یہ بدلتے موسم !عوامی شعوربیدار کرنے کی ضرورت ہے

مرزا ظفر بیگ  اتوار 5 جولائی 2015
  PMD کے پاس وہ قابلیت ہی نہیں ہے کہ وہ ایسی سنگین موسمی صورت حال میں قبل از وقت کچھ بتاسکے تاکہ لوگ حفاظتی اقدامات کرلیں۔:فوٹو : فائل

PMD کے پاس وہ قابلیت ہی نہیں ہے کہ وہ ایسی سنگین موسمی صورت حال میں قبل از وقت کچھ بتاسکے تاکہ لوگ حفاظتی اقدامات کرلیں۔:فوٹو : فائل

ہمارے ملک پاکستان میں ہر طرح کی تبدیلیاں شروع ہوگئی ہیں، ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ اب اس خطے میں موسم بھی تبدیل ہورہے ہیں۔ سردیاں اور گرمیاں دونوں ہی نہایت شدید ہوچکی ہیں۔

سیلاب آتے ہیں تو بستیاں کی بستیاں اجاڑ دیتے ہیں، برف باری ہوتی ہے تو وہ بھی متعدد مسائل کھڑے کردیتی ہے۔ بارش نہیں ہوتی تو ترسادیتی ہے، لیکن جب ہونے پر آتی ہے تو وہی لوگ جو پہلے بارش کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے، اب بارش کے رکنے کی دعائیں مانگنے لگتے ہیں۔ جغرافیائی طور پر ہمارا ملک دنیا کے ایسے خطے میں واقع ہے جہاں کے موسم شدید ہوتے ہیں۔

اگر سردی ہے تو وہ ناقابل برداشت، گرمی ہے تو وہ نہایت شدید، غرض تبدیل ہوتے ان موسموں نے اس ملک کے لوگوں کو پریشان کردیا ہے، مگر کوئی بھی شخص یہ سوچنے پر تیار دکھائی نہیں دیتا کہ یہ ایک قدرتی عمل ہے اور اب اس خطے میں موسم تبدیل ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ مگر اس پر شور مچانے یا اﷲ میاں سے شکوہ و فریاد کرنے کے بجائے خود کو اس بدلتی ہوئی صورت حال کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔

حال ہی میں پاکستان میں قیامت خیز گرمی پڑی اور صوبۂ سندھ کے سب سے بڑے اور ساحلی شہر کراچی میں درجۂ حرارت 110ڈگری فارن ہائیٹ یعنی 43.33 ڈگری سینٹی گریڈ تک جاپہنچا جس نے صرف تین روز کی قلیل مدت میں 700افراد کی قیمتی جانیں لے لیں۔ لیکن گرمی کی اس لہر میں ابھی تک ایسی کمی نہیں آئی ہے جسے تسلی بخش قرار دیا جاسکے، مگر بہرحال اس میں تھوڑی بہت کمی تو آگئی ہے۔

ابھی تین ہفتے پہلے ہی کی تو بات ہے جب سخت ترین گرمی نے پڑوسی ملک بھارت میں قیامت مچادی تھی اور اس شدید موسم کی وجہ سے بھارت کے جنوبی حصے میں 1200افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ دیکھا جائے تو موسموں کی تبدیلیاں بھی دنیا کو نت نئی آزمائشوں میں ڈال رہی ہیں، لیکن ہمارے لوگوں کی اپنی آنکھیں اب بھی نہیں کھل رہیں۔

انہیں چاہیے کہ پہلے تو وہ اس حقیقت کو قبول کریں کہ اب موسم واقعی بدل رہے ہیں اور یہ کہ ان بدلتے ہوئے موسموں کو کوئی نہیں روک سکتا، کیوں کہ یہ سارا کا سارا عمل یا پراسیس قدرتی ہے، اس میں انسان کی اپنی کوتاہیوں کا کوئی دخل نہیں ہے۔ لیکن پہلے ہمیں اس بات کو مان تو لینا چاہیے کہ ہاں یہ سب ہورہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ کچھ عرصے سے ہمارے ملک میں آب و ہوا میں ہونے والی غیرمعمولی تبدیلی نے ہمیں متعدد سنگین خطرات سے دوچار کر رکھا ہے، مگر پاکستانی خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں موسم اور آب و ہوا میں ہونے والی انقلابی تبدیلیوں کا علم ہی نہیں ہے، اگر علم ہے تو وہ اس کی پروا نہیں کرتے، سب کچھ اﷲ تعالیٰ پر ڈال کر بے فکر ہوجاتے ہیں اور آب و ہوا کی تبدیلی اور اس کے باعث ہونے والی اموات کو بھی حکم خدا سمجھتے ہوئے متحرک ہونے کو تیار نہیں ہیں۔

ایک سروے سے پتا چلا ہے کہ پاکستانیوں کی صرف ایک چوتھائی تعداد ایسی ہے جو اس موسمیاتی تبدیلی کو نہایت سنگین خطرہ سمجھتی ہے، ورنہ اکثر لوگ تو اس موضوع پر کچھ کہنا سننا گوارہ بھی نہیں کرتے۔ اگر ان سے بدلتے ہوئے موسموں کے حوالے سے کوئی بات کی جائے تو وہ اسے ٹال کر اس طرح آگے بڑھ جاتے ہیں جیسے یہ خطرات انہیں یا ان کے خطے کو نہیں بلکہ کسی اور کو لاحق ہیں جو ان کے لیے ہر لحاظ سے اجنبی ہے۔ چاہے پانی کی کمی کا مسئلہ ہو یا بارش کی کمی کا، بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کی بات ہو یا گھٹتے ہوئے درجۂ حرارت کی، سیلاب کی بات ہو یا برف باری، ہم پاکستانی ان موضوعات پر کچھ بھی سوچنا یا بات کرنا اچھا نہیں سمجھتے۔

بھائی! کسی خطرے کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینے یا کسی مسئلے سے منہ موڑلینے کی وجہ سے وہ مسئلہ یا خطرہ ختم نہیں ہوجاتا، وہ تو اپنی جگہ قائم رہتا ہے، لیکن اگر اس معاملے پر غور وفکر کرلیا جائے اور اسے ایک زندہ حقیقت سمجھتے ہوئے اس کی سنگینی سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمت عملی طے کرلی جائے تو بہت آسانی پیدا ہوسکتی ہے اور متعدد مسائل پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کیے جاسکتے ہیں۔جیسا کہ ہم نے اوپر لکھا ہے کہ پاکستانیوں کی مجموعی تعداد کا صرف ایک چوتھائی حصہ ایسا ہے جو بدلتے ہوئے موسموں یا آب و ہوا کی تبدیلی کو اپنے اور نوع انسانی کی بقا اور سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، اس کے برعکس آپ جنوبی کوریا کے باشعور عوام کو دیکھیں، ان کی مجموعی آبادی کا 80فی صد حصہ ایسا ہے جو آب و ہوا کی تبدیلی کو اپنے لیے نہایت سنگین خطرہ سمجھتا ہے اور اس کا ادراک کرتے ہوئے اس کے حل کے لیے غوروفکر بھی کرتا ہے اور مستقبل کی پلاننگ بھی کرنے کو تیار ہے۔

دونوں ملکوں کے عوام کی سوچ کے درمیان کتنا بڑا فرق ہے۔جنوبی ایشیا وہ خطہ ہے جہاں موسم گرما بہت شدید ہوتا ہے اور اس خطے کی گرمی مئی اور جون میں ناقابل بیان حد تک ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ یہ بات اس خطے میں رہنے والے لوگوں سے اور کون جانتا ہوگا۔ مئی جون کی شدید گرمی یہاں کے لوگوں کو بے حال کردیتی ہے جس کے بعد جب یہاں مونسون کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو یہاں کے رہنے والے سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں پاکستان کا موسم نہایت گرم ہوتا ہے، مگر بے چارے پاکستانی کیا کریں؟ ان کے پاس اس شدید گرمی کو چپ چاپ برداشت کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں ہے۔

پھر ہمارے ملک میں بجلی کی پیداوار بھی ناکافی ہے اور اس کم پیداوار کی وجہ سے یہاں اکثر و بیشتر لوڈ شیڈنگ ہوتی رہتی ہے جو گرمی کے موسم کو اور بھی عذاب بنادیتی ہے۔ ایک تو ناقابل برداشت گرمی، پھر خشک سالی یعنی بارشوں کا نہ ہونا بھی بجلی کی پیداوار میں بہت بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے، کیوں کہ اس ملک میں بجلی ہائیڈرو یعنی ڈیمز وغیرہ سے بنائی جاتی ہے۔ جب بارش نہیں ہوگی تو ڈیموں میں پانی نہیں ہوگا اور جب پانی نہیں ہوگا تو بجلی کیسے بنے گی؟ دریاؤں اور ڈیموں میں پانی کی سطح کم ہونے سے بجلی کی پیداوار میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اگر ہم فرنس آئل سے بجلی پیدا کریں تو وہ کافی منہگی پڑتی ہے جو اس ملک کے غریب عوام پر بہت بڑا بوجھ ہوگا۔

٭ہمارا ماحول گرم کیوں ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں جو بھی ایندھن استعمال کرتے ہیں، اس کے جلنے سے جو گیس پیدا ہوتی ہے، اس کی وجہ سے ہمارا ماحول گرم ہوجاتا ہے۔ ہم پیٹرولیم یعنی پیڑول اور ڈیزل وغیرہ جلاتے ہیں، اس سے ہماری فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بہت بڑی مقدار شامل ہوتی رہتی ہے جو اس ماحول کو اور بھی گرم کردیتی ہے۔

اس کے علاوہ ہمارے گھروں اور ہماری صنعتوں میں کوئلے اور قدرتی گیس کے جلنے سے بھی ہمارا ماحول گرم ہوجاتا ہے۔ اس طرح اگر ہم نے اپنی فضاؤں میں اتنی زیادہ CO2کے پھیلاؤ کو نہ روکا تو ہمارے ملک کا درجۂ حرارت تو پتا نہیں کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا۔ اس وقت صورت حال بہت بدتر ہوجائے گی اور اس پر قابو پانا آسان نہیں ہوگا۔

٭آب و ہوا کی تبدیلی اور سیلاب:یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے ہمارے ملک میں جگہ جگہ سیلاب بھی آتے ہیں۔ ویسے بھی اسی مسئلے نے پہلے ہی ہمیں سیلابوں سے دوچار کردیا ہے۔

گذشتہ پانچ پانچ سال کے دوران شدید سیلابوں نے ہمارے عوام اور ہماری معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ان کی وجہ سے ہماری بہت بڑی آبادی بے گھر ہوگئی۔ مال مویشی سیلاب کے پانی میں بہہ گئے، آبادیاں ویرانوں میں بدل گئیں اور کھیت کھلیان اجڑگئے۔ایسا لگتا ہے کہ شمال سے آنے والا جیٹ اسٹریم مون سون کی بارشوں کو شمال کی طرف کھینچ رہا ہے جو بہت زیادہ بارشوں کا باعث بن رہا ہے اور بعد میں جب یہ بارشیں برستی ہیں تو پورے ملک کو جل تھل کردیتی ہیں۔

٭پاکستان کی زراعت اور موسمی تبدیلیاں:آب و ہوا کی تبدیلی والی اس سنگین صورت حال میں پاکستان کا زرعی شعبہ بھی بہت بڑے خطرے سے دوچار ہے۔ ہم اپنے ملک میں آب پاشی کے لیے دریائے سندھ کے محتاج ہیں اور اس دریا کو پانی کی بہت بڑی سپلائی ہمالیہ میں پگھلنے والے گلیشیئرز سے ملتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ پانی نہ ملے تو ملک بنجر ہوجائے۔ اب یہ گلیشیئرز بھی پگھل رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ پاکستان بذات خود ایک بڑا ریگستان بن جائے گا اور اپنی کروڑوں کی آبادی کو سپورٹ کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سے پہلے کہ یہاں خشک سالی اپنا جلوہ دکھائے اور شدید گرمی کی وجہ سے یہاں کی روایتی فصلیں اگنا بند ہوں۔

٭ابلتے سمندر اور آب و ہوا:آب و ہوا کی تبدیلی یا بدلتے ہوئے موسم سمندر پر بھی اپنے مضر اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ہمارے صوبۂ سندھ کے زیریں علاقے اس تبدیلی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب گلیشیئروں کے پگھلنے سے دریاؤں میں زیادہ پانی آئے گا اور ہمارے پاس اس کو ذخیرہ کرنے کے لیے نہ ڈیم ہوں گے اور نہ ہی دیگر ذرائع تو یہ فاضل پانی ظاہر ہے سمندروں میں ہی جاگرے گا۔ اس کی وجہ سے سندھ کا زیریں علاقہ کٹ رہا ہے، برباد ہورہا ہے، زیر زمین نمکیات اسے تباہ کررہے ہیں۔

٭ادھورا محکمۂ موسمیات:ہمارے ملک پاکستان میں محکمۂ موسمیاتThe Pakistan Meteorological Department (PMD) تو ہے، مگر وہ ادھورا ہے، کیوں کہ اس کے پاس شدید ترین موسم کی پیش گوئی کرنے والے آلات کی کمی ہے جس کی وجہ سے یہ محکمہ نہ تو شدید گرمی کے بارے میں پہلے سے کچھ بتاسکتا ہے اور نہ شدید سردی سے اپنے لوگوں کو باخبر کرتا ہے۔ہمارا یہ محکمہ ریت کے طوفانوں اور سائیکلون وغیرہ کے بارے میں بھی پہلے سے کچھ نہیں بتاسکتا۔ماحولیاتی تبدیلی کی وزارت کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ یعنی آب و ہوا کی تبدیلی کا معاملہ حکومت کی ترجیح میں کبھی شامل نہیں رہا ہے۔

اسی لیے PMD کے پاس شدید موسموں کی پیش گوئی کرنے کی کوئی مناسب حکمت عملی بھی نہیں ہے۔ عام طور سے ہمارے ہاں موسم کے بارے میں جو بھی پیش گوئیاں کی جاتی ہیں، وہ یا تو محض اندازے اور گمان ہوتے ہیں یا پھر پڑوسی ملکوں کی موسمی پیش گوئیاں دیکھ کر کی جاتی ہیں۔پاکستان نے گذشتہ چند ماہ کے دوران موسم کی عالمی تبدیلیوں کے اثرات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔

اپریل کے مہینے میں ایک منی سائیکلون نے پشاور میں لگ بھگ 44افراد کو لقمۂ اجل بنالیا۔ اس کے بعد کراچی میں تین چار روز کے دوران قیامت خیز گرمی نے 1200 سے زائد افراد کی جانیں لے لیں۔ایسی صورت حال میں کیا کیا جائے؟  PMD کے پاس وہ قابلیت ہی نہیں ہے کہ وہ ایسی سنگین موسمی صورت حال میں قبل از وقت کچھ بتاسکے تاکہ لوگ حفاظتی اقدامات کرلیں۔ پاکستان میں تباہ کن اور شدید موسم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے 26مئی 2010 کو ریکارڈ کیا گیا درجۂ حرارت 53.5 درجے سینٹی گریڈ (128.3فارن ہائیٹ) تک جاپہنچا تھا۔

یہ نہ صرف پاکستان بلکہ ایشیا کا شدید ترین گرم دن تھا۔اگر دیکھا جائے تو ہم پاکستانی اتنے بدقسمت ہیں کہ ہمیں اپنے بدلتے موسموں کا کچھ علم نہیں ہوتا۔ نہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ کب کب کہاں کہاں شدید گرمی پڑسکتی ہے اور نہ ہمیں اس بات کا کوئی علم ہے کہ کب کب کہاں کہاں شدید سرد ہوائیں چلیں گی۔ ہمیں یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارے ملک کے کس کس خطے میں کب کب کتنی بارش ہوسکتی ہے، یہ سب معلومات ہمارے کسانوں اور کاشت کاروں کے لیے بہت اہم ہے۔

کیوں کہ وہ اس ملک کی مجموعی آبادی کے لیے فصلیں اگاتے ہیں، مگر وہ بے چارے ہر بات سے بے خبر محض آسمانی موسم پر بھروسا کیے ہوتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کبھی بارشیں ان کی فصلوں کو بہاکر لے جاتی ہیں تو کبھی سیلاب کھڑی فصلیں تباہ کرڈالتا ہے۔ سیلاب نے نہ جانے اب تک کتنی بستیاں اجاڑی ہیں، اگر ان کا پہلے سے علم ہو تو حفاظتی اقدامات بھی اٹھائے جاسکتے ہیں، لیکن اگر اچانک اور انجانے میں ہی سیلاب آلے تو کیا کرسکتا ہے؟

اس ضمن میں حکومت جو بھی کرے یا نہ کرے، اس سے قطع نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے پاکستانی لوگ اس حوالے سے باخبر ہوں۔ وہ اس صورت حال کی سنگینی کو محسوس کریں اور پہلے سے ہی اپنے تحفظ اور سلامتی کے لیے کوششیں کریں۔ اس ضمن میں اجتماعی اور عوامی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔