جوہری ڈیل فیصلہ کن مرحلے میں

زمرد نقوی  پير 6 جولائی 2015
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

ایران امریکا جوہری ڈیل فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ یہ ڈیل ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں اس کے انتہائی دور رس اثرات دنیا خاص طور پر مشرق وسطیٰ پر مرتب ہوں گے۔ ایک تاریخ ساز واقعہ ہونے جا رہا ہے جس کے نتیجے میں تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ یہ مذاکرات دنیا کی 6 عالمی طاقتوں امریکا، روس، چین، فرانس، برطانیہ، جرمنی اور ایران کے درمیان ہو رہے ہیں۔ ان مذاکرات کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ ان ملکوں کے نام سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ایک طرف ایران دوسری طرف یہ عالمی طاقتیں دونوں طرف سے بھرپور کوشش یہ ہے کہ ایک دوسرے کی ضرورتوں اور کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر ایسی ڈیل کی جائے جس کا زیادہ تر فائدہ انھیں پہنچے۔ ایران 35 سال آگ و خون اور معاشی پابندیوں کی آزمائشوں سے جو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے لگائی تھیں اس طرح سرخ رو ہو کر نکلا ہے کہ عالمی طاقتوں کے پاس اس سے مذاکرات کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

ایران اس ڈیل کے نتیجے میں ایک علاقائی طاقت بننے جا رہا ہے بلکہ اس طاقت سے کہیں زیادہ جو ایران کو امریکی اتحادی کی صورت میں شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے دور میں حاصل تھی لیکن یہ سب کچھ اسے پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملا۔ اس کے لیے اس نے ایک طویل مدت لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیں۔ کھربوں ڈالر کا نقصان برداشت کیا۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال امریکا اس کے اتحادیوں کی ہر سازش اور آزمائشوں کا مقابلہ کیا لیکن اپنی خود مختاری اور سلامتی کو برقرار رکھتے ہوئے ہار نہیں مانی۔ امریکا کے سامنے اس وقت کوئی طاقت سر نہیں اٹھا سکتی چاہے یہ اس کے اپنے اتحادی ہی کیوں نہ ہوں سب امریکا کی معاشی اور جنگی طاقت کے سامنے مجبور محض ہیں لیکن ایران دور حاضر کا واحد ایسا ملک ہے جس نے سامراج کے ہاتھوں تباہی برداشت کر لی لیکن اس کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکا سمیت تمام عالمی طاقتیں اس کی عزت اور مذاکرات کرنے پر مجبور ہیں۔

آج کل یہ مذاکرات آسٹریا کے شہر ویانا میں ہو رہے ہیں۔ مذاکرات کی پیچیدگی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ان مذاکرات میں سات جولائی تک پھر توسیع کر دی گئی ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر اوباما نے برازیل کی صدر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ وہ ایران کے ساتھ سمجھوتا طے پانے کے بارے میں اب بھی پرامید ہیں اور کہا کہ اگر حقیقت میں یہ سمجھوتہ خراب ہوا تو ہم مذاکرات سے باہر نکل آئیں گے۔ مذاکرات کس درجہ حساس مرحلے پر ہیں کہ ایران کی طرف سے اعلیٰ مذاکرات کار علی اکبر صالحی علالت کے باوجود بھی ویانا پہنچے ہیں۔ اس موقعہ پر ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ اپنی علالت کے باوجود علی اکبر صالحی کی ویانا آمد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران مذاکرات اور اپنے جوہری پروگرام پر عالمی طاقتوں کے ساتھ کسی معاہدے پر اتفاق کے لیے کتنا سنجیدہ ہے۔جوہری ڈیل پر مذاکرات کا آغاز 2013ء کے آخر میں ہوا۔

اس حوالے سے خفیہ رابطے امریکا ایران میں دس سال پہلے ہی شروع ہو گئے تھے۔ یہ رابطے اس قدر خفیہ تھے کہ اس کی بھنک اسرائیل اور سعودی عرب کو بھی نہ پڑ سکی کیونکہ خدشہ تھا کہ اسرائیل اور سعودی عرب اس کی سخت مخالفت کریں گے اور ایسا ہی ہوا۔ ایران امریکا مذاکرات کے بعد سعودی امریکا تعلقات سخت کشیدگی کا شکار ہو گئے یہاں تک کہ امریکی صدر اوباما سمیت دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو سعودی بادشاہ کو منانے کے لیے بذات خود ریاض کا دورہ کرنا پڑا۔ اسرائیل اس معاملے میں ایران دشمنی میں اس انتہا پر چلا گیا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے بذات خود اس سال مارچ کے شروع میں امریکا کا دورہ کیا اور امریکی قانون سازوں سے خطاب کرتے ہوئے ان پر شدید دباؤ ڈالتے ہوئے ان پر زور دیا کہ یہ ڈیل کسی صورت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر یہ جوہری ڈیل ہو گئی تو دنیا میں قیامت آ جائے گی۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے امریکی دورے میں دو انوکھی باتیں ہوئیں کہ اسرائیل نواز ری پبلکن پارٹی نے (ویسے تو ڈیمو کریٹک پارٹی بھی اسرائیل نوازی میں ری پبلکن سے کم نہیں) امریکی آئین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صدر اوباما کی مرضی کے بغیر اسرائیلی وزیر اعظم کو امریکا کے دورے کی دعوت دی دوسرا انوکھا کام یہ کیا کہ ایرانی قیادت کو براہ راست خط لکھ کر یہ دھمکی دی کہ اگر یہ جوہری ڈیل ہو گئی تو برسراقتدار آنے پر ری پبلکن پارٹی اسے منسوخ کر دے گی۔

امریکا ایران ڈیل اس لیے نہیں ہو رہی کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ایران سے اچانک کوئی عشق ہو گیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ایرانی انقلاب کو تباہ کرنے کی کوشش میں ہر ناکامی کے بعد دوستی کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ ایران میں امریکی مفادات کا خاتمہ کرنے کے جرم میں ایرانی عوام کو مختلف سزاؤں سے گزارا گیا۔ اس میں پہلی سزا یہ تھی کہ صدام کے ذریعے ایران پر حملہ کرایا گیا تا کہ اس کی فوجی اور معاشی طورپر کمر توڑ دی جائے۔ اس طویل جنگ میں لاکھوں مسلمان کام آئے اور ہزاروں ارب ڈالر معاشی اور جنگی نقصان ہوا لیکن انقلاب کا پھر بھی خاتمہ نہیں ہو سکا کیونکہ ایرانی عوام اس کے پیچھے تھے۔ کسی انقلاب کو ختم کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں کہ فوری طور پر اس پر جنگ مسلط کر کے اس کا خاتمہ کر دیا جائے جیسا کہ سوویت یونین کا خاتمہ کرنے کے لیے ہٹلر کے ذریعے اس پر جنگ مسلط کی گئی دوسرا اندرونی سازشیں۔ تیسرا معاشی پابندیاں۔ ایران پر بھی یہ نسخے آزمائے گئے۔

یہ بالکل ویسے ہی طریقے ہیں جیسے کوئی انسان اپنے دشمن کے ساتھ کرتا ہے۔ تازہ ترین اس کا ثبوت تیل کی حد درجہ کم قیمتیں ہیں جس سے روس اور خاص طور پر ایرانی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ایران مخالف قوتیں متوقع ایران امریکا ڈیل کے حوالے سے سخت صدمے سے دوچار ہیں لیکن وہ خاطر جمع رکھیں کیونکہ اب ایرانی انقلاب کے حوالے سے سب سے خطرناک مرحلہ سامنے آنے والا ہے جب دوستی کے پردے میں ایران کو بھی سوویت یونین سے روس بنایا جائے گا۔ حال ہی میں ایران میں امریکی تجارتی وفد کا بھرپور خیرمقدم کیا گیا۔ تمام تر سنگین اختلافات کے باوجود ایران میں بھی سرمایہ دارانہ نظام نافذ ہے۔ سابق صدر ہاشمی رفسنجانی اربوں کی جائیداد کے مالک ہیں۔ یہ کیسے مسلمان ہیں؟ جنھوں نے دولت کے پہاڑ اکٹھے کیے ہوئے ہیں اور ان کے بھائی ایک وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں جب کہ ہمارے نبیؐ تمام دولت شام سے پہلے پہلے ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ وہ خود اور ان کے اہل بیت اکثر فاقے سے رہتے تھے۔

عالمی سیاست میں 1965ء کے بعد جس دور کا آغاز ہوا تھا اس کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ 016-2012 2ء سے 2020ء تک دنیا خاص طور پر مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک تاریخ سے ایک نئے باب کا آغاز ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔