کرکٹ کا ہاکی جیسا حال نہ ہو جائے

سلیم خالق  اتوار 5 جولائی 2015
کرکٹ ٹیم کے چیمپئنز ٹرافی سے اخراج کے دہانے پر پہنچنے پر بھی کسی نے ہوش کے ناخن نہ لیے، فوٹو: فائل

کرکٹ ٹیم کے چیمپئنز ٹرافی سے اخراج کے دہانے پر پہنچنے پر بھی کسی نے ہوش کے ناخن نہ لیے، فوٹو: فائل

’’کوئی ٹیم ایک میچ بڑے مارجن سے جیتے اور اگلا بدترین انداز میں ہار جائے تو سمجھ جاؤ معاملہ گڑبڑ ہے، یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے موذی بیماری میں مبتلا کوئی مریض کبھی ہشاش بشاش نظر آتا تو کبھی بستر پر بے سدھ لیٹا ہوتا ہے، دراصل ہماری کرکٹ بھی اس وقت شدید بیمار ہے، اگر جلد ہوش کے ناخن نہ لیے تو ہاکی کی طرح اس کی بھی موت واقع ہو جائے گی‘‘۔

ملکی کرکٹ کے معاملات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے ایک سابق کھلاڑی نے مجھ سے یہ باتیں کیں تو میں گہری سوچ میں گم ہو گیا، ذہن میں یہی خیالات آ رہے تھے کہ پاکستانی ٹیم ورلڈکپ میں بُری طرح ہار گئی، بنگلہ دیش نے اسے ہزیمت کا شکار کیا، بہت سے کرکٹرز کی وجہ سے ڈاکٹرز اور اسپتالوں کی چاندی ہو گئی، کئی ڈپارٹمنٹس نئے ڈومیسٹک سسٹم سے ناخوش اور عدالت جانے کی تیاری کر رہے ہیں مگر ہمارے بورڈ کو کوئی فکر نہیں، چیئرمین شہریارخان چھٹیاں منانے انگلینڈ چلے گئے اور دوسرے ’’چیئرمین‘‘ نجم سیٹھی کا سارا زور ہر حال میں سپر لیگ کرانے پر لگا ہوا ہے، شکیل شیخ جیسے باقی بااختیار آفیشلز ڈومیسٹک کرکٹ کا تیاپانچہ کر رہے ہیں۔

ایسے میں جب گرین کیپس نے سری لنکا سے گال ٹیسٹ جیتا تو سب مطمئن ہو گئے، مگر پھر کولمبو میں شکست حقیقت کی دنیا میں لے آئی، ایسے میں ڈر لگتا ہے کہ کہیں کرکٹ کا حال بھی ہاکی جیسا نہ ہو جائے، حال ہی میں ٹیم اولمپکس سے باہر ہوئی تو قومی کھیل کا شوق جن لوگوں میں باقی بچا تھا وہ بھی بددل ہو گئے، ہمارے ہاکی ایکسپرٹ میاں اصغر سلیمی بھی اس بات سے متفق ہیں کہ چونکہ آج کل فیڈریشن کے پاس پیسہ نہیں ہے لہذا اس کھیل میں دلچسپی نہیں، جیسے ہی حکومتی امداد ملی، شہد کی مکھیوں کی طرح لوگ عہدہ پانے کیلیے بھنبھنانے لگیں گے، موجودہ حکام نے بھی حکومت سے گرانٹ کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تاکہ اکاؤنٹس میں رقم بھر سکیں، مگر ان کی کوششیں کامیاب نہ ہوئیں۔

اسی طرح فٹبال فیڈریشن کے پاس بھی فیفا گول پروجیکٹ کی بھاری رقوم آتی ہیں جسے دیکھ کر لوگوں کی رال ٹپکنے لگتی ہے، اسی لیے بڑی شخصیات اقتدار کیلیے لڑتی دکھائی دیتی ہیں مگر ٹیم کا عالمی سطح پر دور دور تک نام و نشان موجود نہیں ہے،کرکٹ بورڈ میں لوگ وزیر اعظم سے منت سماجت کرکے آتے ہیں کیونکہ اس کے پاس اربوں روپے موجود اور ہر سال اضافہ ہی ہوتا ہے،اس سے یہ بات صاف ہے کہ اب سارا گیم پیسے کا ہے کھیلوں کے فروغ اور ٹیموں کی کارکردگی میں کسی کو دلچسپی نہیں، یہی وجہ ہے کہ کرکٹ ٹیم کے چیمپئنز ٹرافی سے اخراج کے دہانے پر پہنچنے پر بھی کسی نے ہوش کے ناخن نہ لیے، حکام تباہی کی وجہ جاننے کیلیے کچھ نہیں کر رہے بس کوشش یہ ہے کہ پیسہ کمایا جائے،آپ خود دیکھیں کہ پی سی بی گراس روٹ سطح پر کھیل کو فروغ دینے کیلیے کیا کر رہا ہے۔

انٹراسکول کرکٹ کی کتنی حوصلہ افزائی ہوئی،کلب اور ڈومیسٹک مقابلوں کیلیے کیا اقدامات کیے گئے، اکیڈمی کتنے کھلاڑی تیار کر رہی ہے؟ اگر کاغذ پر دیکھا جائے تو کئی ایونٹس ہو رہے ہیں مگر ان سے ٹیلنٹ کیوں نہیں ملتا؟ کوئی اور ملک ہوتا تو ورلڈکپ اور دورئہ بنگلہ دیش میں شرمناک کارکردگی کے بعد بہتری کیلیے بہت کچھ کیا جا چکا ہوتا مگر یہاں زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں ہو رہا، ڈومیسٹک سسٹم میں بھی ان لوگوں نے تبدیلیاں کیں جن کا سابقہ پلان مسترد کر دیا گیا تھا،مجھے تو لگتا ہے کہ زمبابوے سے ہوم سیریز پر پانی کی طرح پیسہ بہانے میں بھی بورڈ کا اپنا مفاد تھا، اس نے ایسا شکستوں سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلیے کیا۔

یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد کسی ٹیم کو بلانے کی بات تک نہیں ہو رہی، اور تو اور پاکستان سپرلیگ کا بھی دبئی میں انعقاد کیا جا رہا ہے،نجانے بورڈ کے ارباب اختیار کب سنجیدہ ہوں گے،ابھی تو ڈر ہے کہ خدانخواستہ ٹیم چیمپئنزٹرافی سے باہر نہ ہو جائے، یہ پاکستان میں کرکٹ کے ہاکی جیسے حال کی طرف پہلا قدم بنے گا، مگر اس وقت تک ارباب اختیار اتنا پیسہ جمع کر چکے ہوں کہ استعفیٰ دیتے وقت بھی کوئی افسوس نہیں ہو گا،ہاکی میں تو حکمرانوں نے کوئی دلچسپی نہ لی اب خدارا کرکٹ کو تو دیکھیں، بہتری کیلیے ضروری ہے کہ اکیڈمیز کو زیادہ فعال کیا جائے، کئی کوچز برسوں سے چمٹے ہوئے ہیں۔

انھیں ہٹا کر تازہ چہروں کو لایا جائے، ملک میں کئی اچھے سابق کرکٹرز موجود ہیں انھیں بھی موقع دیں، یہاں تو کوئی عہدہ چھوڑنے کو تیار نہیں، ہارون رشید چیف سلیکٹر بنے تو اب کوئی نیا ڈائریکٹر گیم ڈیولپمنٹ سامنے نہیں آ رہا، وہی قائم مقام کی پوسٹ پربراجمان ہیں،دکھاوے کیلیے اشتہار دیا گیا، میڈیا میں نشاندہی ہوئی تو کسی من پسند فرد کو عہدہ سونپنے کی اطلاعات سامنے آ گئیں جو یس مین بن کر رہے، اور تو اور خواتین کرکٹ کے اہم معاملات بھی ہارون رشید کی مرضی کے بنا پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتے،کراچی کی اکیڈمی کے کنٹریکٹر نے اپنی کئی بلڈنگز بنا لی ہوں گی مگر وہ تعمیر نہ ہوئی، نجانے کب مکمل ہو گی۔

ابھی تو عمارت کے کمروں میں دوستوں کو ٹہرایا جاتا ہے یا گرمی اور لوڈشیڈنگ سے پریشان نیشنل اسٹیڈیم کے بعض آفیشلز رات میں سکون سے سونے کیلیے استعمال کرتے ہیں، سپر لیگ ضرور کرائیں مگر پہلے بورڈ کو ملکی کرکٹ کے مسائل حل کرنے چاہیں، ایک فہرست بنائیں، اس کے مطابق ایک ایک کر کے تمام معاملات سلجھانے کی کوشش کریں، سلیکٹرز نیا ٹیلنٹ تلاش کر کے اسے اکیڈمی میں بھیجیں، اسکولز اور کالجز پر بورڈ زور دے کہ وہ کرکٹ ٹیمیں بنائیں، اس کیلیے اسٹار کھلاڑیوں کی خدمات لی جائیں، وہ دورے کریں گے تو بچوں کو ان کا شاہانہ انداز دیکھ کر کھیل کی جانب راغب ہونے کی تحریک ملے گی، کلب کرکٹ کے فروغ میں بھی کچھ حصہ ڈالا جائے، گھوسٹ ملازمین کی صرف ایک ماہ کی تنخواہ سے کئی کلبز کے مسائل حل ہو سکتے ہیں، تمام عہدوں پر میرٹ پر تقرریاں کی جائیں گی تو نتائج بھی اچھے سامنے آئیں گے،دوستیاں بہت نبھا لیں اب کچھ تو ملک کیلیے کر دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔