مسجد ملا مجید

مدثر بشیر  اتوار 5 جولائی 2015
ملامجید انیسویں صدی کے اوائل میں لاہور کے ایک امیر اور مشہور کاروباری شخص تھے:فوٹو : فائل

ملامجید انیسویں صدی کے اوائل میں لاہور کے ایک امیر اور مشہور کاروباری شخص تھے:فوٹو : فائل

اہل لاہور زمانے بھر میں اپنی زندہ دلی کے باعث جانے جاتے ہیں۔ زندہ دلی کے ساتھ ساتھ رفاحی اور دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا بھی ان کی فطرت کا خاصہ ہے۔ اسی حوالے سے مسجد ملا مجید بھی اپنے بانی ملا مجید کے نام سے معروف ہے۔ ملامجید انیسویں صدی کے اوائل میں لاہور کے ایک امیر اور مشہور کاروباری شخص تھے۔ کاروبار کی وسعت کے باعث ان کا انگلستان اور کئی دیگر یورپی ممالک میں آنا جانا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ تمام لاہور میں ’’ملا مجید ولائتی‘‘ کے نام سے پکارے گئے۔ اس وقت یورپ اور دیگر ممالک کے لئے ولائیت کا لفظ عام استعمال کیا جاتا تھا۔ آج بھی پرانے لاہور میں کچھ بزرگ یہ لفظ استعمال کرتے ہیں ۔1960 ء تک یہ لفظ لاہور کی روزہ مرہ زبان کا حصہ تھا ۔

ملا مجید ایک مرتبہ انگلستان سے واپس ہندوستان آ رہے تھے کہ ان کے دل میں ایک خوبصورت مسجد کی تعمیر کی خواہش نے جنم لیا ۔ 1245ھ بمطابق 1829ء کو انہوں نے محلہ چہل بیبیاں‘ موچی دروازے میں ایک سادہ سی مسجد تعمیر کی ۔ لیکن اس تعمیر سے ان کے دل کی کوئی تسلی نہ ہو سکی کیونکہ وہ جیسی خوبصورت مسجد تعمیر کرانا چاہتے تھے اس کی تعمیر ویسی نہ تھی ، کئی برس گزرنے کے بعد انہوں نے دوبارہ 1294ھ بمطابق 1877ء کو اسی مسجد کی دوبارہ تعمیر شروع کی۔

اس مرتبہ انہوں نے عمر بھر کی کمائی اس مسجد پر صرف کی ۔ لیکن تقدیر کی کرنی کچھ ایسی ہوئی کہ مسجد کی تعمیر کے دوران ہی ملا مجید انتقال کر گئے۔ اس زمانے میں آج کے مشینی دور کی طرح محبت اور خلوص ابھی معاشرے سے عنقا نہیں ہوئے تھے، اہل محلہ مسجد کے ساتھ ان کی محبت کو اچھی طرح جانتے تھے اس لئے انہوں نے ان کی وفات کے بعد بھی مسجد کی تعمیر کا سلسلہ بڑے خلوص سے جاری رکھا اور ایک وقت آیا کہ پیسے ختم ہو گئے مگر محلے والوں نے چونکہ دل سے تہیہ کر لیا تھا کہ مسجد ہر حال میں مکمل کی جائے گی اس لئے انہوں نے چندہ اکٹھا کیا اور مسجد کی تعمیر کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا ۔ اس وقت محکمہ نہر کے ایک ملازم حیدر شاہ نے چندہ میں بھرپور حصہ لیا ۔

مسجد کی تعمیر کے بارے میں رائے بہادر کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب تاریخ لاہور(ص ۔197) پر یوں تحریر کیا ہے۔ ’’یہ مسجد نہایت مقطع و خوبصورت پختہ بنی ہوئی ہے۔ بیرونی دروازہ نہایت عمدہ بنا ہوا ہے۔ اس کے اندر جائیں تو بہ جنوب چاہ و غسل خانہ وسقاوہ ہے اور اس سے آگے بڑھ کر گوشۂ بائب میں ایک وسیع حجرہ بنا ہے جس کے دو درجے ہیں ۔

ایک درجہ اندرونی ، دوسرا بیرونی، اندرونی درجے کے تین دروزاے چوبی ہیں ۔ اور باہر ایک درجے کا ایک درمحرابی ۔ اس میں مولوی محمد بخش درس پڑھاتا ہے۔ اس کے جنوب کی سمت کو خاص مسجد ہے۔ صحن مسجد کا نہایت عمدہ ہے۔ جس میں ڈبل اینٹوں کا فرش لگایا گیا ہے۔ خاص مسجد کی تین محرابی قالبوتی مقطع محرابیں ہیں ۔ درمیانی محراب پر دو کتبے ہیں بالائی کتبے پر بہ قلم جلی کلمہ شریف تحریر ہے اور اس کے نیچے کے درجے میں سنگ مرمر کی اینٹ ہے۔ اس میں بھی کلمہ شریف اور نام بانی مسجد اور سنہ 1245ھ سال تعمیر سابق و سنہ 1294ہجری تعمیر حال کا تحریر ہے۔ مسجد کے اندر کی عمارت بھی انتہائی اعلیٰ درجے کی ہے ۔

سفیدی نہایت عمدہ ہے۔ چھت قالبوتی اور اوپر چھت کے تین گنبد عالی شان مدور‘ مقطع‘ خوبصورت بنے ہیں ۔ اس مسجد میں رونق بہت رہتی ہے۔ سامان روشنی و فرش و فروش وغیرہ سب مہیا و موجود رہتا ہے۔ وعظ بھی اکثر ہوتا ہے۔‘‘

عصر حاضر میں جب سرکلر روڈ سے اندرون موچی دروازے سے اندر کی جانب جایا جائے تو آغاز میں آتش بازی کی دکانیں ہیں۔ آتش بازی کا یہ سامان قریبی رہائشی گھروں میں ہوتا ہے۔ کسی بھی سانحے کی صورت میں شہر کا یہ تمام حصہ تباہ ہو سکتا ہے۔ کیمیکل کے استعمال کے باعث شاہ عالمی کے علاقے میں ایک دو خوفناک واقعات رو پذیر ہو چکے ہیں ۔

اس سے آگے اچار، چنے اور گھریلو استعمال کی اشیاء کی دکانیں ہیں ۔ یہ راستہ آگے ’’لال کھوہ‘‘ تک جاتا ہے اس تمام راستے میں مٹھائی کی کئی دکانیں موجود ہیں ۔ ان سے آگے ایک مشہور کبابوں والی دکان ہے ۔ یہ راستہ آگے چو ک نواب صاحب سے ہوتا ہوا مشہور زمانہ حویلی ’’نثار حویلی‘‘ تک جاتا ہے۔ نثار حویلی ’’محلہ چہل بیبیاں‘‘ میں واقع ہے۔ محلہ چہل بیبیاں کے ساتھ بہت سی روایات بیبیاں پاک دامن کے ساتھ منسوب ہیں۔ یہ ایک الگ تحقیق طلب معاملہ ہے۔ محلے کے آغاز ہی میں دائیں جانب ایک تختی آویزاں ہے ۔

یا اللہ بسم اللہ الرحمن الرحیم یا محمدؐ
دربار عالیہ
مرکز تجلیات
حضرت سید احمد نوختہ ترمذی
والد بزرگوار بیبیاں پاک دامن 602ھ

یہ نصب شدہ تختی عصر حاضر کی تحریر سے مزین ہے۔ تاریخی حوالے سے اس کے مستند ہونے یا نہ ہونے کے معاملے کو بغور دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس محلے سے پہلے محلہ صداکاراں ہے جہاں پر مشہور زمانہ کلاسیکل گائیک ’’استاد چھوٹے غلام علی خان‘‘ کی رہائش تھی ۔ نثار حویلی جوکہ عاشورہ کے حوالے سے مشہور ہے اسی طرح جب تک چھوٹے غلام علی خان زندہ تھے ان کا ذکر اہلبیت بھی زمانے بھر میں مشہور تھا۔ یہ مسجد تین تاریخی حویلیوں کے درمیان گھری ہوئی ہے، نثار حویلی کے ساتھ ہی مبارک حویلی‘ یہ دونوں حویلیاں جنوب مشرقی سیدھ میں ہیں اور شمال مشرقی سیدھ میں حویلی واجد علی شاہ واقع ہے ۔

یہ تینوںحویلیاں اہل تشیع سے منسوب ہیں ۔ یہ حویلیاں قدامت کے تمام رنگ لئے اپنی آن، بان و شان کے ساتھ کھڑی ہیں ۔ نثار حویلی اور مبارک حویلی اہل تشیع کی رسومات کے لئے خاص کر دی گئی ہیں جبکہ حویلی واجد علی شاہ میں دیگر مذہبی رسومات کے ساتھ ساتھ ٹی وی ڈراموں اور کمرشلز کی ریکارڈنگ بھی ہوتی ہے۔ اس حویلی کی مشرقی سیدھ میں اہل تشیع کا ایک اور اہم اور خاص مقام ’’ شیخوں کی امام بارگاہ‘‘ ہے۔ یہ امام بارگاہ ’’نار والیوں دا امام باڑا‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔

اہل تشیع سے منسوب ان تمام عمارتوں کے درمیان میں مسجد ملا مجید واقع ہے جو کہ اہلسنت و الجماعت سے منسلک ہے۔ اہل محلہ کی ایک بڑی تعداد اہل تشیع ہے اس کے باوجود مسجد کا ادب و احترام ان کے لئے لازم ہے۔ یہ عمارت اس بات کی بھی گواہی دیتی ہے کہ اہل لاہور میں کس قدر مذہبی ہم آہنگی اور برداشت موجود تھی۔ بدقسمتی سے یہ رجحان بتدریج ختم ہوتادکھائی دیتا ہے۔

محلہ چہل بیبیاں میں موجود تمام حویلیاں اپنے جھرکوں،دالانوں، دروازوں اور محرابوں کے ساتھ روز اول کی مانند قائم ودائم ہیں ۔ جب ہم محلہ چہل بیبیاں میں داخل ہوتے ہیں تو ایک مضبوط چبوترے پر یہ مسجد دکھائی دیتی ہے پہلے تو کچھ ساعتیں انسان حیرانگی سے اس چھوٹی سی خوبصورت مسجد کو دیکھتا رہتا ہے کیونکہ جس طرح اندرون لاہور میں تیزی کے ساتھ تاریخی عمارات کی شکل و ہیئت تبدیل کی جا رہی ہے وہاں پر یہ مسجد روز اول کی مانند روشن اور عیاں دکھائی دیتی ہے۔ مسجد کی عمارت سنگ سرخ سے تعمیر کردہ ہے۔ میناروں پر بھی یہی پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ اور ان کے درمیان تین خوبصورت سفید گنبد قابل دید ہیں ۔

ان گنبدوں کی تعمیر میں سنگ مرمر استعمال کیا گیا ہے۔ مسجد کے داخلی دروازے کے ساتھ ہی غسل خانہ اور وضو خانہ ہے ۔ بائیں جانب مسجد کا صحن ہے جو کہ گلی کی سطح سے کم از کم چار فٹ اونچے چبوترے پر ہے۔

مسجد کے صحن کی مشرقی سیدھ میں مسجد کا ہال ہے جس کی مشرقی سیدھ کے دروازے محرابی طرز کے ہیں۔ مسجد کے ہال میں سقف گنبددار اور اپنی آب و تاب کے ساتھ قائم ودائم ہے۔ مسجد کے اردگرد پرانے گھر اپنی پرانی بودوباش کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں ۔ کچھ گھروں کے دروازوں پر قربانی کے چھترے اور چھتوں پر کبوتروں کے جنگلے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مسجد کی عمارت کی حفاظت اہل محلہ کے ذمے ہے جسے وہ بخوبی نبھا رہے ہیں ۔ آنے والی نسلوں سے بھی یہی امید ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کی مانند اس مسجدکی حفاظت کرتی رہیں گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔