مذہبی جنون، فلسفہ اور سماجی انصاف

عمران شاہد بھنڈر  پير 6 جولائی 2015
ibhinder@yahoo.co.uk

[email protected]

پاکستان میں حالیہ دنوں میں سرکاری و غیر سرکاری حلقوں میں مدارس اور مساجد پر تنقید کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ مدارس کی حمایت و مخالفت میں آوازیں اٹھیں، بہت سے دلائل سامنے آئے، جن میں بنیادی نکتہ بہرحال یہی تھا کہ بعض مدارس اور مساجد میں کچھ اس طرح کی تعلیم دی جاتی ہے کہ جس سے مذہبی جنونیت پروان چڑھتی ہے اور ’جہادی‘ جذبات کو فروغ ملتا ہے اور مذہب کی مخصوص ملّائی تشریحات نے سماج میں حسد و نفرت، دہشت و بربریت اور خوف و ہراس کو پیدا کرنے والے جذبات و احساسات کو مہمیز کیا ہے، جس کے گہرے اثرات سماجی عمل پر مرتسم ہوکرسماج کا امن و سکون تباہ کررہے ہیں۔ لہٰذا مدارس اور مساجد کی ’اصلاح‘ کے لیے ضروری ہے کہ اب انھیں جدید تعلیم سے آراستہ کیا جائے تاکہ مذہبی جنون اور فرقہ پرستانہ خیالات سے نجات ملے اور سماج اعتدال پسندی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔

مدارس اور مساجد کی اصلاح کا تصور قابلِ ستائش ہے۔ گلی محلوں میں جنونی ملّاؤں نے جن نفرت انگیز خیالات کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جن کا قلع قمع کرنا بے حد ضروری ہے، یہی نہیں بلکہ سارے ملک کے نظام تعلیم میں فلسفہ کو ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جانا چاہیے، اور اس کا آغاز تیسری یا چوتھی جماعت سے ہی کردینا چاہیے۔ یہ بات ذہن میں رہنی بہت ضروری ہے کہ فلسفہ انسانوں کو الحاد کی جانب مائل نہیں کرتا، البتہ جنونی ملّائیت کی ان مذہبی تشریحات کی تفہیم کی صلاحیت پیدا کرتا ہے جو سماج میں بے چینی و اضطراب، فرقہ واریت اور دہشت پسندانہ خیالات کو جنم دینے کا باعث بنتی ہیں۔ اگر فلسفے میں یہ رجحان ہوتا کہ اس کو پڑھنے سے لوگ دھڑا دھڑ ملحدانہ خیالات کو قبول کرنے لگتے تو مغرب کی چھبیس سو سالہ پرانی فلسفیانہ روایت کہ جس میں خالص ملحدانہ تصورات بھی موجود رہے ہیں وہاں اب تک کوئی بھی مذہبی شخص باقی نہ بچا ہوتا۔

مغربی معاشروں کا گہرا مطالعہ ان حقائق کو آشکار کرتا ہے کہ ان معاشروں میں جس تصور مسیحیت کی شکست و ریخت ہوئی ہے اس کا تعلق تنگ نظر اور متعصب پادریوں کی تشریحات کے ساتھ تھا۔ فلسفیانہ خیالات کی اشاعت سے مسیحی الٰہیات کی جڑیں مزید گہری ہوتی گئی ہیں۔ اگر صدیوں کی فلسفیانہ ذہنی مشق کے باوجود مسیحیت مضبوط فلسفیانہ خیالات کے سامنے ٹکی رہی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ فلسفے کو پڑھنے سے اسلام کا وجود خطرے میں پڑجائے۔ فلسفیانہ تعلیم سے لوگوں میں اعلیٰ سطح پر سیاسی، سماجی اور اخلاقی شعور بیدار ہوگا اور وہ اپنے اوپر مسلط ظلم اور باطل ملّائی خیالات کا شیرازہ موثر طریقے سے بکھیر دیں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فی الوقت ایسے کسی تعلیمی اقدام کا تصور کرنا پاکستان کے تعلیمی نظام میں محال نظر آتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مقتدر طبقات کو اس وقت محض ان ملّائی خیالات سے خطرہ ہے جو ان کی اپنی مطلق العنانیت کو چیلنج کررہے ہیں۔ وسیع پیمانے پر سماجی شعور کی بیداری حکمرانوں کی ترجیح نہیں ہے۔

مذہبی جنونیت کے تدارک کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کی تحسین کے ساتھ ہمیں ایک اس اہم حقیقت کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے جو حالیہ قومی و بین الاقوامی جنگی و دہشت گردی کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے سامنے آتی ہے کہ کس طرح سے ان مذہبی جنونیوں کو ملکی و غیر ملکی روشن اور آزاد خیالوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیا ہے۔ لہٰذا دہشت گردی کی وجوہات محض ایک آئیڈیالوجی میں ہی نہیں بلکہ اس روشن خیال آئیڈیالوجی میں بھی موجود ہیں جو اپنے معاشی، سیاسی اور نظریاتی غلبے کے دفاع کے لیے مذہبی جنونیت کا استعمال کرتی آئی ہے۔

اس طرح مذہبی جنونیت صرف مذہبی جنونیوں کا ہی خاصہ نہیں رہتی، بلکہ اس جنونیت کی احتیاج ان ’’ترقی یافتہ‘‘ ممالک کے ایوانوں میں بھی محسوس کی جاتی ہے، جو ہمہ وقت ’جمہوریت اور آزادی‘ کا راگ الاپنے میں مصروف رہتے ہیں۔ حالیہ جنگوں اور دہشت کی تاریخ یہ بھی آشکار کرتی ہے کہ روشن خیال اور مذہبی جنونی ضرورت پڑنے پر ایک ہی صفحے پردکھائی دیتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ مذہبی جنونی ’جنت‘ اور ’حوروں‘ کے حصول کے لیے ہمہ وقت متضاد نظریات رکھنے والوں پر خودکش حملہ کرنے کے لیے تیار رہتا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس جنونی خودکش حملہ آور کو استعمال کرنے کی احتیاج ان روشن خیالوں کے سامراجی اور توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے تصور میں موجود ہوتی ہے۔

دوسری جانب دیکھیں تو ان مدرسوں اور تنظیموں پر پابندی کی ضرورت سماجی فلاح یا اصلاح کے تصور کے تحت نہیں ہوئی، بلکہ اس وقت محسوس ہوئی ہے جب حقیقی معنوں میں مذہبی جنونی اس حد تک طاقتور ہوچکے ہیں کہ ان کے نظریاتی مفادات ان قومی و بین الاقوامی روشن خیالوں کے مفادات سے براہِ راست ٹکرانے لگے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سماج ظلم و دہشت کے نظام پر قائم ہو، تشدد وبربریت اس کی ہیئتوں سے پھوٹ رہا ہو، نفرت و حسد اس کی بقا کی ضمانت بن جائے، ناانصافی اس کا جزوِ لاینفک بن جائے، خوف و ہراس کے پھیلاؤ میں اس کی عافیت ہو تو پھر دہشت و بربریت، جنگوں اور قتال کے جواز کے طور پر اگر مذہبی جنون یا فرقہ پرستی نہیں ہوگی تو قوم پرستی، علاقہ پرستی، رنگ، نسل اور لسانی امتیازات ہوں گے۔ مگر جنگ و دہشت کا یہ سلسلہ رکے گا نہیں!

پاکستان جن حالات سے آج گزر رہا ہے، مغرب میں اسی قسم کے حالات اٹھارویں صدی کے دوران میں دکھائی دیتے ہیں۔ جب فرانس میں صنعت کے ارتقا سے متوسط طبقات زور پکڑ رہے تھے، کلیسا جو جاگیرداری کی طرف دار تھی وہ اپنے مسیحی نظریات کی آڑ میں نئے ابھرتے ہوئے طبقات کو زیر کرنا چاہتی تھی۔ لہٰذا اس وقت روشن خیالی وقت کی ضرورت تھی۔ مغربی فلسفہ جس کا غالب حصہ الٰہیات ہی کی توسیع پر مشتمل ہے اس نے روشن خیالی کو پروان چڑھایا۔ روشن خیالی کے احیا سے مسیحی الٰہیات پادریوں کی مخصوص تنگ نظر تشریحات سے نکل گئی ہے۔ آغاز میں مغربی سماج کے اندر بھی یہی خوف رائج تھا کہ اس طرح تو مسیحیت کا خاتمہ ہوجائے گا اور سارا سماج ملحد بن جائے گا۔ الحاد کے تصور کی جڑیں فلسفیانہ خیالات میں اتنی گہری راسخ نہیں ہوتیں جتنی مضبوط اس کی جڑیں سماجی ناانصافی کے تصور میں پیوست ہوتی ہیں۔

دو سو برس کا عرصہ گزر جانے کے بعد مغربی سماج میں مسیحیت کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ الٰہیات جس کا کہ اپنا دائرہ بہت وسیع ہے اس نے خود کو فلسفے میں ضم کرنے کے بجائے فلسفیانہ خیالات کو ایک مختلف سطح پر استوار کیا ہے۔ اور دوسری طرف فلسفے نے مسیحی الٰہیات کی فلسفیانہ توجیحات کرکے اس کو نہ صرف بچانے بلکہ دوام عطا کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ فلسفے کا یہ ارتقا اور مسیحی خیالات کی ترویج مسیحیت کی نہیں بلکہ فلسفے کی اپنی شرائط کے تحت ہی ہوئی ہے۔ تاہم یہ بات اب بہت واضح ہوچکی ہے کہ فلسفے اور مسیحی الٰہیات کے درمیان کوئی ایسا تضاد موجود نہیں رہا ہے جس نے پادریوں کو خوف میں مبتلا کررکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی سماج میں اب تنازعات کا محور مذہب نہیں ہوتا، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مغربی سماج میں تشدد و دہشت کے عوامل ناپید ہوچکے ہیں۔ حقیقت میں ان کا اظہار اب مختلف داخلی و خارجی سطحوں پر ہوتا ہے۔

داخلی سطح پر مسیحیت اور فلسفے کے تضاد کے خاتمے سے یہ رنگ، نسل اور قومیت کے تضاد میں تبدیل ہوکر سماج کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا جارہا ہے۔ اگرچہ یہ تضاد نائن الیون کے بعد مسلمانوں کے خلاف مذہبی بنیادوں پر ہی پیدا ہوا ہے، مگر اس تضاد کو پیدا کرنا روشن خیالوں کی توسیع پسندانہ آئیڈیالوجی کا حصہ تھا، جو اس تضاد کی خارجی وجہ تھی۔ اس تضاد کی جڑیں مذہبیت میں اتنی گہری نہیں تھیں جتنی کہ روشن خیالی کے اس تصور میں کہ اسلام میں ’’جمہوریت اور آزادی‘‘ کی گنجائش نہیں ہے۔ سماجی اقدار کے ساتھ اسلام کو جوڑنے کا مطلب یہی تھا کہ مغرب کے لوگ جن کے اذہان میں مسیحی مذہبی جنون اپنی شدت پسندانہ شکل میں موجود نہیں ہے ان کے سامنے اسلام کے ان ’منفی‘ پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے جن کے بارے میں یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ یہ مغربی تہذیب سے متصادم ہیں، یعنی اسلام اس لیے مخالف نہیں ہے کہ وہ مسیحیت کا حریف ہے، بلکہ اس لیے کہ اس میں جمہوریت اور آزادی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اس قسم کے خیالات کو پروان چڑھانے کا جو ذمہ مغربی ذرائع ابلاغ نے اٹھایا اس کی جڑیں خود سرمایہ داری کے توسیع پسندانہ اہداف میں پیوست تھیں۔ لہٰذا فلسفیانہ خیالات کی ترویج و اشاعت میں مسائل کا دیرپا نہیں وقتی حل موجود ہے، جب کہ مستقل حل اس تصور میں مضمر ہے کہ سماجی نظام سے ناانصافی، عدمِ مساوات ظلم و استحصال کا خاتمہ کردیا جائے ، مگر سرمایہ داری نظام اس ’حل‘ کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔