شاہو ں کا کوئی والی وارث نہیں

زاہدہ حنا  ہفتہ 4 جولائی 2015
zahedahina@gmail.com

[email protected]

انسانی تاریخ میں لاکھوں انسانوں کی جبری مشقت کے دو تعمیراتی شاہکار آج بھی کرۂ ارض پر موجود ہیں۔ ان میں مصر کے اہرام اور چین کی وہ دیوار ہے جس کی تعمیر اب سے ساڑھے تین ہزار برس پہلے شروع ہوئی اور یہ سلسلہ سولہویں صدی عیسوی تک چلتا رہا۔ قن اور منگ خاندانوں سے ہوتا ہوا یہ تعمیری سلسلہ سولہویں صدی تک آیا۔

لگ بھگ 21 ہزار کلومیٹر طویل یہ دیوار، چین کی سرحد پر کسی اژدھے کی طرح بل کھاتی ہوئی چلتی چلی جاتی ہے۔ اس دیوار نے چین کو ان وحشی قبائل کی تاخت و تاراج سے محفوظ رکھا جو چین کی دولت و ثروت پر نگاہیں جمائے ہوئے تھے۔ ان حملہ آوروں سے محفوظ رکھنے کے لیے چینی شہنشاہوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں اس دیوار کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا اور ان کے افسران نے اس کی حفاظت اور مرمت کو اپنا قومی فریضہ خیال کیا۔

اس دیوار سے کیسی کیسی کہانیاں وابستہ ہیں۔ چین کے لاکھوں کسان اپنے شہنشاہ کے حکم پر تابعداری سے دور دراز علاقوں میں سالہا سال کام کرتے رہے اور ان کے بوڑھے ماں باپ، ان کی جوان بیویاں اور بڑے ہوتے ہوئے بچے اس شخص کا انتظار کرتے رہے جو نوجوان گیا تھا اور اگر خوش بختی سے اپنے گاؤں واپس آیا تو اس کے بالوں اور پلکوں پر وقت کی برف جم چکی تھی۔ ماں اور باپ عالم ارواح کو جاچکے تھے، بیوی کی کمر روز کی مشقت سے دہری ہو چکی تھی اور بچے اسے پہچاننے سے انکا ری تھے۔

آج مجھے یہ دیوار بے اختیار یاد آئی۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ 1999ء میں چین کے سرکاری سفر کے دوران یہ خوش نصیبی میرے حصے میں آئی کہ میں نے بیجنگ سے بادالنگ کا سفر کیا اور دیوار چین کے اس حصے پر قدم رکھا جو منگ شاہی دور میں تعمیر ہوا تھا۔ دیوار چین کہنے کو دنیا کا ساتواں عجوبہ ہے لیکن اس کی زیارت کم کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ میں اپنے قلم کے طفیل چینی مصنفین کی انجمن کی طرف سے پندرہ دن کے دورے پر بلائی گئی اور میں نے دنیا کے اس ساتویں عجوبے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اپنی انگلیوں کی پوروں سے محسوس کیا اور اس پر قدم رکھا جس پر کبھی چینی شہسوار اپنے گھوڑے دوڑاتے پھرتے تھے۔

آج اس دیوار کی یاد اس لیے بہت آئی کہ اس سے متعلق ایک خبر آئی ہے جو اداس کر دینے والی ہے۔ وہ دیوار جو چینیوں کو حملہ آوروں سے محفوظ رکھتی رہی، اسے بارش، صحراؤں کی طرف سے آنے والی بے رحم ریتیلی ہواؤں اور برف کے علاوہ چند سکّوں کی ہوس میں گرفتار لوگوں سے کوئی نہیں بچا سکا اور گزشتہ سیکڑوں برس میں 2 ہزار کلومیٹر طویل دیوار صفحہ ہستی سے غائب ہو چکی ہے۔

یہ خبر پڑھ کر مجھے کراچی سے کچھ ہی فاصلے پر موجود ہمارا ثقافتی ورثہ چوکھنڈی کے قبرستان یاد آئے۔ 1973ء میں اس قبرستان سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ ہنرمند انگلیوں کی صناعی کو داد دیتے ہوئے اس بات پر صدمہ ہوا تھا کہ موسم اور اس کے پتھروں کو چرانے والوں نے قبروں میں سونے والے نامعلوم لوگوں پر بھی رحم نہیں کیا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً چوکھنڈی جانا ہوا اور ہر مرتبہ یہ بات دل پر خراشیں ڈالتی رہی کہ اسے لوٹنے والوں کی رفتار تیز ہو گئی ہے اور اس قبرستان کو بچانے کے لیے محکمہ آثار قدیمہ نے کچھ بھی نہیں کیا۔

دیوار چین کے بارے میں خبر آئی تو چوکھنڈی کا قبرستان بھی یاد آیا اور وہ کہانیاں بھی جو دیوار چین سے وابستہ ہیں۔ یہ بھی یاد آیا کہ شہنشاہ قن نے چین کے 7 حصوں یا ریاستوں کو صرف دیوار کے ذریعے ایک لڑی میں پرونے کی ہی کوشش نہیں کی بلکہ تہذیبی اور تاریخی طور پر بھی چینیوں کو ماضی سے کاٹنے اور اپنی تاریخ فراموش کر دینے پر مجبور کیا۔ شہنشاہ قن سے پہلے چین کا عظیم فلاسفر کنفیوشس صدیوں پہلے گزر چکا تھا۔

چینی اس کی تعلیمات کے سامنے ماتھا ٹیکتے تھے اور اسے پیغمبر مانتے تھے لیکن شہنشاہ قن کو یہ برداشت نہ تھا، وہ جس چین کی تعمیر میں مصروف تھا اس میں کسی فلسفی، کسی پیغمبر کی کوئی گنجائش نہ تھی، چنانچہ اس نے کنفیوشس کی تعلیمات پر مشتمل تمام تحریریں تباہ کر دیں۔ کنفیوشس کی صرف وہ کتابیں محفوظ رہیں جو خود شہنشاہ قن کی لائبریری میں موجود تھیں۔ اس کے حکم پر تاریخ کی کتابیں جلا دی گئیں تا کہ چینی اپنے ماضی کے بارے میں کچھ نہ جان سکیں۔ کنفیوشس کے فلسفے کو عام کرنے والے 460 استاد زندہ دفن کر دیے گئے۔ ان دنوں قتل کرنے کا یہ ایک عام طریقہ تھا۔ دیوار کی تعمیر کے لیے قریب پاس اور دور دراز کے کسان بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح ہانک کر لے جائے جاتے۔ جس کسی نے دیوار کی تعمیر سے انکا ر کرنے یا اپنے گھر سے دور جانے پر احتجاج کی کوشش کی، اس کے سر کا بوجھ ہلکا کیا گیا اور وہ سر دیوار سے لٹکا دیا گیا۔

اس دیوار کی تعمیر میں چینیوں نے جو ستم سہے اس کا آج ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ لاکھوں چینی گائے، بیل اور گھوڑوں کی طرح بادشاہ کے شاہی نشان سے داغے گئے۔ وہ بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتے تھے، کوئی گھر، کوئی سرائے، کوئی رشتہ، کوئی دوست انھیں پناہ نہیں دے سکتا تھا۔ پناہ دینے یا ان پر رحم کھانے والے کا انجام بھی عبرت ناک ہوتا۔

چینی آج بھی دیوار چین کو اپنے ملک کا سب سے بڑا قبرستان کہتے ہیں۔ انسانی وجود میں سانس لیتے ہوئے عشق، وفاداری اور انتظار جیسے لطیف جذبوں کے سامنے یہ دیوار بھی موم کی طرح پگھل گئی جسے دشمن حملہ آور نہیں ڈھا سکے تھے۔ اب سے 2400 برس پہلے کی کہانی منگ جیاگنو کی ہے۔ وہ ایک کسان کی بیٹی تھی، کہانیوں کی ہیروئنوں کی طرح حسین مہ جبین۔ اس کی شادی جس نوجوان سے ہوئی اس کا نام فان قیالانگ تھا اور وہ بھی کسان تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی محبت میں سرشار تھے کہ بادشاہ کے سپاہی آ پہنچے اور ان دونوں کی آہ وزاری کے باوجود فان کو ساتھ لے گئے۔

منگ کھیتوں میں پھرتی اور اس سڑک پر جا کھڑی ہوتی جو دور دراز علاقے کو جاتی تھی جہاں عظیم دیوار تعمیر ہو رہی تھی، شاید ادھر سے فان کسی بیل گاڑی پر سفر کرتا ہوا آن پہنچے۔ مہینے اور سال گزرتے گئے لیکن فان کی کوئی خبر نہ آئی، تب ہجر کی ماری منگ ایک روز خود اس طرف چل پڑی جدھر دیوار تعمیر ہو رہی تھی۔ وہ فاقہ کرتی، چوروں ڈاکوؤں سے بچتی بچاتی، دیوار کا راستہ پوچھتی ہوئی وہاں جا پہنچی جہاں فان نے اپنی محنت کے پسینے اور منگ کی یاد میں بہائے جانے والے آنسوؤں سے دیوار کا گارا گوندھا تھا اور ایک ایک اینٹ سے دیوار کو زندہ وجود بنا دیا تھا۔ منگ وہاں پہنچی اور اس نے دیوار پر کام کرنے والے مزدوروں سے فان کا پتا پوچھا تو اس کے ساتھ کے مزدوروں نے دیوار کے اس حصے کی طرف اشارہ کیا جہاں چند دنوں پہلے فان کو دفن کیا گیا تھا۔

منگ کے لیے یہ سب کچھ ناقابل یقین اور ناقابل برداشت تھا۔ وہ دیوار کے اسی حصے کے پاس چیخ مار کر گر گئی اور پھر اس نے آنسو بہانے شروع کیے۔ کہنے والے بتاتے ہیں کہ منگ کی آہ وزاری اور اس کے آنسوؤں سے گزوں موٹی دیوار بھربھری ہو گئی اور گر پڑی۔ کہا جاتا ہے کہ دیوار کے اس حصے کو بار بار بنانے کی کوشش کی گئی لیکن منگ کے آنسوؤں اور اس کی چیخ و پکار نے اس عظیم دیوار میں جو شگاف ڈالا تھا وہ کبھی بھرا نہ جا سکا۔

دیوار چین میں پڑنے والے شگافوں اور ٹوٹ پھوٹ کی خبر جب میں نے پڑھی تو مجھے بے اختیار منگ کی یاد آئی۔ یہ بے بس و بے کس عوام کی وہ دل دوز کہانیاں ہیں جنھیں شہنشاہوں اور بادشاہوں نے ذرا سی بھی اہمیت نہیں دی لیکن یہی وہ تابعدار غلام تھے جن کے غم و اندوہ نے دنیا کی عظیم الشان دیوار کا کلیجہ بھی شق کر دیا اوراب وہ جگہ جگہ سے شکستہ ہے۔

چین کا کسان آج بھی موجود ہے، کنفیوشس کی تعلیمات دینے والے زندہ دفن کر دیے گئے۔ ان کے کٹے ہوئے سر اس عظیم دیوار پر کھونٹوں سے لٹکا دیے گئے۔ دیکھنے والے انھیں دیکھیں اور عبرت پکڑیں لیکن ہری گھاس کی طرح زمین سے اُگنے والے انسان اور کسان آج بھی زندہ ہیں، تمام شاہوں اور شہنشاہوں کے مقبروں کا نام و نشان نہیں ملتا۔ ایک چینی شہنشاہ نے بعد از مرگ اپنی حفاظت کے لیے پکی ہوئی مٹی کے 6 ہزار سپاہی بھی بنوائے تھے۔

ژیان کی چند خندقوں سے ملنے والے یہ سپاہی آج ایک عجوبہ ہیں، دنیا کے سات براعظموں سے سیاح انھیں دیکھنے آتے ہیں لیکن شاہوں اور شہنشاہوں کا کوئی والی وارث نہیں۔ آج کسان، مزدور کنفیوشس کو ماننے والے، سپاہی اور سیاح سب موجود ہیں لیکن شاہوں کا بوریا بستر لپٹا جا چکا۔ چین کی عظیم دیوار موجود ہے لیکن ہزاروں میل تک شکستہ ہے۔ چوکھنڈی کا قبرستان بھی لٹیروں کے رحم و کرم پر ہے۔ یہ عوام ہیں جو قتل کیے جانے اور برباد کیے جانے کے بعد بھی زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔