بار پھر اُس کو اسرائیل نے بین الاقوامی پانیوں میں روک لیا تھا۔ اس جہاز کے ساتھ بھی تقریباً وہی سلوک کیا گیا جو کہ فریڈم فلوٹیلا کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اس امدادی کشتی کو بین الاقوامی پانیوں میں روک لینے کے بعد اس کا رُخ زبردستی اسرائیلی بندرگاہ کی طرف موڑا گیا۔ اسرائیل کے مطابق اُس کی جانب سے غزہ پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں، جسے توڑنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہے اور جو بھی کوئی ایسا قدم اٹھائے گا تو اُس کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ اسرائیلی وزیراعظم نے بھی اپنے بیان میں یہی بات کہی ہے۔ تاہم اسرائیلی وزیراعظم سمیت ہر متعلقہ فرد یہ بتانے سے قاصر ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنے والی یہ پابندیاں کیسے اور کیوں لگائی گئیں اور اُن کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

مزے کی بات تو یہ ہے کہ جس کشتی کو روکا گیا ہے اس کشتی میں سے اسلحہ و گولہ بارود نہیں بلکہ بیماروں اور زخمیوں کے لیے دوائیاں برآمد ہوئی تھی۔ سولر پینل کی لائٹس برآمد ہوئی تھی تاکہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے تباہ حال انفراسٹرکچر کے سبب اِن سول پینل سے روشنی کا بندوبست کیا جاسکے۔ اِسی طرح دیگر ضرورت کا سامان برآمد ہوا تھا۔

دوسری بات یہ کہ اس کشتی میں دہشت گرد نہیں بلکہ تیونس کے سابق صدر منصف مرزوقی بھی سوار تھے۔ مرزوقی بھی غزہ کے باشندوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے اور ان کی مدد کیلئے اس سفر کا حصہ بنے تھے۔ مرزوقی کے ساتھ اسرائیلی پارلیمان کے عرب رکن باسل عظاس بھی سوار تھے۔ جہاز میں صحافی، ڈاکٹر اور سیاستدان بھی سوار تھے۔ اس سویڈش فلوٹیلا کو لے کر جانے والے امدای قافلے کے منتظمین نے کہا کہ وہ غزہ کے حوالے سے اسرائیل کے غیر انسانی سلوک اور گزشتہ 9 برسوں سے غزہ کی سمندری حدود کی ناکہ بندی کی طرف عالمی توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں۔

لیکن اِن تمام حالات سے ہٹ کر ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ اسرائیل وہی کررہا ہے جو اُس کو کرنا چاہیے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ اسرائیل اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ٹھیک کام نہیں کررہا ہے۔ درحقیقت میں تو اِس شش و پنج میں ہوں کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ عالم اسلام اس حوالے کتنا متحرک ہے؟ آخر کب تک ہم خواب غفلت میں رہینگے اور خاموشی سے یہ سارا تماشہ ہوتا دیکھتے رہینگے؟ آخر کب تک ہم آپسی اختلافات اور مذہبی یا مسلکی اختلافات میں الجھے رہیں گے؟ آخر کب ہمارے اندر اتحاد پیدا ہوگا اور ہم اپنے اوپر اٹھنے والے ہاتھ کو روک سکیں گے؟ ہم کب تک ریت میں سر دے کر آنے والے طوفان سے نظریں بچاتے رہیں گے؟

میری ذاتی رائے میں تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ اس فلوٹیلا پر بھی موثر آواز اٹھنی چاہیے تھی، اسرائیل کے ہاتھ روکنے کے لیے سب کو میدان میں آنا چاہیے تھا، اقوام متحدہ میں شکایت درج ہونی چاہیے تھی، او آئی سی کا اجلاس طلب ہونا چاہیے تھا مگر افسوس المی سطح پر مکمل خاموشی ہے، میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈیرھ ارب مسلمانوں میں سے اس واقعہ کا علم 30 فیصد سے زیادہ کسی کونہیں ہوگا۔ ہم نشاۃ ثانیہ کے داعی بھی ہیں اور خواہاں بھی ہیں۔ لیکن کیا صرف اس سے ہم اپنے حدف کو حاصل کرسکیں گے؟ ہرگز نہیں، ہمیں اس کیلئے خود ایک ہونا ہوگا۔ جب تک ہماری صفوں میں اتحاد نہیں ہوگا تب تک ہم ایسے واقعات دیکھتے اور سنتے رہیں گے۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔