- تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے بات چیت کرنے کی تجویز
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات مئی میں ہونگے، موبائل فون لانے پر ضبط کرنے کا فیصلہ
- امریکی یونیورسٹیز میں اسرائیل کیخلاف ہزاروں طلبہ کا مظاہرہ، درجنوں گرفتار
- نکاح نامے میں ابہام یا شک کا فائدہ بیوی کو دیا جائےگا، سپریم کورٹ
- نند کو تحفہ دینے کا سوچنے پر ناراض بیوی نے شوہر کو قتل کردیا
- نیب کا قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں غیر قانونی بھرتیوں کا نوٹس
- رضوان کی انجری سے متعلق بڑی خبر سامنے آگئی
- بولتے حروف
- بغیر اجازت دوسری شادی؛ تین ماہ قید کی سزا معطل کرنے کا حکم
- شیر افضل کے بجائے حامد رضا چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نامزد
- بیوی سے پریشان ہو کر خودکشی کا ڈرامہ کرنے والا شوہر زیر حراست
- 'امن کی سرحد' کو 'خوشحالی کی سرحد' میں تبدیل کریں گے، پاک ایران مشترکہ اعلامیہ
- وزیراعظم کا کراچی کے لیے 150 بسیں دینے کا اعلان
- آئی سی سی رینکنگ؛ بابراعظم کو دھچکا، شاہین کی 3 درجہ ترقی
- عالمی و مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں اضافہ
- سویلین کا ٹرائل؛ لارجر بینچ کیلیے معاملہ پھر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھیج دیا گیا
- رائیونڈ؛ سفاک ملزمان کا تین سالہ بچے پر بہیمانہ تشدد، چھری کے وار سے شدید زخمی
- پنجاب؛ بےگھر لوگوں کی ہاؤسنگ اسکیم کیلیے سرکاری زمین کی نشاندہی کرلی گئی
- انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے پی ایچ ایف کے دونوں دھڑوں سے رابطہ کرلیا
- بلوچ لاپتا افراد کیس؛ معلوم ہوا وزیراعظم کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ
لوک فنکار الن فقیر 15 برس بعد بھی مداحوں میں مقبول
پاکستان کے معروف لوک فنکار الن فقیر کو دنیا سے گزرے 15 برس بیت گئے لیکن مداحوں کے دلوں میں وہ آج بھی زندہ ہیں۔
الن فقیر 1932 میں صوبہ سندھ کے علاقے جامشورو میں پیدا ہوئے اور انھوں نے اپنے صوفیانہ کلام کے ذریعے نہ صرف ملک گیر بلکہ دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔ الن فقیر کی گائیکی کا ایک انوکھا انداز تھا جو انھیں دوسرے لوک فنکاروں سے منفرد کرتا تھا، انھوں نے روایتی لوک گائیکی کو ایک نیا انداز دیا جو آج بھی مداحوں نے خوب سراہا جاتا ہے۔
الن فقیر نے زیادہ تر سندھی زبان میں گیت گائے تاہم اردو زبان میں ان کا گایا ہوا ایک گانا ‘تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا اسے دنیا کی لہروں سے ڈرنا کیا’ نے انھیں فن کی دنیا میں امر کر دیا۔ جن کی آواز کا سحر آج بھی برقرار ہے۔
الن فقیر کو صدر جنرل ضیاء الحق نے 1980 میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا جب کہ انہیں شاہ لطیف ایوارڈ، شہباز ایوارڈ اور کندھ کوٹ ایوارڈز سے بھی نوازا گیا، الن فقیر کو نہ صرف ملک میں پزیرائی ملی بلکہ ان کے چاہنے والے انھیں دنیا کے دیگر ممالک میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ الن فقیرکی گائیگی میں صوفی ازم کا رنگ جھلکتا ہے۔
الن فقیر خود اگرچہ صوفی تھے لیکن انھوں نے اپنے لئے فقیر تخلص کا انتخاب کیا اور وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مزار پر سکونت پذیر ہو گئے اور 4 جولائی 2000 میں دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔